بیانیے کی مومی ناک/محمد ہارون الرشیدایڈووکیٹ

ہمارے ہاں بیانیے کی ناک بھی قانون کی تشریح کی کی ناک طرح ہے، جب جدھر چاہا موڑ لی۔ “ووٹ کو عزت دو” کا بیانیہ اچانک “بوٹ کو عزت دو” کے بیانیے میں بدل جاتا ہے اور “آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے” کا بیانیہ اچانک ہی “آرمی چیف میر جعفر، میر صادق اور جانور” کے بیانیے میں ڈھل جاتا ہے۔ وقت حالات بدلتے ہیں تو بیانیے کی ناک بھی مڑ جاتی ہے لیکن مکمل نہیں مڑتی، واپس موڑنے کی گنجائش بھی رکھی جاتی ہے کہ کسی بھی آرمی چیف کو دوبارہ جانور سے باپ بنانا پڑ سکتا ہے۔

لیکن میں بات کر رہا ہوں انعام  رانا  کے بیانیے کی، جس کا موضوع تو بیانیے کی مومی ناک ہی ہے لیکن انعام بھائی کا بیانیہ مومی ناک کی مانند ہے نہیں کہ جدھر چاہی موڑ لی۔ انعام بھائی کا بیانیہ constant اور static ہے، مکالمہ کرو، بات چیت سے مسائل کا حل ڈھونڈو، برداشت پیدا کرو، معاشرے میں امن اور سکون کو فروغ دو۔

بیانیے کی مومی ناک تھوڑی  دیر سے منگوائی لیکن جب آئی تو پھر پڑھ ڈالی۔ یہ کتاب ان کی متنوع موضوعات پر تحریروں پر مشتمل ہے، مذہب، سیاست، معاشرت، قانون، فلسفہ سب ہی کتاب میں ملے گا لیکن بھاری اور بوجھل تحریریں نہیں، بلکہ بظاہر خشک موضوعات میں بھی ہلکا پھلکا اور غیر ثقیل انداز بیاں جو موضوع کو خشک نہیں ہونے دیتا۔

بہت سی تحریریں تو ایسی ہیں جو پہلے بھی فیس بک کی زینت بن چکی ہیں اور پہلے بھی پڑھ رکھی ہیں، بہت سی نئی تحریریں بھی کتاب میں شامل ہیں۔ تحریروں میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی رویوں پر تنقید بھی ملے گی لیکن بھاری بھرکم نہیں بلکہ ہلکے پھلکے انداز میں اور تنقید کے ساتھ اصلاح کی کوشش بھی ملے گی، مسائل کی نشاندہی کے ساتھ مسائل کا حل بھی ملے گا۔۔۔ بعض جگہوں پر بہت “بولڈ” موضوعات بھی ملیں گے لیکن ہم چونکہ ایشین ہیں، لہذا ہم یہ کم ہی سمجھتے ہیں.

انعام بھائی کو پڑھتے پڑھتے بندہ اچانک چونک بھی جاتا ہے، سوچ کو ایک دم نیا زاویہ جو ملتا ہے، اور بندہ سوچتا ہے کہ “اچھا ! اس طرح بھی تو سوچا جا سکتا ہے” اور پھر اگر اس زاویے سے سوچنا شروع کیا جائے تو دماغ میں لگی کئی گرہیں کھلنے لگ جاتی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم تعصبات سے اوپر اٹھیں، معاشرے میں برداشت کو فروغ دیں، ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کی بجائے ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کریں، بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈیں، امن اور سکون پر مشتمل معاشرہ قائم کریں تو انعام بھائی کا بیانیہ اپنانا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسا نہیں ہے کہ انعام بھائی کی ہر بات سے سو فیصد اتفاق ہے، بعض جگہ ان کی رائے سے مختلف نقطۂ نظر بھی ہے لیکن ہمیں یہ سیکھنا پڑے گا کہ کسی ایک معاملے پر اختلاف ہو تو وہ اختلاف اسی ایک معاملے تک کیسے رکھا جائے اور اسے شخصی اور ذاتی تنازعے میں نہ بدلا جائے۔ یہاں تو معاملہ ایسا ہے کہ لوگ کسی کی سو باتوں سے مسلسل اتفاق کرتے آ رہے ہوں گے اور اچانک کسی معاملے پر ان کا نقطۂ نظر مختلف ہو گا تو وہ فوراً سے بھی پہلے دوسرے شخص کو ایسے القابات سے نوازیں گے گویا وہ دوسرا شخص تو جیسے کافر ہی ہو گیا ہو۔ سوچ میں وسعت لانی ہے تو انعام رانا کا بیانیہ بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply