تعلق کا نشان/ساجد محمود

کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا انجام ہوتا ہے تو وہ وہیں ختم ہوجاتی ہیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ جو انجام کے بعد بھی چلتی رہتی ہیں، کرداروں کی زندگی کے خاتمے تک۔ یہ بعد والی کہانی ہے۔ ایسی کہانیوں کے ساتھ ایک common مسئلہ ہوا کرتا ہے اور وہ یہ ہوتا ہے یہ اپنے کرداروں کے اندر کہیں “تعلق” کا نشان چھوڑ جاتی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ شاید کوئی محبت کی کہانی ہے تو بتاتا چلوں کہ جی ہاں! محبت کی ہی ہے۔

محبت میں پہلے تعلق بنتا ہے اور اسکو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنی نیچر میں کسی بھی دنیاوی رشتے سے ماورا ہوتا ہے ۔ ہمارے اس معاشرے میں ایسے تعلق کو جو کہ “قدرتی” نہیں ہوتا، “قدرتی” بنانے کیلئے، اسکو رشتے کے درجے پہ promote کرنا ضروری ہوتا ہے۔ رسوم و رواج، معاشی رکاوٹوں، مادی ضروریات، خوف خدا، استخاروں اور قدرتی رشتوں کی محبت کے آڑے آنے کی وجہ سے اگر یہ تعلق رشتے کا مقام حاصل نہ کر پائے تو اسکا غم کسی ایک یا دونوں محبت کرنے والوں کی پیشانی پہ جا سجتا ہے اور موقع پاتے ہی گھپ اندھیری تنہا راتوں اور کیفیتوں میں نہ صرف چمکتا ہے بلکہ اجالا بھی کرتا رہتا ہے اور کوشش یہ کرنی ہوتی ہے کہ اجالا وجود کی دیواریں پھلانگ کے باہر نہ جانے پائے کیونکہ باہر والے بہت لعن طعن کرتے ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کہانی کو بیان کرنے والا ایک مرد ہے ۔

کہانی چونکہ محبت کی ہے تو exactly یہ تو بتانا مشکل ہے کہ شروع کب ہوئی، وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ مختصراً کہوں تو کسی فیصلہ کُن بد قسمت لمحے میں اندر ہی اندر کہیں دل کے علاقے میں کیمیکل امبیلینس کے بعد ڈوپامین کے اخراج نے شریانوں میں خون کا دبائو بڑھایا، اچانک سے شارٹ سرکٹ ہوا اور دل کا دماغ سے تعلق منقطع ہوگیا۔ آنکھ کا فوکس بڑھا اور اس نے صرف ایک چہرے کو زوم ان کرکے، باقی منظر فیڈ آئوٹ کردئیے اور کہانی شروع ہوگئی ۔

یہ لڑکپن کی محبت نہیں تھی جو کھلے سمندر کی موج جیسی ہوتی ہے کہ ساحل کو لپکتی ہے اور پھر لوٹ جاتی ہے۔ یہ ایک میچور آدمی کی محبت تھی، جسکی زندگی میں چاند کی چودھویں آتے ہی موجوں میں مدوجزر کی کیفیت طاری ہوگئی اور جب تک وہ عورت اس مرد کی زندگی میں رہی، چاند چودھویں کا ہی رہا۔

اظہار محبت سے پہلے کے دور میں چھپن چھپائی کا کھیل زیادہ تھا ۔ آنکھیں دن بھر شرارت کرتیں اور عام سے یکدم خاص ہونے والے چہرے کو ہر نگاہ کے ساتھ چوری چوری پتی پتی کر کے دل میں جمع کرتی رہتیں اور رات کو وہ پورا گلاب بن کے میرا پورا وجود مہکانے لگتا۔ قانون فطرت پہ راتیں ہمیشہ سے اندھیرا لئے آتی ہیں اور دن روشنی ہی کیا کرتا ہے لیکن مجھے اس اندھیرے اور اجالے کا احساس اور اس کے معنی اس عورت کے زندگی میں آنے کے بعد سمجھ آنے لگے۔ ایک احساس البتہ فطرت کے اصولوں میں سے الٹا ہوا وہ یہ تھا کہ گرمیوں میں دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن میرے لئے دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوگئیں تھیں، قانون فطرت سے ماورا، صرف اس اپسرا کے اپنے اردگرد موجودگی اور غیر موجودگی سے منسلک! اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی الٹی ہوئی۔محبت کی اس کامیاب نقب سے پہلے، نیند آتی تھی، آنکھیں بند ہوتی تھیں اور خوابوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا مگر اب پہلے خوابوں کا سلسلہ شروع ہوتا، آنکھیں کھلی رہتیں اور نیند اڑ نے لگتی۔

خیر بات تھوڑی لمبی ہوگئی، اس سے پہلے کے آپ بور ہونا شروع ہوں، اگلے سنگ میل کیطرف چلتے ہیں جو کہ اظہار محبت کا تھا۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ محبت کی کہانیوں میں مرد، عورت کو رام کرنے کیلئے بہت سے ہتھیار استعمال کرتا ہے یا وہ اس سے سرزد ہوتے ہیں جانے انجانے، وقتا فوقتن یا ضرورتن۔ محرومی دیکھ لے تو مسیحا، خوف دیکھے تو اپنے آپکو سکیورٹی پہ معمور کرلیتا ہے اور کبھی دیوی جی کو نظرانداز کرنے کا اپمان کرکے انہیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان میں سے صرف آخری ہتھیار مرد خود استعمال کرتا ہے باقی عورت اس سے استعمال کرواتی ہے اور یہ بات مرد کو بہت بعد میں پتہ چلتی ہے۔ یہ سب ہتھیار وہ ہیں جو مرد دیوتا کے روپ میں استعمال کرتا ہے۔

لیکن ایک ہتھیار اور بھی ہے اور وہ ہے ہمدردی حاصل کرنے کا، یہ شاید مرد، عورت کے اندر کی ماں جگانے کیلئے کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس روپ میں عورت کی محبت شاید سب سے خالص ہوتی ہے۔ لیکن اس ہتھیار کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسکی عمر تھوڑی ہوتی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ دیوی کو جلد یا بدیر اپنے لئے دیوتا ہی چاہئیے ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ مرد بھی دیوتا کا روپ چھوڑ کے مشکل میں ہی ہوتا ہے۔

ہتھیاروں کے استعمال کے بعد سرنڈر کرنے کا وقت آن پہنچتا ہے ۔ یہ سرنڈر عین ہمارے معاشرے کی روایتوں کے مطابق ہوا۔ مرد نے پہلے گھٹنے ٹیکے، پھر سفید پرچم لہرایا اور ساتھ ہی اپنی ہار کا اعلان کردیا۔ جیسے ہی میں نے اپنی ہار کا اعلان کیا، عورت نے کہا، مبارک ہو! تم نے مجھے جیت لیا ۔ یہ واحد سرنڈر ہوتا ہے جسے میں مرد خوشی محسوس کرتا ہے۔

کہانیاں یہیں ختم ہوجایا کرتیں تو سب ہنسی خوشی رہنے لگا کرتے۔ میں ابھی اظہار محبت کے بعد اس گمان میں تھا کہ بس ورلڈ کپ مل گیا سمجھو لیکن دیوی جی نے مجھے سمجھایا کہ میری جان! یہ تو پہلے راؤنڈ کی جیت تھی، حصول تو ابھی دور ہے۔ پھر وہ تھوڑا اوپر اٹھنے کے بعد تھوڑا پیچھے ہٹیں، ایک فاصلہ create ہوا اور اس فاصلے کو بھرنے کیلئے انہوں نے خاندانی و معاشرتی قبولیت، چند رسوم و رواج، تھوڑی سی مادی ضروریات اور بہت ساری خواہشات بکھیریں، ان سب کو ایک لڑکی کے ارمان کا نام دیا اور کہا کہ بس انکو چن لو تو میں تمہاری!

مالک اور غلام کا رشتہ بھی عجیب ہے، غلام جب کسی کو مالک بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو مالک اسکی نظروں سے اوجھل ہو کے ہر سو ہوجاتا ہے اور غلام خود، مالک کی نظروں سے اوجھل ہو کے اپنا وجود کھو دیتا ہے لیکن جب جب مالک کا دھیان غلام پہ پڑتا ہے، اسکو اس میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور دکھائی دیتی ہے۔ مرد کی غلامی کی وجہ محبت کا حصول تھی تو وہ فاصلہ سمیٹنے میں لگ گیا لیکن عورت کہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کی غلام بن کے واقعی مالک بن بیٹھی اور ضرورتا فاصلہ گھٹانے اور بڑھانے میں لگ گئی۔

خیر محبت کی تھاپ پہ ایک رقص مرد کے اندر پہلے ہی رواں تھا جو اردگرد کے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھا، اور اس میں ابھی تھکاوٹ کا عنصر نہیں آیا تھا لیکن اب اس نئی تھاپ پہ جو دیوی جی نے بجائی اس پہ بیرونی رقص شروع ہوا تو وہ سب کو نظر آنے لگا۔ حکم کی بجا آوری ضروری تھی تو وہ ہاتھ جن کی انگلیاں تھام کے مرد نے چلنا سکھانا تھا، ان سے اپنا لمس چھین لیا۔ وہ ہاتھ ساری عمر دعائوں کیلئے اٹھتے تھے، ان کا منہ آسمان سے زمین کیطرف کردیا۔ ان سب میں اسے اپنے ہاتھوں کے خالی رہ جانے کا احساس ابھی نہیں ہوا تھا۔ اس دوران دیوی جی کے اپنے علاقے میں میرے بارے میں بولے گئے وہ جھوٹ جن سے انکا شملہ اونچا ہوتا تھا، انکو سچ کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھا۔

ان سب ذمہ داریوں اور نا انصافیوں کو نبھاتے نبھاتے ایک روز ذرا سا تھک کے دیوی جی سے کہا “سنو دیوی! میری محبت اپنی جگہ قائم ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ فاصلہ جو آپ نے اوڑھ رکھا ہے مجھ سے طے نہیں ہوپائے گا شاید۔ دیوی جی نے ایک نگاہ مجھ پہ ڈالی اور اچانک اس میں سے ایک بہت شناسا سا، اپنا سا عورت نما ہیولہ نکل آیا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں چھپایا ہوا سب سے خطرناک ہتھیار نکالا اور کہنے لگی کہ “مجھے ڈر تھا کہ تم مجھے چھوڑ جائو گے، تم کبھی دیوتا سمان نہیں ہو سکتے۔ تم میں ہمت ہی نہیں ہے۔” اسکے اندر کی عورت باہر آنے کی دیر تھی کہ میرا دیوتا باہر نکل آیا، میں نے اسکے ہتھیار کو زمین پہ گرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں پہ سجایا اور نئے عزم کے ساتھ اپنی غلامی اور انکے ارمان پورے کرنے کی ڈیوٹی کا وعدہ کر کے دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا۔

غلام کو کبھی ذاتی زندگی میں نا انصافیوں پہ ضمیر کی آواز تنگ کرتی۔ کبھی دیوتا کے روپ اور اسکی آزادی کی یاد ستاتی تو ضمیر اور دیوتا دونوں اسے محبت کے واسطے دے کے خاموش کروادیتے۔ اس اندرونی جنگ کو لڑتے ہوئے مرد نے اپنی استطاعت میں جب سارے ارمان پورے کرچکا تو وہ وقت آگیا کہ منزل کے حصول کیلئے اپنے قدرتی رشتوں سے اجازت چاہی کہ مجھے اب اپنا آپ تلاش کرنے کیلئے جانا ہے تو انہوں نے جواب میں بڑے دکھ سے صرف یہ کہا کہ “حسرتیں پوری کرلینی چاہئیں۔”
یہ مرد کیلئے محبت کا نیا اور حیران کن روپ تھا جو کہہ رہا تھا کہ مجھے تم سے بہت محبت ہے، تم ہمیں چھوڑ کے چلے جائو۔ اور وہ آخر میں اپنا اصل بھی وہیں چھوڑ کے نکل آیا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بس اب تو کہانی کی ہیپی اینڈنگ ہونے والی ہے۔ ملن ہوا کہ  ہوا۔ لیکن آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اس سب میں عورت کی محبت کہاں ہے؟ تو بتاتا چلوں کہ وہ وہیں تھی، اسکے دل میں ! لیکن اس پہ خوف کی کائی جم گئی تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرے اتنا سب کچھ کرنے کے بعد خوف تو ہونا ہی نہیں چاہئیے تھا۔ لیکن اسے خوف تھا اور وہ مرد کے قدرتی رشتوں سے تھا۔ جو “حال” لے کے مرد اسکی زندگی میں آیا، اپنی اور اس عورت کی خواہش پہ مرد نے اس “حال” کو “ماضی” بنانے کی پوری کوشش کی لیکن عورت روز اس کے “ماضی” کو زندہ کرتی اور روز خوفزدہ ہوکے ہر دوسرے روز چھوڑ کے جانے کی بات کرتی۔ اس خوف کے بڑھتے ہوئے اثر سے گبھرا کے ایک روز میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہ کیوں نہیں دیکھتی کہ میں آگیا ہوں۔ میں نے فاصلے کی سب رکاوٹیں چن دی ہیں۔ میرے اردگرد، میرے اپنوں اور غیروں سب کو پتہ ہے کہ میں تم سے محبت میں کیا سے کیا ہوگیا ہوں۔ میں سب کو علی الاعلان کہہ چکا اور کہہ سکتا ہوں کہ تمہی میرا مستقبل ہو۔ میں نے اپنے آپ سے زیادہ تمہیں چاہا ہے۔ میں وہ جزیرہ ہوں جس کے چاروں طرف سمندر تھا لیکن پھر بھی اسکی حالت ایک دشت کی سی ہوگئی کیونکہ وہ ہریالی کیلئے آسمان کی جانب منہ لگائے بارش کا انتظار کر رہا ہے۔ کیا تم خوفزدہ ہوئے بغیر یہ بارش مجھ پہ برسا سکتی ہو؟ سب کے سامنے محبت کا اظہار کرسکتی ہو،مجھے اپنا سکتی ہو ؟ اس نے بھیگی آنکھوں سے کہا ۔۔ “ہاں لیکن شاید میں یہ تمہارے مرنے کے بعد کرپائوں گی۔ تمہیں پا بھی لیا تو کھونے کے وسوسے رہیں گے۔ مجھے تم سے بہت محبت ہے لیکن میں تمہارے ساتھ رہ نہیں پائوں گی۔” یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور میں نے اسے جانے دیا کیونکہ مجھے محبت کا یہ اصلی روپ تازہ تازہ ہی معلوم پڑا تھا کہ جانے دیتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب تو کہانی یہاں ختم ہوگئی تو آخری بات بتاتا چلوں کہ عورت کے جانے کے بعد مرد نےاپنے آپکو ایک بھرپور آخری تسلی یہ دی کہ عورت کو اگر صحیح  معنوں میں محبت ہوجائے تو وہ مرد بن جاتی ہے۔ اس تسلی کے بعد مرد اندر سے مر گیا اور اس گھر میں جو دیوی جی اور اپنے لئے بہت ارمانوں سے لیا تھا، اپنی محبت کو دفنا کے واپس اپنی زندگی میں لوٹ گیا۔ جاتے ہوئے وہ اکیلا نہیں تھا، جنس مخالف سے صرف جسمانی قرب کی خواہش اسکے ساتھ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور وہ عورت اپنے دل میں محبت کا خزانہ چھپائے کسی اور کی داسی ہے اور آج بھی اپنے دیوتا کی طبعی موت کے انتظار میں ہے کہ کھل کےاظہار محبت کا اعلان کر سکے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply