لاہور قلندرز ! اب نام کی تبدیلی ناگزیر ہے ۔۔سید عارف مصطفٰی

  ہشاش بشاش لوگوں‌ کا مرکز لاہور فی الواقع زندہ دلوں کا شہر ہے اور پاکستان میں اس صفت کے لحاظ سے کوئی اور شہر اس کے ہم پلہ نہیں .فیصل آباد بھی نہیں حالانکہ وہاں‌ کی جگتیں ملک بھر میں افواہوں سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیلتی ہیں کیونکہ محض ہنسوڑ ہونا ایک اور بات ہے اور اپنے عام زندگی کے چلن میں ایسی کشادہ دلی کو سمولینا اور بات ہے کہ جس کی رو سے دوسرے کی طرف سے بتائی گئی خود اپنی خامیوں پہ بھی ہنسا جاسکتا ہو ۔۔۔ لیکن یہ زندہ دل لوگ یا ان کی ایک بڑی تعداد کسی قدر افسردہ ہے کیونکہ ان کے نام پہ بنائی گئی ٹیم لاہور قلندر پاکستان سپرلیگ میں مسلسل تیسرے برس بھی زوال کا شکار ہے بلکہ اس بار تو پہلے دونوں برس سے زیادہ ، کیونکہ پہلے دو لیگوں میں اس نے مجموعی طور پہ 16 میچز کھیلے تھے اور پانچ میچ جیتے تھے لیکن اس بار تیسری پی ایس ایل میں تو آج 8 مارچ کے دن تک اس نے 6 میچ کھیل لیے  ہیں اور ہر میچ میں ہار اس کا مقدر بنی ہے اور پوائنٹس ٹیبل پہ اس کے کھاتے میں اب تک صفر کا ہندسہ براجمان ہے ۔

میں نے لاہور قلندرز  کے  پی ایس ایل کے اب تک کے ان کے  کئی میچز میں   یہ بھی دیکھا ہے کہ متعدد بار وہ جیت کے قریب پہنچ کے بھی ہار گئے جبکہ کئی بار تو انہوں نے اپنے کئی میچز کو بیحد سنسنی خیز بنادیا اور فتح کے لیے  وہ پامردی سے آخری گیند تک لڑے ۔۔۔ میں اس معاملے میں اس ٹیم کے مالک رانا فواد کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جنہوں نے ایسے خراب نتائج کے باوجود ہمت نہیں ہاری ۔۔۔ یہ الگ بات ہے کسی میچ کے دوران ناظرین میچ پہ کم اور ان کے چہرے کے تاثرات پہ زیادہ نظر رکھتے ہیں ،جیسے جیسے میچ نئے موڑ لیتا ہے ان کی بدن بولی بھی عجب موڑ مڑتی دکھائی دیتی ہے اور ان کے چہرے و آنکھوں کے تاثرات اور دہانے اور گھنی مونچھوں کی حرکات نئی نئی کروٹیں لینے لگتے ہیں اور اپنی ٹیم کے ہاتھوں کسی بڑی خوشی کو ترسے اس شخص کا اس وقت خوشی سے اچھلنا دیدنی ہوتا ہے کہ جب ان کی ٹیم سے کسی مرحلے پہ لمحاتی طور پہ کوئی بہتر کارکردگی سرزد ہورہی ہوتی ہے ۔

یہ بات یقینناً بڑی ہی متاثر کن ہے کہ اب تک بھاری مالی نقصان اٹھا چکنے کے باوجود ان کے چہرے پہ ہنوز ایک دلآویز سی مسکراہٹ موجود ہے – ان کی جگہ دوسرا کوئی ہوتا تو یقیناً عارضہء قلب میں مبتلا ہوچکا ہوتا ۔ لیکن یہ جو راجپوت ہیں یہ عموماً ایسے ہی جی دار و طرح دار ہوتے ہیں خواہ راؤ کہلاتے ہوں یا کنور ۔۔۔۔ یا پھر رانا پکارے جائیں یا چوہان ابھی پانچویں میچ کی شکست کے بعد بھی رانا فواد بڑے پرامید تھے کہ باقی کے پانچ میچ جیت کے ان کی ٹیم کھیل میں واپس آجائے گی ۔۔۔ تاہم آج کا میچ بھی ہار جانے کے بعد بظاہر لاہور قلندرز کے لیے  متحدہ عرب امارات میں‌ کسی بڑی خوشخبری کے امکانات اور بھی کم ہوگئے ہیں اور اب کوئی انہونی ہی انہیں وکٹری اسٹینڈ تک پہنچنے کے قابل بنا سکتی ہے ۔

یہاں اس مرحلے پہ میرا جی یہ چاہتا ہے کہ میں اس ٹیم کے نام سے متعلق اپنی اس بے اطمینانی کا ایک پہلو بھی آپ کے سامنے رکھ دوں کہ میں اس ٹیم کی ذلت و نامرادی کے پس پشت یہ سبب بھی محسوس کرتا ہوں کہ اس نام میں لفظ قلندر کی شمولیت سراسر سوئے ادب کا معاملہ ہے کیونکہ کسی بھی لغت میں دیکھ لیں ، لفظ قلندر ایک قطعی مذہبی حوالہ ہے آزاد دائرۃ المعارف انسائیکلوپیڈیا کے مطابق لفظ قلندر سے مراد ہے : آزاد درویشوں کی ایک قسم جو روحانیت کی طرف مائل ہو ۔ صوفیانہ فلسفہ کا ایک گروہ۔ قلندریہ ایک ایسا گروہ ہے جو تارک الدنیا اور دنیا سے لاپرواہ ہو۔   اور مزید یہ کہ قلندر کا مطلب یہ ہے کہ ” وہ شخص جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ دنیوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو اور تکلیفات رسمی کی قیود سے چھٹکارا پا گیا ہو، عشق حقیقی میں مست فقیر[2]۔ ”

قلندر اور صوفی ہم معنی الفاظ ہیں۔ قلندر وہ ہے جو حالات اور مقامات و کرامات سے تجاوز کر جائے خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں کہ موانعات سے مجرد ہو کر اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام قلندری ہے۔ شاہ نعمت اللہ ولی فرماتے ہیں کہ صوفی منتہی جب اپنے مقصد پر جا پہنچتا ہے قلندر ہو جاتا ہے[4]

ان سے متعلق علامہ اقبال کا کلام دیکھیے  ۔ نہ تخت و تاج نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر​ ايام کا مرکب نہيں، راکب ہے قلندر​ یہاں تک آتے آتے آپ یقینناً یہ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں نے لفظ قلندر کی تشریح میں اتنا سارا زور اس لیے  لگایا ہے کہ میری سوچ کا یہ نکتہ اچھی طرح ابھر کے سامنے آجائے کہ لفظ قلندر کا استعمال کھیل کود میں کرنا  کسی طور مناسب نہیں اور ممکن ہے کہ اس ٹیم کو اسی بات کی سزا مل رہی ہو کہ وہ کیوں اپنے نام میں اس لفظ کو شامل کرکے اس بلند مقام روحانی اصطلاح کے تقدس کو پامال کرنے کا باعث بن گئی ہے –

Advertisements
julia rana solicitors london

بہتر یہ رہے گا کہ رانا صاحب اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش کریں اور اگر ممکن ہو تو ان ناموں میں سے کسی کو چن لیں ،لاہور ایگلز، لاہور ٹائیگرز ، لاہور ہاکس ، لاہور فالکنز یا لاہور شالامار میرا یقین ہے کہ ایسی معمولی سی تبدیلی اور لفظی درستی  سے اس ٹیم کے نام میں زندہ دلان پنجاب کے اس مرکز یعنی لاہور کا حوالہ بھی موجود رہے گا اور نام میں ابتک روا رکھی گئی اس اہانت آمیز غلطی کا ازالہ بھی ممکن ہوسکے گا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply