غرض مجھے اس سے ہے/حسان عالمگیر عباسی

دو ہزار دو میں ایک انتخابی دنگل سجا تھا۔ مجھے اس وقت دنیا میں آئے چھ سال ہوئے تھے۔ لیکن ہمارے انتخابی کلچر کی جھلکیاں یاد پڑ رہی ہیں۔ سفیان عباسی صاحب بھی ان انتخابات کا حصہ تھے اور مری کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی نے کسی کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ مجھے اس سے خاص غرض نہیں ہے۔ بڑے ہوئے اور ہوتے ہوتے دو ہزار بائیس آ گیا اور آج کل انتخابی کیمپین زور و شور سے جاری ہے۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں ہے۔ انتخابات ہماری تاریخ میں ہوتے آرہے ہیں اور ہوتے رہنے ہیں۔ اس جمہوریت نے بہت چنیدہ رہنما ہی تیار کیے ہیں جو معاشرے کے لیے سود مند ہیں۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں ہے کیونکہ اس نظام سے اچھے کی توقع رکھنا ناامیدی ہے۔ جمہوریت وہیں پھل پھول سکتی ہے جہاں عوام باشعور ہے اور نتیجتاً یہ نظام عوامی شعور میں اضافے کا سبب بن سکتا ہو۔

غرض مجھے اس سے ہے کہ اس لا معتدل غیر برابر نظام میں بھی ایسی قیادت میسر آ جائے جس کا ایمان وژن سوچ امنگ امید لگن عوام اور عوامی خدمت ہو۔ غرض اس سے ہے کہ جو مٹی مٹی میں بھی سبز انقلاب کی نوید سنائے بلکہ چند قدم آگے بڑھے اور باغات کو سبزی سبزی کر ڈالے۔ یہ ہلکی سی جھلک ہے۔ یہ قیادت ہی کہلاتی ہے جو تمام طبقات کو یکجا کرڈالے۔ جو چھوٹے کاروبار پہ یقین رکھتا ہو تاکہ گھر گھر معاشی طور پہ آزاد ہو جائے۔ جو بیج پہ یقین رکھتا ہو تاکہ وہ پودے پودے ہو جائیں اور دیکھتے ہی دیکھتے رنگینیاں بکھیرتے پھل پھولوں سے بھر جائیں۔

مجھے غرض اس سے بھی ہے کہ اس قائد کی زبان سے زیادہ اس کے ہاتھ پیر چلتے پھرتے نظر آئیں۔ جو وژن وژن اور بس وژن ہو۔ ایسے دبنگ انقلابی قائد کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہیں کیونکہ بالآخر یہ جمہوریت کی ہی فتح ہے۔ کہنے کو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن کہنے سے زیادہ نظر آرہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں اور نظر بھی رکھتے ہیں۔ سب ہی دیکھ رہے ہیں۔ سب سارے آزمائے جا چکے ہیں۔ اب ہمیں وژن آزمانا ہے۔ موقع دینا ہے۔ مری کی سرزمین نے بہت بلند لوگ پیدا کیے ہیں۔ یہی لوگ دراصل نمایندگی کا حق رکھتے ہیں۔ یہی لوگ چار چاند لگا سکتے ہیں۔

سفیان صاحب چوبیس سات متحرک شخصیت ہیں۔ اگر کسی کو شک ہے تو ان کا سوشل میڈیا یہ شک باآسانی دھو سکتا ہے۔ صبح و شام، دن رات، اندھیر روشنی، سردی گرمی، آج کل، پہلے ابھی ہمہ وقت حرکت میں رہنے والے ہی نمایندگی کا حق رکھتے ہیں۔ عدالت سے حق منوانا ہو یا کچہری سے حقوق لینے ہوں یہی قیادت نظر آرہی ہے۔

ماضی بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مجھے معلوم نہیں لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہی متحرک رہے ہیں اور عاجزانہ دبنگ دلیری ہی ان کا شیوا ہے۔ عوام کی نمایندگی وہی کر سکتا ہے جو عوام میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ جو بھوک صرف کتابوں میں ہی نہیں پڑھتا۔ جس نے ٹھنڈ برداشت کی ہوتی ہے۔ جسے معاشرے کی گلیوں کوچوں تک کے مسائل سے بھی آگاہی ہے۔ جو جرگوں مشوروں پہ یقین رکھتا ہے اور مسائل کو اجاگر کرتا ہے اور بہترین حل بھی پیش کرتا ہے اور عملاً جت جاتا ہے اور رفقاء کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔

ٹریکٹر، باغبانی، مرغی، انڈے، پکی سبزی، پھل اور ویران باغات کو سبزہ دینا ایک وژنری ہی کر سکتا ہے۔ حلقے کے مسائل کو حل کرنا اور عوامی خدمت ایک نری مثال ہے۔ ڈاکٹرز کا آنا اور عوامی صحت پہ کام کرنا سب جانتے ہیں۔ یہ تب ہو رہا ہے جب نمایندگی نہیں سونپی گئی ہے۔ اگر نمایندگی دے دی جائے تو یہ مری کو افغانستان سے یورپ تک پہنچا سکتے ہیں۔ مجھے صرف اسی سے غرض ہے کہ باصلاحیت کھلاڑی نمایندہ وہاں ہونا چاہیے جہاں اسے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مری اور مری کے باسی بتا سکیں کہ مری کی زمین کسی بھی طرح بنجر نہیں ہے۔ یہ سب آپ کی شخصیت کا دو بٹا سو ہے۔ مزید بھی جب تک آنکھوں میں روشنی ہے ان شاءاللہ دیکھتے رہیں گے۔ آپ کی عملی وژنری شخصیت پہ ایک زبردست شعر بیٹھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply