فوجی اقدار/یادِ ماضی عذاب ہے یا ربّ(2)-بریگیڈئیر بشیر آرائیں

آہ کیا زمانہ تھا کینٹ میں اوپن ایئر اسکرین پر فلمیں دکھائی  جاتی تھیں ۔ اچھی اور مشہور فلم لگتی تو ہمارے بیٹ مین کمروں سے کرسیاں اٹھا کر سرِ شام ہی اسکرین کے سامنے جگہ روک لیتے ۔ ہلکا سا چونے کا لکیر والا نشان لگایا جاتا اور ایک طرف فیملیز کی جگہ مخصوص ہوجاتی ۔ آفیسرز اور جوانوں کے خاندان ایک ہی میدان میں بیٹھ کر فلم دیکھتے ۔ ہاف ٹائم میں گرم گرم جلیبیوں اور پکوڑوں کا شور مچتا ۔ 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم  ہیررانجھا 1984 میں بھی ہم نے اسی شوق سے دیکھی تھی ۔ 1974 کی شبنم اور ندیم کی فلم  دل لگی کھاریاں اسکرین پر چلی تو فیملیز کیلئے دن مقرر کرنے پڑگئے  کہ بہت رش میں لوگوں کو فلم دیکھنا دشوار ہوجاتا ۔
نہ سیکیورٹی کا ڈر ،نہ کوئی  بدتمیزی یا بد تہذیبی کا مسئلہ ۔ نہ اسٹیٹس کی مصیبتیں ۔ فلم شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ بجتا تو میدان میں کیا ارد گرد چلتی سڑک پر بھی لوگ باادب کھڑے ہوجاتے ۔ ہاف ٹائم میں نورجہاں کے جنگی نغمے بجا کر ہمارا خون بھی گرمایا جاتا تھا ۔
شہروں کی سول زندگی سے ہمارا سروکار ہی نہ ہوتا تھا ۔ ہم اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ۔ سردیوں اور گرمیوں میں جنگی مشقوں اور ٹریننگ پر پوری فوج بیرکوں سے نکل کر اپنے اپنے نامزد علاقوں میں پہنچ جاتی تھی ۔ جسے عام طور پر ونٹر اور سمر کلیکٹو ٹریننگ کے نام سے ہر دیہاتی جانتا تھا ۔ یہاں سے بھی فوجی گاڑیاں گزرتیں لوگ پاک فوج زندہ آباد کے نعرے لگاتے ۔ اسکول جاتے بچے ہمیں دیکھ کر سیلیوٹ کرنے کی پریکٹس کرتے نظر آتے تھے ۔
ایک ایک ڈاکٹر کی بھی یونٹوں کے ساتھ ٹریننگ کے دوران طبی امداد کیلئے ڈیوٹی لگتی اور ہم ہاسپٹل سے نکل کر اصل فوجی زندگی کے مزے لیتے ۔ مجھے نہیں یاد کہ ٹریننگ کے دوران کسی بھی گاؤں کے لوگوں نے ہم سے کبھی دودھ ،لسی ، گڑ  یا مالٹوں کے پیسے لیے ہوں ۔ ہم دینے کی ضد کرتے تو وہ کہتے کہ ہم اپنے ملک و قوم کے محافظوں سے کھانے پینے کی چیزوں کے پیسے کیسے لے سکتے ہیں ۔ یہ وہ محبتیں تھیں جو پاک فوج میں نشان حیدر لینے والے شہدا پیدا کرتی تھیں ۔ کیا افسر کیا جوان ملک و قوم پر جان نچھاور کرنے کو ہر دم تیار رہتے تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ 80-90 کی دہائی میں سردیاں آتیں تو ہمارے سویلین دوست ہم سے خاکی فوجی جرسی کی فرمائش کرتے ۔ کسی دوست کیلئے یہ فوجی جرسی لاجواب تحفہ گردانا جاتا تھا ۔ ہم آرڈننس کی یونٹوں سے جرسیاں خرید کر اپنے دوستوں کو بھیجتے اور وہ پہن کر اتراتے پھرتے تھے ۔

چھٹی جانا ہوتا یا کہیں پوسٹنگ ہم زیادہ تر سفر ٹرین میں نصف کرایہ دیکر کرتے تھے ۔ ہماری کل کائنات ایک بستر بند اور ٹین کا ایک ٹرنک ہوتا تھا ۔ کیپٹن رینک تک تو ہم اپنا بستر بند خود ہی اٹھا لیتے تھے بس ٹرنک بیٹ مین کے ذمہ ہوتا تھا ۔ سول میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ فوجی افسر کو فوج کچھ بھی فری مہیا نہیں کرتی ۔ ایک کپ چائے کا پی کر بھی بل دینا ہوتا ہے ہاں اسکے برعکس فوجی جوان کو کھانا پینا وردی بوٹ سب کچھ فری ملتا ہے ۔ ٹریننگ کے دنوں میں بعض اوقات آفیسرز کم ہوتے تو انکی میس نہ چلنے پر وہ کھانا لنگر پر جوانوں کے ساتھ ہی کھانے لگتے اور لنگر پر افسر کے کھانے کے مقررہ پیسے لنگر کمانڈر کے پاس جمع کرواتے ۔ اچھے کمانڈنگ آفیسرز جونیئرز کو اکثر سمجھایا کرتے تھے کہ کینٹین ، دھوبی، نائی اور لنگر کے پیسوں کی ادائیگی اپنے بٹ مین کے ذریعے کیا کرو تاکہ سب پر واضح رہے کہ پاک فوج کا کوئی افسر اپنی یونٹ سے بھی کوئی غیر قانونی فائدہ نہیں اٹھاتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سینہ تان کرچلنا ہو تو پلِ صراط سے ہر روز گزرنا پڑتا ہے اور اس زمانے میں یہ ذمہ داری ہم خوشی خوشی نبھاتے تھے کیونکہ یہی تو وردی کی شان تھی ۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply