فیفا ورلڈ کپ گانا/شاہین کمال

بائیسواں فیفا ورلڈ کپ اس بار عرب کے ریگ زاروں میں سج رہا ہے۔ جہاں آٹھ مختلف نئے بنے سجے اسٹیڈیم میں، دنیا کے32  ممالک 64 میچ کھیلیں گے اور دنیا 20 نومبر سے18 دسمبر 2022 تک محو تماشا ہوگی۔ اسلامی ممالک میں قطر پہلا اسلامی ملک ہے جس نے فیفا کی شرف میزبانی جیتی۔ اب کیسے جیتی؟ طویل کہانی ہے، جس سے آپ سبھی واقف ہو چکے ہیں۔

قطر نے اس عظیم الشان مقابلے کی تیاری میں کیا کچھ نہیں کیا۔ دو سو بلین ڈالر کی لاگت سے مختلف تعمیراتی کام جن میں نئے ائیرپورٹ کی تعمیر۔ سات عدد نئے اسٹیڈیم، سو ہوٹلوں کی تعمیر، نیا میٹرو سسٹم، سڑکوں کی تعمیر۔ حماد ائیرپورٹ کی توسیع اور دوحہ کے شمال میں لوسیل کے مقام پر بنائے گئے نئے لوسیل اسٹیڈیم کے اطراف بسایا گیا نیا نکور پُر رونق شہر۔

اس تمام تام جھام کے لیے سالانہ تیس ہزار مزدور بھرتی کیے گئے۔ نیپال، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، اور سری لنکا سے غریب مزدور آنکھوں میں خوش رنگ خواب بھر کر قطر کے تپتے صحرا میں اترے۔ قطر جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے وہاں انہیں مسلسل 14سے 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

جبکہ لیبر لاء کے مطابق وہاں گیارہ بجے دن سے سہ پہر تین بجے تک موسم کی سختی کی وجہ سے کام کی ممانعت ہے۔ مگر بے پناہ کام اور تنگی وقت کی وجہ سے ہر طرح کی قانون شکنی کی گئی۔ 2015 میں 44 مزدور گرمی کی شدت سے اپنی جانوں سے گئے اور اسی طرح 2016 میں 70سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ ہیٹ اسٹروک اور تھکاوٹ نے کئیوں کو لانگ ٹرم بیماریوں کا تحفہ دیا۔

وہاں کا کفالہ سسٹم، غلامی کی جدید ترین شکل ہے۔ سالانہ تقریباً تیس ہزار کی ورک فورس بھرتی کی گئی تھی جس میں بقول اخبار گارڈین، فروری 2021 تک ساڑھے چھ ہزار ورکر نامساعد حالات اور غیر تسلی بخش حفاظتی انتظامات کی وجہ سے جان ہار چکے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سن 2021 کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے سلسلے میں 15، 021 تارکین وطن مزدور ہلاک ہو چکے ہیں۔

قطری حکومت کا کہنا ہے کہ یہ الزام ہے۔ فقط پچاس مزدوروں کی موت واقع ہوئی ہے، پانچ سو شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ 37 ہزار کو درمیانی یا معمولی زخم آئے ہیں۔

فیفا کے سابق چیئرمین Sepp Blatter کا ” اب یہ کہنا ہے ” کہ قطر میں ورلڈ کپ کروانے کا فیصلہ بالکل غلط تھا۔

“کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ”

بلٹر صاحب، نامساعد اور سختی حالات کے سبب جن کو جان سے جانا تھا، وہ تو گئے۔ اب آپ کا یہ اعتراف ان کے کسی کام کا نہیں۔ گرمی اور سختی میں گھرے ہزارہا مزدوروں کے لہو کی سینچائی سے سینچے ہوئے اسٹیڈیم میں بال کے ساتھ تھرکتی آنکھوں اور داد و تحسین کے نعروں میں کس کو بے کسی سے مرتے ہوئے مزدور کی سانسوں کی آخری غرغراہٹ سنائی دے گی؟

عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے

خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا ہے

سجا ہے مصر کا بازار دیکھو۔

وہاں سارے تماشے اپنی مکمل ہوش ربائی کے ساتھ موجود ہیں۔ اس مقدس سرزمین پر شراب بھی ہے کباب بھی اور مزید “ش” بھی۔

شراب کا ایک کین دس سے بارہ یورو کا۔

فیفا کا نغمہ۔

ٹکو ٹکو تو تاتا تو تاتا۔

تو اب تک آپ سب ہی نے دیکھ لیا ہوگا۔ ہم نے بھی بدقسمتی سے آج ہی صبح خبروں میں دیکھا ہے اور اس کے بعد سے ہاتھوں میں سکت نہیں کہ سر کو پیٹوں کہ جگر کو میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply