کٹ پیس اور میرے پاس تم ہو۔۔ذیشان نور خلجی

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے ” آج کے دور میں اظہار رائے کو دبایا نہیں جا سکتا۔” پہلے پہل ہم نے کوشش کی تھی چند ایک پابندیاں لگا کر اور سرکاری اشتہارات کی بندش سے۔ لیکن پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسا کرنا بے سود ہے۔ اس لئے وزیر اعظم نے اب قوم کو مشورہ دیا ہے کہ آپ ٹاک شوز اور نیوز چینل ہی دیکھنا بند کر دیں۔
حکومت سے چھیڑ چھاڑ تو چلتی رہے گی۔ آئیے کچھ بات کرتے ہیں “میرے پاس تم ہو” پر۔
قارئین ! آپ تو جانتے ہیں میرے پاس بھونڈے موضوعات کی کبھی کمی نہیں رہی کہ اب لکھنے کو صرف فلموں اور ڈراموں کی باتیں رہ جائیں۔ لیکن “میرے پاس تم ہو” ایک ایسا اہم سیریل ثابت ہوا ہے جس کی باز گشت عدلیہ کے ایوانوں تک سنی گئی۔ آپس کی بات ہے میں نے اس سیریل کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی۔ البتہ اس پلے کے رائٹر خلیل الرحمان قمر کا ایک انٹرویو ضرور دیکھا ہے۔ جس میں مجھے وہ ایک انتہائی باوقار اور مہذب شخصیت کے طور پر دکھے۔ عورتوں کے معاملے میں انتہائی باادب اور ایک سچے فیمینسٹ۔ سچ کہوں تو اپنی ازلی عادت کے باعث میں بہت جلد ان سے متاثر ہو گیا۔
سننے میں آیا ہے ان کے بیانیے کے خلاف وہ خواتین سراپا احتجاج ہیں جو خود بھی فیمینسٹ کہلواتی ہیں۔ پتہ نہیں، وہ کیسی عورتیں ہیں جن کو اپنی عزت اور احترام کروانا پسند نہیں۔ہاں، ہوتے ہیں کچھ لوگ بالکل اس مینڈک کی طرح، اسے جب کرسی پہ بٹھایا گیا اس نے جھٹ سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اپنا حقیقی مقام باور کروا گیا۔
قارئین ! میں بھی فیمینسٹ ہوں۔ عورتوں کی عزت کرتا ہوں بلکہ میرے نزدیک عزت، عورت کا دوسرا نام ہے۔ ہفتے کے دن کی بات ہے جی ٹی روڈ سے گزر رہا تھا۔ ایک خاتون کو دیکھا جو موٹرسائیکل چلا رہی تھیں۔ دل بہت خوش ہوا کہ اس گھٹن زدہ ماحول میں کیسے، شان سے جئے جا رہی ہیں۔ خواہش جاگی کہ گاڑی روک کے انہیں خراج پیش کروں۔ لیکن پھر خلیل الرحمان قمر کی فیمنیسٹ عورتوں سے بنی درگت دیکھ کے خواہش کو دل میں دبا گیا۔ کہ ٹھیک ہے میں شکل سے تو لچا نہیں لگتا، (گو درون خانہ معاملہ کچھ اور ہے) لیکن اگر میری طرح وہ خاتون بھی فیمینسٹ ہوئیں تو۔ شاید لوگ سچ کہتے ہوں پتھر سے پتھر ٹکرائے تو چنگاریاں نکلتی ہیں۔
خیر ! اس رات قریباً ڈیڑھ بجے واپسی ہوئی۔ آخری قسط چونکہ گزر چکی تھی۔ سوچا، آن لائن دیکھ لیتا ہوں۔ لیکن پیکج ختم ہو چکا تھا اور مارکیٹ بھی بند ہوچکی تھی۔ سو نزدیکی پان شاپ سے دو پیکٹ سگریٹ کے لئے اور گھر کی راہ لی۔ رات گئے ایک خاتون سے ڈرامے متعلق گفت و شنید ہوئی۔ وہ ایسے ڈرامہ جات کی دلدادہ ہیں یا یوں کہئے ایسی ڈرامے بازیوں کی ماہر ہیں۔ کہنے لگیں کہ ڈرامے کا اختتام بالکل عمرانی حکومت کی گورننس جیسا ہوا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یقیناً عوامی توقعات کے خلاف تھا۔ آخری قسط آنے سے پہلے، چونکہ یہ شوشہ چھوڑا گیا تھا کہ ڈارمے میں کچھ اموات ہوں گی۔ اس لئے عوام یہی سمجھے کہ ولن کا رول ادا کرنے والے شہوار اور مہوش مر جائیں گے اور پھر دانش ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے گا۔ کچھ منچلے تو ایسے پھپھولے اڑاتے نظر آئے کہ ڈرامے کی ساری کاسٹ مر جائے گی اور صرف بھٹو ہی زندہ بچے گا۔ گو کہ میں نے سیریل نہیں دیکھا تھا لیکن گردش کرتی افواہوں سے میں نے بھی یہی اندازہ لگایا تھا کہ ولن مر جائے گا اور ہیرو بچ جائے گا۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، میرے خیال میں ڈرامے کا اختتام بالخیر کچھ اس انداز سے ہونا تھا۔
کہ دانش کے سب دکھوں کا مداوا، رائٹر خلیل الرحمان قمر کچھ اس انداز سے کریں گے کہ عوام بے حد خوش ہوں گے بالخصوص مرد حضرات۔ جیسا کہ دانش حرا مانی سے شادی کر لے گا۔ پھر وہ سویرا ندیم سے بھی شادی کر لے گا جو کہ شہوار کی بیوہ ہو گی۔ اس کے بعد وہ مہوش سے بھی کبھی کبھار معافی مانگنے آ جایا کرے گا۔ بالکل ایسی معافی، کہ ایک مطلقہ کے ہاں جب طلاق کے دو سال بعد بچہ ہوا۔ تو کسی نے پوچھا کہ تمھیں طلاق ہوئے تو کافی عرصہ بیت چکا۔ پھر یہ سب کیا؟ وہ کہنے لگی کہ بس وہ کبھی کبھار معافی مانگنے آ جاتے ہیں۔
قارئین ! جتنے ظلم دانش پر ہوئے تھے اتنا تو اس کا حق بنتا تھا۔ خیر ! آپ جانتے ہیں بجائے ہنسی خوشی رہنے کے، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ الٹا دانش کی اچانک اور جواں سالہ موت نے اس کی مطلقہ اور دو متوقع بیویوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
لہذا میری ذاتی رائے ہے کہ ایک کیس ڈرامے کے غیر متوقع اختتام پہ بھی دائر کرنا چاہیے کیونکہ رائٹر نے ہیرو کو مروا کر ہمارے جذبات کے ساتھ شدید قسم کا کھلواڑ کیا ہے۔ اور اب میرے نزدیک خلیل الرحمان قمر فیمینسٹ کیا، ایک خالص مردانہ سوچ رکھنے والے شخص بھی نہیں رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply