تقدیر میں انسان کا بڑھتا ہوا کردار/سعید ابراہیم

مذہبی معتقدات کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں عقلی دلائل کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاسکتا ہاں البتہ تاویل کا معاملہ بالکل دوسری بات ہے کہ تاویل سے انتہائی نامعقول بات کو بھی منوایا جاسکتا ہے بشرطیکہ مدّ مقابل محض عقائد کی بنیاد پر ہی بات کررہا ہو۔ عقیدے اور عقل کا سرے سے کوئی تال میل ممکن نہیں ہے۔عقائد کے اسیر لوگوں سے کسی بھی معاملے کی وضاحت مانگو انکی دوڑ مقدس حوالوں سے آگے نہیں بڑھتی ۔ چونکہ انکے تئیں یہ حوالے حتمیت اور اکملیت کے حامل ہیں لہٰذا انکی ساری عقل ان کو درست ثابت کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔
کم وبیش ہر فرد بہت سے ایسے خیالات کا اسیر ہوتا ہے جنکے بارے میں وہ پیدائش سے مرنے تک سوچنے یا سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتاجسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خیالات کی حد تک بے شعوری کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں ایک معاملہ قسمت یا تقدیر کا بھی ہے جو کسی صورت میں حل ہونے میں نہیں آتا۔ اس معاملے میں عام آدمی تو اپنے مذہبی اعتقاد کی بنیاد پر زیادہ گہرائی میں نہیں اترتابلکہ اپنے سارے مسائل کی ذمہ داری خدا پر ڈال کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی مجہول اور سٹیریوٹائپ سوچ کی بنا پر سماج کے اس تانے بانے کو نہیں سمجھ پاتا جو دولت مند طبقوں نے بڑی ماہرانہ چالاکی کیساتھ بُنا ہوتا ہے۔
اگر قسمت یا تقدیر کے معاملے کو مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو بحث کی کوئی زیادہ گنجائش نہیں بچتی کیونکہ جب معاملہ ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے گا تو کسی آیت یا حدیث کی مدد سے بحث کا دروازہ بند کردیا جائے گا اور ویسے بھی مذہبی لوگوں کا مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ زمین پر بسنے والے انسان کو درپیش مسائل کی زمینی حقائق کے حوالے سے تشریح کی جائے اور انکا حل تلاش کیا جائے بلکہ انکے نزدیک زندگی بہت ہی سادہ سا معاملہ ہے اور اسکو درپیش تمام مسائل کی ایک ہی سادہ سی وجہ ہے کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل نہیں کررہے۔
تقدیر کو مذہب کے حوالے سے سمجھنے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ فرد اپنے معاملات کی ذمہ داری کسی مافوق الفطرت ہستی پر ڈال کرخود کو تبدیلی کے عمل سے الگ تھلگ کرلیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ سماج کے میکانزم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ ملکی اقتدار پر کوئی نام نہاد جمہوریت کے نام پر فائز ہو یا کوئی اسے اسلحہ کے زور پر ہتھیا لے، عوام اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ مختلف گروہوں میں دولت اور وسائل کی غلط تقسیم کو بھی الہامی آیات کیساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے اور اسے خدا کی مرضی جان کر برداشت کرلیا جاتا ہے۔اس صورتحال کو بدلنے کی اگر کوئی خواہش پیدا بھی ہوتی ہے تو انسان اسی خدا سے دعائیں مانگنے پر اکتفا کرتا ہے جس نے اسکے ایمان کے مطابق یہ صورتحال پیدا کی ہوتی ہے۔ان دعاؤں سے اجتماعی صورتحال میں تو خیر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہاں البتہ فرد اپنے تئیں عارضی طور پر ایک نفسیاتی تسکین ضرور حاصل کرلیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں وسائل کی تقسیم افراط و تفریط کی بلندی کو چھورہی ہے ۔تقدیر کا مذہبی نظریہ حکمرانوں اور اہلِ ثروت طبقات کی ناجائز دولت اور مراعات کو ’خدائی تحفظ‘ فراہم کرتا ہے۔ عوام کو مذہب کے نام پر یہ بات باور کروادی جاتی ہے کہ غریب اور امیر طبقات کے بیچ حائل یہ خلیج دراصل خدائی پروگرام کا بنیادی خاصہ ہے وگرنہ آخرت کی بات بے معنی ہوجائے گی لہٰذا خدا کی مرضی یعنی معاشی تفاوت کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش خدا کے خلاف بغاوت ٹھہرے گی۔ اب کون کافر ہے جو خدا کے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت کریگا، ہاں البتہ مذہبی رہنماؤں نے فرد کو اپنی اور اپنے خاندان کی خوشحالی کیلئے دعاؤں اور مناجاتوں کی اجازت ضرور دے رکھی ہے کہ ان مجہول دعاؤں سے مذہبی طبقات کے مربیوں کو قطعاََ کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔
تقدیر کا یہ تصور ہمیں اس غلط سوچ میں مبتلا کردیتا ہے کہ دنیا کا انتظام و انصرام ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے اور اسے صرف خدا جیسی عظیم ہستی ہی سمجھ سکتی اور چلا سکتی ہے۔ اول تو ہمارے ہاں پڑھے لکھے افراد کی تعداد شرمناک حد تک کم ہے اور مزید المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں علم اور تعلیم کے بیچ ربط نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کا تعلق شعور سے نہیں بلکہ ایسی ڈگری کے حصول سے ہے جو میز کرسی والی نام نہاد معزز نوکری دلواسکے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جانے والا نصاب جھوٹ اور بداسلوبی کا ایسا بدنما مرقع ہے کہ طلباء کیلئے اسکا پڑھنا کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ مغرب سے آنے والی کتابیں جدید حقائق اور دلچسپ اسلوب سے متصف ہیں مگران میں لکھی گئی باتیں ہمارے بے سمت سماج میں کہیں فٹ ہوتی نظر نہیں آتیں ہاں البتہ انکا مطالعہ طالبعلم کے اندر ایک بہتر تبدیلی کی خواہش ضرور جگاتا ہے مگر بدقسمتی سے ایسے ادارے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جہاں یہ نصاب لاگو ہے۔ ان حالات میں جبکہ ہم حقیقی معنوں میں ان پڑھ اور جاہل عوام کا محض ایک بے سمت ہجوم ہیں، مذہب کی مجہول اور خاص طبقات کے مفاد کے مطابق تبلیغ کے مفعولی اثرات سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔
آئیے ہم تقدیر یا قسمت کے معاملے کو مذہب سے ہٹ کر ایک اور زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔تقدیر کے حوالے سے دو فیکٹر بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ، ایک انسان کا اختیار اور دوسرے اسکے اختیار کی حدیا اسکی محدودات (Limitation)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے حضرتِ انسان اس زمین پر آباد ہوا ہے اسکے اختیارات کا دائرہ مسلسل وسیع ہوا ہے اور اسی طرح وقت کیساتھ ساتھ اسکی بہت سی محدودیتیں ناپید ہوتی چلی گئیں اور نئی طرح کی محدودیتیں وجود پذیر ہوتی گئیں جن کو ختم کرنے کیلئے نئے اختیارات وجود میں آتے چلے گئے۔
یہ ایک ایسا نامختتم سلسلہ ہے جسکے بارے میں وضاحت کے ساتھ کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔انسان کی محدودات کے دو دائرے ہیں ایک دائرہ اندھی نیچر کے حوالے سے اور دوسرا سماج کے حوالے سے۔ سائنس کی ترقی نے ان دونوں دائروں کو وسیع کرکے انسانی محدودات کو بے حد کم کردیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ انسانی آنکھ ایک خاص حد سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم تھی مگر دوربین اور خوردبین کی ایجاد نے انسانی آنکھ کی محدودیت کو تقریباََ خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ٹیلیفون، کمپیوٹر اور ٹیلیوژن کی مدد سے دنیا کے کسی بھی انتہائی دور دراز خطے میں بسنے والے لوگوں سے سمعی اور بصری رابطہ کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ لاکھوں میل دور بیٹھ کر مشکل ترین آپریشن کئے جاسکتے ہیں، کروڑوں میل کی دوری پر موجود خلائی شٹل کی زمین سے ہی مرمت کی جاسکتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب انسان پرندوں کی طرح زمین سے اوپر اٹھ کر اڑنے کی صرف خواہش کرسکتا تھا مگر اب سائنس کی مدد سے زمین پر ایسا خلائی ماحول تیار کرلیا گیا ہے کہ انسان باقاعدہ اس خلائی فضا والے کمرے میں جس طرح چاہے پرواز کرسکتا ہے۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب انسان اپنی رفتار بڑھانے کیلئے گھوڑوں اور اونٹو ں کا محتاج تھا جوکہ آج کے ذرائع آمدورفت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے کہ آج پوری دنیا کا سفر گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے اور چاند کہ جسے کبھی صرف حسرت سے تکا جاسکتا تھا وہاں کی مسافت اب دنوں میں طے کی جاسکتی ہے۔
ایک وہ وقت بھی تھا جب حضرت انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود کسی شرم وحیا کے احساس کے بغیر سرِعام ننگ دھڑنگ پھرا کرتا تھا کیونکہ پہننے کیلئے لباس دستیاب نہیں تھا اور پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے خود رو جنگلی پھلوں کے سوا کوئی شے دستیاب نہیں تھی۔ خدا عورتوں کا بھلا کرے کہ جب مرد شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا تو وہ اس وقت زراعت کے طریقے دریافت کررہی تھیں، لیکن کیا کریں انسان واقعی بہت ناشکرا ہے۔
بظاہر ایک سادہ سے ٹول پہیے کی ایجاد کی اہمیت کا ادراک ہمیں اس وقت زیادہ بہتر طریقے سے ہوتا ہے جب ہم کسی پیچیدہ ترین مشین کے اندر جھانکتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ بیشمار قسم کے پہئے چھوٹی بڑی گراریوں کی شکل میں گھوم رہے ہیں۔ آگ کی دریافت اپنی نوعیت میں انتہائی انقلابی موڑ ثابت ہوئی اور معاملہ سوئی گیس سے ہوتا ہوا مائیکرو ویو اوون تک آن پہنچا ہے۔ اب ذرا ایک لمحے کو ایک ایسی زندگی کا تصور کیجئے جس میں سے صرف دو اشیاء منہا کردی جائیں یعنی ایک پہیہ اور دوسری آگ اور پھر سوچئے کہ صرف ان دو اشیاء کے بغیرہماری زندگی تاریخ کے کس مرحلے پر کھڑی ہوگی۔ یہ ہے مقدر کی وہ شکل جسے انسان نیچر کے اصول سمجھنے اور اسکی مونہہ زور قوتوں کو مسخر کرکے مسلسل بدل رہا ہے اور اپنی محدودیتوں کو ختم کررہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان نے سائنس کی مدد سے اپنے حواسِ خمسہ کی رینج میں حیرت کی حد تک اضافہ کر لیا ہے۔
غالب اگر آج اکیسویں صدی میں زندہ ہوتا تو شائد حیرت سے مرجاتاکہ اس نے ایک صدی پہلے کی ابتدائی سائنسی ترقی پر اپنی حیرت کا اظہار یوں کیا تھا کہ
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
اب ہم مقدر، تقدیر یا قسمت کی اس شکل کی طرف آتے ہیں جو سماج کے دائرے میں کارفرما ہے۔ سماج کا تعلق نظام سے ہے اور نظام آسمان سے نہیں اترتے بلکہ ذرائع پیداوار کی تبدیلی کیساتھ اپنی شکلیں بدلتے ہیں۔ قبیلہ داری سماج، غلام داری سماج، جاگیرداری سماج اور اس وقت موجود سرمایہ داری سماج کسی الہام سے وجود میں نہیں آئے بلکہ جیسے جیسے پیداوار کے ذرائع بدلے ویسے ویسے سماج کی ہیت اور نظام بھی بدلتے چلے گئے۔موجودہ سرمایہ داری نظام مشین اور پروڈکشن کی افراط کی دین ہے۔ جمہوریت سرمایہ داری کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ مشین کو بنانے اور چلانے کیلئے پڑھے لکھے مزدور کی ضرورت ہے سو مزدور تعلیم کی بنا پر اپنے انسانی حقوق کا شعور حاصل کرتا ہے۔
سرمایہ دار کی مجبوری ہے کہ اسے ایک خاص حد تک مزدور کے حقوق کا پابند ہونا پڑتا ہے اور حقوق کی یہی پابندی جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کا کام کرتی ہے۔ہم صاف طور پر دیکھتے ہیں کہ یوروپی ممالک کے باسی تیسری دنیا کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر زندگی گزاررہے ہیں اور انکے سیاسی شعور نے انہیں اتنی طاقت عطا کردی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو اپنے ووٹ سے بدل سکتے ہیں۔ مگر سرمایہ دارانہ جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ بہت حد تک ابھی بھی دولت مندطبقوں کی لونڈی ہے۔ ان ملکوں میں عوام کو اگرچہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں مگر اسکے ساتھ ہی انہیں سرمایہ داروں کے اثاثوں میں اضافہ کرنے والی مشین بھی بنادیا گیا ہے۔
سرمایہ داری نظام میں غلامی فیوڈل دور کی طرح عریاں اور ظالمانہ نہیں رہی بلکہ بہت مہین اور غیر مرئی شکلیں اختیار کرگئی ہے۔مگر ایک بات پھر بھی طے ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام نے انسان کو فیوڈل ازم کے مقابلے میں مادی اور شعوری حوالے سے ایک بدرجہا بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیاہے ، جس کے وقت کیساتھ مزید بہتر ہونے کے امکانات برابر موجود ہیں۔ اگر ہم جمہوری ممالک کا پاکستان کے حالات سے مقابلہ کریں تو سوائے عرقِ ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا کہ یہاں ڈکیٹٹروں نے نصف صدی میں نہ کوئی مثبت انسانی قدر متعارف کروائی اور نہ پہلے سے موجودکسی اچھی قدر کو باقی رہنے دیا یعنی ایک انارکی کی کیفیت ہے جس نے ہمارے سماج کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ حکمران عوام کے ووٹ کے محتاج نہیں اور عوام ہیں کہ اپنی سیاسی طاقت سے محرومی کے نتیجے میں زمین پر رینگتے لجلجے کینچووں میں بدل چکے ہیں جنہیں کسی وقت بھی کچلا جاسکتا ہے۔
لوگ ایک انتہائی غیر یقینی کے ماحول میں زندہ ہیں۔ معلوم نہیں کس سڑک پر کوئی حادثہ پیش آجائے یا کسی مسلح ڈاکو سے سامنا ہوجائے یا مسلح نوجوانوں کا کوئی گروپ دن دہاڑے گھر میں گھس آئے اور ہماری عمر بھر کی محنت یالوٹ مار سے جمع کئے ہوئے مال کا حساب برابر کردے۔ امیر سے امیر آدمی بھی اس خوف کا شکار ہے کہ معلوم نہیں وہ کب کسی مالی تباہی کا شکار ہوکر خاندان سمیت فٹ پاتھ پر پڑا ہو۔ عوام جانتے ہیں کہ حکومت نے اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر ہاتھ اٹھالیا ہے اور اسے اب صرف یوٹیلٹی بلوں میں اضافے سے غرض ہے یا پھر امریکہ کو مطمئن کرنے سے۔ یہی وہ بے نظامی اور بدانتظامی ہے جو ہماری تقدیر کا نصاب مرتب کررہی ہے۔ یہ وہ بدبخت نظام ہے جس کی وجہ سے کروڑوں عوام چند فیصد عیاش دولتمندوں کی وجہ سے تعلیم، علاج اور روزگار جیسی ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ ملکی وسائل پر طاقتوراشرافیہ کا ناجائز قبضہ ہے۔ اگر حقیقی جمہوریت کے نتیجے میں یہ قبضہ ختم ہوجائے تو یقینا یہ وسائل عوام کی اجتماعی بھلائی کیلئے خرچ ہونگے اور تب شائد عوام مذہبی پیشواؤں کی مدد سے حکمران طبقوں کی طرف سے پھیلائے گئے تقدیر کے غیر مرئی جال کے اسقدراسیر نہ رہیں جتنا کہ اب ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply