فوج میں گزرے روز و شب(11،آخری قسط)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

لیجیے صاحبان فوج میں گزرے وقت کی سرگزشت اگرچہ تمام نہیں ہوئی مگر جتنی عزیزی مظفر پال سے دستیاب ہو سکی اس کی آخری قسط 11 حاضر ہے۔ خاطر جمع رکھیے، ایک سید زادہ، امیرزادہ ( میرزا ) کے عیوب کو کتابی شکل میں عیاں کرنے پر تُل گیا ہے۔۔ باقی آپ کتاب میں پڑھ سکیں گے :

سرشور دریا کے دیو کو پھلانگ کر پار کرتے ہوئے، میرے ذہن سے راستے میں دکھائی دینے والی پَری بالکل ہَوا ہوگئی تھی۔ گلاب کے پہاڑ نے میری روح کو بے حد متاثر کیا تھا اور میں ترنگ میں آکردرّانی اور دو سپاہیوں سے خاصا آگے نکل گیا تھا۔ پیپر ٹریز کا جنگل شروع ہوگیا تھا۔ پیپر ٹریWillow کی کوئی صنف ہے۔ اِس پیڑ کی اونچائی دس بارہ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور اِس کے تنے کا قطر6سے 9انچ تک ہوتا ہے جس سے اُترنے والی چھال بالکل کاغذ کی مانند ہوتی ہے اوراس پر بھورے رنگ کے خوبصورت لہریے ہوتے ہیں جبکہ چھال کارنگ زردی مائل خاکی ہوتا ہے۔

اسے کاغذ کی شکل میں کاٹا اور پھاڑا جا سکتا ہے اور کاغذ ہی کی طرح تہہ کرکے لفافے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ میں نے ایسے کاغذوں پر دوستوں اور والدہ کو خط بھی لکھے تھے۔ میں گنگناتا ہوا اور ہاتھ میں جنگلی گلابوں کی وہ سٹک گھماتا ہوا، جودردانہ نے اس پر لگے کانٹی چھیل کر مجھے دی تھی اور کانٹے اُتر جانے کے بعد سٹک دیدہ زیب ہوچکی تھی، انہیں پیڑوں کے سرسراتے جھنڈ سے گزررہا تھا کہ ٹھٹھک کر رُک جانے پرمجبورہوگیا تھا۔ بیچ جنگل، تن تنہا ایک پَری کھڑی تھی، جیتی جاگتی بنا پروں کے۔ سر پر چھوٹی سی اوڑھنی تھی ، سر خ گال دمک رہے تھے ۔ کانوں کے آگے زلفوں کی بھوری مائل سنہری لیٹں جھول رہی تھیں۔ آنکھیں دن کی طرح روشن تھیں اور اس نے ایک چوغہ پہنا ہوا تھا جس میں سے اس کا جوان بدن پھٹا پڑرہا تھا۔

اس کے نازک پاؤں ننگے تھے۔ لگتا تھا جیسے وہ بھی مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئی تھی۔ لمحے دو لمحے کو ہماری نگاہیں ٹکرائی تھیں، پھروہ گھوم کر ہرنی کی طرح قلیلیں بھرتی گھنے جنگل میں گھس کر گم ہوگئی تھی۔ میں بھونچکا کھڑے کا کھڑا رہ گیا تھا۔ لڑکیوں کی قلقاریاں کہیں سے بھی سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ اتنے میں درانی پہنچ گیا تھا۔ میں نے اسے پری سے آمنا سامنا ہونے کے بارے میں بتایا تو اُس نے کہا تھا، ’’یار ڈاکٹر کوئی مقامی لڑکی ہوگی۔ باقی لڑکیوں سے دور، رفع حاجت کی غرض سے ادھر آئی ہوگی۔ تم نے اُسے ڈرا دیا ‘‘۔ مگر میں یہ ضرورسوچتا رہا کہ اسے اِس مقصد کی خاطر پیدل چلنے والوں کی پگڈنڈی کے پاس بھلا کیوں آنا تھا ؟

اگر چہ میرے ذہن میں وہ بات بھی تھی کہ شیخ نے اپنی معتقدین کو ہم پنجابی فوجیوں سے بچنے کی تنبیہہ کی ہے۔ وہ پری تھی یا لڑکی لیکن تھی لاجواب ۔ میں نے زندگی میں دیس دیس کی بے حد حسین اور انتہائی نوجوان لڑکیاں دیکھی ہیں لیکن اس قدر معصوم و متحیرحسن پھر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔ میں موت کے جھولے تک اسی کے بارے میں سوچتا رہا تھا لیکن خوف نے اُس کی یاد کے تحیر اور تجسس کو ماند کردیا تھا۔ اب ہم دریا کے اُس کنارے پر کوئی چالیس منٹ چلنے کے بعد شکمہ پوسٹ پہنچے تھے۔

ہیلی کاپڑ سے اتر کر تو میں نے اِس مقام کو چھچھلتی نگاہوں سے ہی دیکھا تھا۔ اب یوں لگا تھا جیسے دو مہیب پہاڑوں کے درمیان یہ ہرا بھرا نخلستان یا خوبصورت جزیرہ تھا جس میں پتھر کے بنے چند کمروں پر دن کے دو بجے شام کا اندھیرا چھارہا تھا۔ دھان پان نوجوان لیفٹینٹ خالد ہمیں دیکھ کر خوش ہوا تھا۔ وہ بیچارہ وہاں پر واحد افسر تھا جس کا اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ رات ہم اس کے مہمان تھے ۔ گپ شپ لگا کر دس گیا رہ بجے ہی سوگئے تھے۔ رات کو ہی پروگرام بنا لیا تھا کہ صبح آٹھ بجے پکٹ’’چور‘‘ کے لیے چڑھنا شروع کردیں گے۔

لیفٹینٹ خالد نے بھی ہمارے ساتھ جانے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ صبح ایک حوالدارکو اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ پہلے ہم دو ہزار فٹ تک اوپر چڑھتے رہے تھے اور سطح سمندر سے دس ہزارفٹ کی بلندی پر آکررُکے تھے۔ وہاں سے ہمیں مسلسل ساڑھے پانچ ہزار فٹ اوپر جانا تھا۔ خالد پہلے ہی کمزور تھا۔ ایک چڑھائی بہت دشوار تھی کیونکہ اس میں تقریباً  سیدھا ہی اوپر چڑھنا تھا۔ ابھی منزل مقصو د کوئی ایک ہزار فٹ مزید بلندی پر تھی کہ خالد کو قے آ گئی تھی۔ لگتا تھا اُس پر آکسیجن کی کمی کا اثر ہونے لگ گیا تھا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ تم اپنے حوالدار کے ہمراہ واپس چلے جاؤ لیکن وہ راضی نہیں ہوا تھا۔
اس کا حوالدار اور ہمارا ایک سیاہی اُسے سہارا دے کر اوپر چڑھنے میں مدد دیتے رہے تھے۔ ہم تین افراد ان سے کہیں پہلے ’’ چور‘‘ پکٹ پر جا پہنچے تھے۔ وہاں موجود دو فوجی تیزی سے نیچے اتر کر خالد کو اٹھا کر لے آئے تھے۔ میں نے جب پکٹ کے اوپر سے بھارت کی 24 فٹ چوڑی تارکول سے بنی پکی سڑک دیکھی تھی جو لداخ کو جارہی تھی اور جس پر کبھی کاریا کوئی دوسری گاڑی بھی جاتی دکھائی دے جاتی تھی تو میری حب الوطنی نے پہلی بار جوش مارا تھا اور مجھے اپنے ملک کے حکام پر بے حد غصہ آیا تھا جو باتیں تو کشمیر پر سبز جھنڈا گاڑنے کی کرتے رہتے ہیں اور حالت یہ تھی کہ ہماری پتھروں والی یعنی ( Shingled) سڑک اور وہ بھی موسمی جو صرف پانچ ماہ کھلی رہتی تھی ہماری آخری سر حد سے ڈیڑھ سو کلو میڑ دور تھی۔

مواصلات کے اِس واضح فرق پر میرا خون کھول اٹھا تھا۔ اس سڑک کوبنائے جانے کے ٹھیکے کئی بار دیے گئے تھے مگر ٹھیکیدار افسر مسؤل کی ملی بھگت سے ہر بار پیسے ہضم کرچکے تھے۔ بہانہ یہ تھا کہ راستے میں ’’پڑی‘‘ حائل ہے۔ پڑی سلیٹ نما پتھر کی پرتوں کو کہتے ہیں جو پتھر کی نسبت ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے دنیا بھر میں یہ ’’پڑی ‘‘ صرف ہمارے ہاں ہی ہے کیونکہ دنیا میں تو ہرطرح کے مقامات پرسڑکیں بنالی جاتی ہیں۔ ہم پکٹ پہ کھانا کھا کر ، چائے پی کر اور میں ہندوستان کے رواں دواں مواصلاتی نظام کو دیکھ کرکے دل جلا کر واپسی کا ارادہ کرچکے تھے۔

خالد کی طبعیت  کسی حد تک سنبھل چکی تھی۔ اترنے کے دوران خالد کی بیٹری ( فوجی دستے کی ایک قسم ) کا حوالدار اور ہمارا ایک سپاہی اس کے ساتھ ساتھ رہے تھے۔ ہم بہت تھک چکے تھے۔ خالد تو پہنچتے ہی دراز ہوگیا تھا۔ میں نے اُسے سکون آور دوا کھلا دی تھی۔ ہم رات کا کھانا کھا کر خود بھی خواب کی وادی میں اتر گئے تھے۔ اگلے روز خالد ہشاش بشاش ہوچکا تھا۔ وہ ہمیں بہت کہتا رہا کہ ایک رات اور رُک جاؤ مگر طارق، میجر صاحب سے محدود وقت کی اجازت لے کے آیا تھا۔ ہم نے نوبجے واپسی کا سفر شروع کردیا تھا۔

موت کے جھولے سے ایک بار پھر دریا پا راتر کر ہم پھر جنگل سے گزرے تھے۔ پری کی یاد پھر کوہ گلاب پرنازل ہوگئی تھی۔ ہم تیزی سے راستہ طے کرتے ہوئے تین بجے کے قریب میجر عثمان کے دفتر پہنچے تھے۔ میجر عثمان نے ہمارا حال پوچھا تھااور پھر گھنٹی بجا کر میرے بیٹ مین دردانہ کو طلب کیا تھا جس نے آتے ہی خشوع وخضوع سے پاؤں جوڑ کر سلیوٹ کیا تھا۔ میجر صاحب نے اپنی چہرے پرکھیلتی ہنسی کو دباتے ہوئے دردانہ سے کہا تھا ’’ دردانہ! صاحب کے لیے جو تم نے گل قند بنایا ہے وہ لے کر آؤ۔‘‘

اِس نے واپسی کا سلیوٹ کرکے ٹھیک ہے سر کہتے ہوئے حکم پر عمل درآمد کا راستہ لے لیا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا تھا ’’ سر یہ ڈھائی دن میں گل قند کیسے بن سکتی ہے؟‘‘ میجر صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے اورکہا تھا کہ ابھی لاتا ہے ، خود دیکھ لینا کیسے بن گئی ۔ اتنے میں دردانہ شیشے کا ایک جگ لے کر داخل ہوا۔ جگ میں پانی کی سطع پر گلاب کی پتیوں کی تہہ بچھی ہوئی تھی۔ دردانہ نے چینی کا شربت بنا کر اُس میں پھول توڑ کر اس کی پتیاں ڈال کر گل + آب+ قند تیار کردی تھی۔ میں سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔ اُس سادہ شخص سے پوچھا کہ باقی پھول کہاں ہیں؟

اُس نے معصومیت سے کہا،’’ وہ مرگئے سر! میں نے پھینک دیے‘‘۔ میجر عثمان اور کیپٹن درانی ہنسے چلے جارہے تھے۔ مجھے غصہ آیا ہوا تھا اور دردانہ گھبرایا کھڑا تھا۔ میں نے اسے سزا کے طور پر کہا کہ جا کر اتنے ہی پھول اور توڑ کر لاؤ۔ وہ شام ڈھلے پھول لے کر آ گیا تھا ۔ میں نے اسے گل قند تیار کرنے کا طریقہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ جاؤ اب آرام کرو ۔ صبح جیسے میں نے کہا ہے ویسے ہی گل قند تیا ر کرکے مجھے بتانا۔

صبح مجھے ناشتہ دینے کے بعد اس نے گل قند تیار کرنا شروع کردی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ گل قند کی ایک قاب بھر کر لے آیا تھا۔ گل قند کے بارے میں سنا تھا کہ دوطرح کی ہوتی ہے ، ایک ماہتابی اور دوسری آفتابی ۔ چاند کے نکلنے کا گمان نہیں تھا کیونکہ راتیں اندھیری تھیں اس لیے میں نے ململ کے کپڑے سے ڈھانپ کر قاب کو دھوپ میں رکھنے کی ہدایت کردی تھی۔

دوپہر دو بجے جب میجر صاحب اور کیپٹن درانی دفتر سے واپس آ گئے اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھا لیا تو میں اور درانی کمروں کے آگے بنے صحن نما حصے میں کرسیاں رکھوا کر بیٹھ گئے تھے۔ درانی نے پوچھا، ’’ یار ڈاکٹر تمہاری گل قند چکھ لوں؟‘‘ میں نے کہا، ’’چکھ لو‘‘۔ اُس نے گل قند کا ایک بڑا سا لقمہ بنا کر منہ میں ڈال لیا تھا۔ ہم وہا ں ڈیڑھ گھنٹے بیٹھے رہے تھے ۔ درانی کو پھولوں اور چینی کا یہ ملغوبہ اس قدر بھایا تھا کہ اُس نے میرے منع کرنے کے باوجود اسی مقدار میں چار بار ’’چکھا‘‘ تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ شام تک درانی ساری کی ساری نہ کھا جائے ۔

یہ بھی احتمال تھا کہ کہیں مریض نہ پڑجائے ۔میں نے دردانہ کو کہا تھا کہ وہ باروچی کو بلالائے۔ باورچی سے میں نے پوچھا تھا کہ خشک دودھ ہے؟ اُس نے اثبات میں جواب دیاتھا۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ اِس تھال میں پڑے مادے کو خشک دودھ کے ساتھ ملا کر گھی میں بھون لے اور رات کے کھانے کے ساتھ بطور’’ سویٹ ڈش‘‘ ہمیں پیش کرے۔ رات کو جب یہ نیا پکوان نوش جان کیا تو پتہ چلا کہ ہم نے اس قدر لذیذ حلوہ پہلے کبھی نہیں کھایا تھا جس میں گلاب کی خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اس طرح یہ ہماری خصوصی ڈش بن گئی تھی اور ہم نے اس سیزن میں آنے والے سبھی مہمانوں بشمول کور کمانڈر جنرل فیض علی چشتی، سبھی کو یہ پکوان پیش کیا تھا اور کوئی بھی یہ نہیں بوجھ پایا تھا کہ یہ ’’ خاص حلوہ ‘‘ کن اجزاء سے تیا ر کردہ ہے البتّہ انگلیاں سبھی چاٹتے رہے تھے۔

چند روز بعد میجر عثمان قریشی چھٹی پر چلے گئے تھے۔ اب میں اور درانی دونوں ہی رہ گئے تھے۔ ایک روز ہم نے دیکھا کہ کئی فوجی دفاتر کے عقب میں واقع ڈھلوان پہاڑ پر چڑھ اتر رہے ہیں ۔یہ چڑھائی نہ تو دشوار تھی اور نہ ہی زیادہ بلند۔ ہمیں وقت کاٹنے اور ورزش کے لیے یہ اقدام اچھا لگا تھا۔ چنانچہ ہم دونوں بھی اس پہاڑ پر چڑھنا شروع ہو گئے تھے۔ بلندی کے وسط میں پہنچ کر درانی کی نظر اطراف میں اگے چھ آٹھ انچ اونچے پودوں پر پڑی تھی۔ ان پر گول گول سی پھلیاں لگی تھیں۔ درانی نے مارے تجسس کے ایک پھلی کو توڑ کر جو کھولا تو ہم دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اسقدر بلندی پر یہ خود رَو چنے کے پودے تھے۔ ہم نے اسے چکھ کے دیکھا تو وہ واقعی چنے ہی تھے۔ ہم نے فوجیوں کے ذمے لگا دیا تھا کہ وہ یہ پھلیاں توڑیں اور جمع کر کے باورچی کو دے دیں۔ شام کو باورچی ایک برتن میں وہ پھلیاں بھر کر لایا تھا اور پوچھا تھا ، ’’سراس کا کیا کرے گا؟‘‘۔ درانی نے کہا تھا ،’’ اس کا سالن بنائے گا۔‘‘ وہ بڑا جزبز ہوا تھا اور کہنے لگا کہ اَس کا کھا نا ہم نے کبھی نہیں بنایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شُد

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply