نار سے نور تک ( 2 )-قاری حنیف ڈار

میں مسلمان تو برطانیہ میں ہی ہو گیا تھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ کسی مسلمان ملک میں جا کر اسلام کو عملی طور پر دیکھوں، میرے والد صاحب جو دس سال پہلے 1977 کے زمانے میں پاکستان میں برطانوی سفارت خانے میں اتاشی کے طور پر کام کر چکے تھے انہوں نے جب سنا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور سعودی عرب جانے کا سوچ رہا ہوں تو انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ اگر تم مسلم ملک میں جانا چاہتے ہو تو پھر پہلے پاکستان جاؤ،یہ وہ واحد ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور تمہیں اسلام کو سمجھنے میں جتنی مدد اس ملک سے ملے گی کہیں اور ممکن نہیں ہے ، اب اللہ جانتا ہے اس مشورے کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے ، مگر میں ان کے مشورے پر پاکستان کی طرف چل نکلا ! کراچی پہنچ کر میں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کیا ! ایک سروس بوائے سے میں نے اپنا مقصد بیان کیا کہ میں اس نیت سے پاکستان آیا ہوں اور کوئی اچھا سا ادارہ جو مجھے اسلام کو سمجھنے میں مدد دے اس کی تلاش میں ہوں اگر تم مجھے گائیڈ کر سکتے ہو تو تمہاری مہربانی ہو گی اور اگر ایک دو چھٹیاں لے لو گے تو میں ان کے پیسے بھی تمہیں دے دوں گا  ، سروس بوائے نے میرا انٹرویو شروع کیا اور پوچھا کہ میں کون سا مسلمان ہوا ہوں تا کہ متعلقہ اسلام کے کسی ادارے کو وزٹ کیا جائے  ، میں جس کی ساری زندگی سوال کرتے گزری تھی ، اس سوال پر ہی چکرا کر رہ گیا کہ میں کون سا مسلمان ہوا ہوں؟

میں نے اسے بتایا کہ میں نے قرآن پڑھا ہے اور اس کے مطابق اللہ کو ایک مانا ہے  ، محؐمدﷺ کو اللہ کا رسول مانا ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے اور حساب کتاب پر ایمان لایا ہوں ، اللہ نے جبریل کے ذریعے قرآن نازل کیا ہے جو اللہ کا کلام ہے ۔

اب تم بتاؤ کہ یہ کونسا اسلام ہے ؟

وہ بولا اس سے کام نہیں چلے گا  ، اتنا سارا اسلام پاکستان میں نہیں چلتا، اس کے ساتھ کچھ اور ضروریات بھی ہیں جن کے لئے آپ کو ہمارے ایک عالم ہیں ان سے ملنا ہو گا ! اگلے دن وہ مجھے کراچی کی ایک جامعہ میں لے گیا ، جہاں ایک بہت موٹے تازے بزرگ بیٹھے تھے جو سبز پگڑی پہنے بیٹھے تھے ، انہوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی اور میرے علم میں یہ اضافہ کیا کہ چونکہ ہند میں اسلام کچھ بزرگوں کے ذریعے آیا ہے ان بزرگوں کے بارے میں میرا عقیدہ اگر خراب ہوا تو میں مسلمان نہیں ہو سکتا ، لہذا انہوں نے مجھے ایک بندے کے سپرد کیا جو مجھے کسی درگاہ پر لے گیا جہاں میرے نفس کا تزکیہ کرنا مقصود تھا ! وہ غالباً منگھو پیر کی درگاہ تھی اور جامعہ امجدیہ کے مہتمم نے مجھے وہاں کے سجادہ نشین کے نام رقعہ دیا تھا جو میں نے ان کے سپرد کر دیا، مجھے غسل دلوایا گیا، سبز کپڑے پہنائے گئے اور میری انگلیوں میں چار انگوٹھیاں جو مختلف رنگوں کے پتھروں سے مزین تھیں پہنا کر میری بیعت لی گئی اور ایک ڈنڈا میرے ہاتھ میں پکڑایا گیا    اور اسلام میں داخل کر لیا گیا۔

صبح صبح مجھے ناشتے کے بعد ریلوے اسٹیشن لے جایا جاتا جہاں آنے جانے والے مسافروں کو مجھے اسلام کی دعوت دینی تھی اور ساتھ بتانا تھا کہ میں کن کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہوں ۔ یہ معمول کوئی دو ماہ رہا اس دوران میں نے جب بھی قرآن کی تلاوت اور مطالعہ کرنے کی کوشش کی میرا انگلش ترجمے والا قرآن بڑے پیار اور ادب کے ساتھ میرے ہاتھ سے لے کر واپس میرے سامان میں رکھ دیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن نے جو کام کرنا تھا وہ کر دیا ہے ، اب آپ کو تربیت کی ضرورت ہے، مطالعے کی نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دو ماہ بعد کی بات ہے جب میں ریلوے اسٹیشن پہنچا تو وہاں ایک تبلیغی جماعت ریل گاڑی میں سے اتر رہی تھی  ، میں نے جب ان کو اپروچ کرنے کی کوشش کی تو میرے گائڈ نے میرا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا اور کہا کہ ان کے قریب مت جاؤ،  یہ بات جماعت کے ایک ساتھی نے بھی محسوس کر لی اور وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ میری طرف لپکے  ، سلام کے بعد انہوں نے مصافحہ کیا اور بہت شستہ انگلش میں مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں اور کیا میں مسلمان ہوں  ؟ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر تھے ، میرے جواب کے بعد ڈاکٹر صاحب نے  مجھ سے پوچھا کہ آپ کا سامان کدھر ہے؟ میں نے بتایا کہ اس بھائی کو پتہ ہے کسی درگاہ پر ہے ، اب باقی جماعت بھی اپنا سامان لئے ہمارے اردگرد کھڑی ہوگئی۔
جاری ہے
بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply