بنکاک میں آخری شب/ناصر خان ناصر

آج دوپہر دو بجے ڈرائیور نے ہمیں اپنے ہوٹل Novatel سے پک کیا اور ائیر پورٹ چھوڑنے کے لیے روانہ ہوا۔ کئی  جگہ پر بے پناہ رش کی بدولت ٹریفک چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھی۔ ڈرائیور صاحب نے اپنے داؤ  پیچ لڑائے اور انی وا دائیں بائیں شائیں شائیں کرتے ہوئے اڑنچھو ہوئے۔ ہم نے دل ہی دل میں کلمہ پڑھ کر اپنی آنکھیں موند لیں۔
آنکھیں کھولیں تو محترم ڈرائیور صاحب شاہراہ چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل رہے تھے۔ کافی ہوشیار آدمی تھے اور لگتا تھا کہ محترم نے انہی گلیوں کی خاک چھانتے ہوئے اپنی عمر رائیگاں کی ہے۔
انھوں نے وقت سے قبل ہمیں ائیر پورٹ پہنچا دیا۔ اس ٹرپ کے آخری دنوں میں ہمارے ٹور کے منتظم ڈینی صاحب نے ہمیں وی وی آئی  پی ٹریٹمنٹ دینا چھوڑ دیا تھا۔ وگرنہ اس سے قبل ہر جگہ خاتون ٹور گائیڈ اپنی ٹور علیحدہ دکھاتی تھی اور میاں ڈرائیور ہمارے نخرے جو سرے سے تھے ہی نہیں، الگ سہتا تھا۔
منزل مقصود پر پہنچتے ہی ان دونوں خاتون و حضرت میں لپک کر دروازہ کھولنے اور ہمارا اکلوتا بیگ اٹھانے میں زبردست کمپیٹیشن ہوتا تھا۔ ہم امپائر کی طرح انگلی اٹھا کر آخری فیصلہ کرتے اور اپنا بیگ خود اٹھا لیتے۔ دونوں کھلاڑیوں کے منہ اور موڈ سیڑھیاں اتر جاتے جو ہمیں دونوں کو تگڑی ٹپ دے کر بحال کرنے پڑتے۔
ائیر پورٹ پر پہنچ کر ہمیں ڈینی صاحب کو پھر کال کرنا پڑا۔ اس سے قبل ہر جگہ نئی  گائیڈ صاحبہ ہمیں گود لیے بچے کی طرح انگلی پکڑ کر کاؤنٹر پر لے جاتی تھیں۔ وہاں تھوڑی سی چیاں چوں چواں کرتیں، اپنی نگرانی میں لیا ہوا ہمارا پاسپورٹ کاونٹر پر بیٹھے فرد کو تھما کر ہمارا مکھڑا دونوں ہاتھوں سے بلائیں لیتے ہوئے اسے یوں دکھاتیں جیسے ہم چوتھی کے دولہا راجہ ہوں۔
پھر لپک کر ہمارا بورڈنگ پاس لیتی اور ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں سکیورٹی کی لائن تک پہنچا کر دم لیتی۔ تب تک ہم اس کی خدمت گزاری سے اتنی بری طرح پسیج  چکے ہوتے کہ اپنا بٹوہ کھول کر ساری نقدی اور دل شرما لجا کر اسے دوبارہ نقد دان کرتے اور ایک لمبی سرد آہ بھر کر اپنی راہ ہو لیتے۔
ہم نے تھائی  لینڈ میں ہر جہاز کو یوں لیٹ پایا گویا وقت پر اڑنا کسی شاہی منادی کی بدولت ممنوع قرار دیا جا چکا ہو۔ آج بھی جہاز گھنٹہ گھنٹہ کر کے دو گھنٹے لیٹ ہوا اور ہم نے ڈینی صاحب کو تین بار دہائی  دی۔ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں ائیر پورٹ پر ہمیں اپنے ہوٹل تک لے جانے والا بندہ یا بندی ہم سے مایوس ہو کر واپس نہ پلٹ جائے۔ محترم ڈینی صاحب گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوتے تھے اور غالبا اس صورت حال کو ڈیلی basis پر ڈیل کرنے کے عادی تھے۔ ان کے ماتھے پر کبھی کوئی  بل نہ پڑا، نہ ہی انھوں نے ہمارے ساتھ مل کر نگوڑی ائیر لائن کے قصیدے گائے نہ ہی ائیر ہوسٹسوں کے درجات بلند کیے۔
اپنے دل کی بھڑاس مکمل نکال لینے کے بعد ہم بھی چین سے بیٹھ گئے اور ایک شاپ سے ناریل لے کر اس کا فرح بخش ٹھنڈا میٹھا پانی مزے لے لے کر پینے لگے۔
کہیں جائیے گا مت۔ ہم مینا کماری ہوتے تو کچھ یوں کہتے:
للہ!
ہمیں اور ہماری تحریر کو چھوڑ کر چلے مت جائیے گا، چند لمحوں کے لیے پلکوں کی چلمن کو اکھیوں کی کنول پنکھڑیوں پر گرا کر دو گھڑی استراحت فرما لیجئے۔ کسی مدھر سپنے کی معطر چنبیلی کا پھول ہی سونگھ لیجئے۔
تب تک ہم بھی آنکھیں موند کر آپ کے ستاروں بھرے سپنے نہ دیکھ لیں؟
یہ سلسلہ چند ہی معطر سانسوں، سنہرے خوابوں اور ٹوٹتی انگڑائیوں کی مدہوشیوں سنگ وہیں سے جڑے گا جہاں سے ہم نے اسے توڑنے کی غلط جسارت گستاخی معاف کہے اور آپ کی اجازت حاصل کئے بنا ہی کر دی۔
ہماری خطاوں کی لمبی لسٹ میں اک گناہ اور سہی مگر آپ تو دیالو ہیں اور حد درجہ رحم دل۔
آپ ہمیں معاف نہ کریں گے تو ہم بھلا اک پل بھی جی سکیں گے؟
للہ جلد ہی لوٹ آئیے گا۔۔۔
ابھی ہم آپ کو کوریا ٹاون کی ان تاریک گلیوں میں لے جائیں گے جہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں۔ جہاں لمبے ملائم بالوں والی جاپانی گڑیا جیسی نازک کچی کونپلیں، اتنی معصوم نظر آنے والی بچیاں اپنی عزتوں کے سودے کرنے کے لیے بس سٹاپوں پر لائین لگا کر گاہکوں کے انتظار میں کھڑی رہتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply