سانحہ احمد پور – سدباب کیسے ہو

سانحہ احمد پور شرقیہ کے لئے یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ”کج شہر دے لوک وی ظالم سن ,کج سانوں مرن دا شوق وی سی”. بدقسمتی سے ہم پر اتنی مصیبتیں ہمہ وقت نازل ہوتی ہیں کہ ایک ہفتہ یا دس دن کسی بھی واقعہ کو بھولنے کے لئے ہمیں بہت ہیں. بلکہ غالباً غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر اتنی مدت میں ہم کسی نئے سانحہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں. ایک اور چیز جو میرے ذاتی مشاہدے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ حادثہ، سانحہ یا کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ چاہے ہماری انفرادی زندگی میں پیش آئے، یا دفتری اور کاروباری زندگی میں یا کہ باحیثیت قوم ہم کو درپیش ہو، ہم اسے ایک حادثے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے. حالانکہ یہی حادثات و واقعات افراد اور اقوام کے لئے استاد کا فریضہ انجام دیتے ہیں. انہی سے سبق سیکھ کر زندگی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے.

پچھلے کچھ عرصے سے ایک اور نئی عادت جو ہم نے بحیثیت قوم اپنا لی ہے، وہ ہر واقعہ پر تقسیم ہونے کی ہے. انفرادی مثالیں نہ بھی لکھوں تو ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہم قطبین پر رہنا پسند کرنے لگے ہیں. نغمہ شادی ہو یا نوحہ غم یہ طے ہے کہ ہم رسہ کشی کرنے والے دو مخالف گروہوں میں بٹ جاتے ہیں. کالج کے زمانے میں ایک بار اس مقابلے میں حصہ لیا. تیاری کے لئے گئے تو پہلا سبق یہ تھا کہ”کچھ ہو جائے رسے پر گرفت نہ کمزور ہو” یہی حال ہمارا ہو جاتا ہے. کوئی بھی فریق اپنے موقف سے گرفت ڈھیلی نہیں کرتا ہے. چاہے دلیل کا جنازہ نکل جائے یا عقل کا ماتم برپا ہو جائے، موقف قائم رہتا ہے. یہ قطبی مزاج ہماری فطرت ثانیہ بن کر ہمیں توازن کی صفت سے محروم کر گیا ہے. یہاں تک کہ اب ہم مرنے والوں کو بھی قبر میں اتارنے سے پہلے اپنے رویے کی صلیب پر چڑھاتے ہیں. اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ نہ صرف قانون بلکہ منکر نکیر کی ذمہ واری بھی ہم ہی انجام دے لیں.

احمد پور واقعہ کو لے کر تقریباً ہر پہلو سے بات ہوئی ہے. کچھ نے لاشوں کا ماتم کیا. کچھ نے لالچ کا. کچھ نے غربت کو ذمے دار ٹھہرایا. کچھ نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ یہ ہمارا قومی مزاج ہے. کچھ ایسے تھے جنہوں نے تعزیت کرنی بھی مناسب نہیں سمجھی تو کچھ کو ان کے شہید کہلانے یا ان کے لئے دعا کروائے جانے پراعتراض تھا. اس سے پہلے کہ اصل مدعے تک جایا جائے، میں کوشش کروں گی کہ ایک غیر جانبدار سی گفتگو ان دونوں پہلووؤں پر کر لیں جن کو اس معاملے میں ذمے دار مانا جا رہا ہے . ایک پہلو ہے غربت. دوسرا ہے لالچ یا لوٹ مار کی نفسیات. حسب عادت قوم دو گروہوں میں بٹ کے اس حادثے کو روتی رہی ہے. ایک فریق سارا الزام غربت کو دے رہا ہے. دوسرا فریق غربت کو بالکل وزن نہیں دے رہا ہے. اس کے برعکس وہ اس کا مکمل الزام لالچ اور لوٹ مار کی عادت کے سر منڈھ رہے ہیں.

سب سے پہلے بات کرتے ہیں غربت کی. میں اس علاقے سے ذاتی طور پر واقف نہیں. ایسے میں میرا پہلا تکیہ ان معلومات پر ہے جو کچھ صاحبان سے حاصل ہوئی ،جنہوں نے وہ علاقہ دیکھ رکھا ہے. اسی سلسلے میں ایک تحریر نظر سے گزری. اس کی مصنفہ عارفہ رانا نے اس علاقے میں وقت گزارا ہے. ان کی تحریر سے اقتباس یہاں پیش ہے.
” بات ہو جائے حادثہ کی بلکہ سانحہ کی۔ اس کے پیچھے بڑی حد تک غربت بھی کار فرما ہے اور یہی غربت لالچ کی وجہ بنی۔ وہ لوگ جو کپڑے دھونے کے لیے 2 ماہ تک کھالے کے پانی کے چلنے کا انتظار کرتے ہوں وہ ایسے ضائع ہوتا پیٹرول کیسے جانے دے سکتے ہیں۔ (ساتھ کے ساتھ سڑک پر جانے والوں نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے چاہے اور اس چکر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے)۔ یہ لوگ روز کا روز کماتے ہیں اور کھا لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 2 ڈالر سے بھی کم روزانہ کماتے ہیں، جن کے بچے راہ گزرتے کپاس سے بھرے ٹرالر سےگری کپاس چن کر اس کو کسی دوکان پر بیچ کرسمجھتے ہیں کہ وہ ان چند روپوں سے بہت امیر ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ کسی کے کھیت کا کام صرف اس لیے بھی کر دیتے ہیں کہ ان کو ایک دن کی سبزی پکانے کو مل جاتی ہے۔انہوں نے اب بھی یہی سوچا ہو گا کہ چنڈ لیٹر پٹرول اکٹھا کرنے سے شائد وہ چند روپے کما لیں گے۔ ان کا یہ ایکٹ ایک وقت کی روٹی کے لیے یا اچھی عید گزارنے کے لیے تھا۔یہ روٹی کا لالچ تھا جو ان کو وہاں تک لے آیا اور ایسا لالچ اس کو ہی ہو سکتا ہے جس کے گھر میں غربت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

شاید میں بھی اس واقعہ کو صرف غربت کے کرشمے سمجھ کر اپنی رائے مصمم کر لیتی. کیونکہ میں اس بات میں یقین رکھتی ہوں کہ غربت کفر تک لے جاتی ہے. اور بھوک کو صرف بھوکا ہی جانتا ہے. پیٹ بھر کے سونے والے بھوکے کے غم کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے. لیکن اسی واقعہ کے محض چوتھے روز کراچی حیدرآباد موٹروے پر ایک آئل ٹینکر کو پھر حادثہ پیش آیا اور اس قدر قیامت خیز اموات دیکھ کر بھی لوگ مکمل دلجمعی سے پھر سے پٹرول جمع کرتے پائے گئے.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اس قدر لرزہ خیز اموات دیکھ کر بھی لوگ پھر یہی عمل دہرا رہے تھے. میں سمجھتی ہوں یہ نہ اکیلی غربت ہے نہ اکیلی لالچ. یہ وہ بھوک ہے جو غربت کے سبب لوگوں کے اندر جمع ہو چکی ہے. بہت بھوکا شخص بھی ندیدہ ہو جاتا ہے. یہی ندیدہ پن لالچ کی شکل لے کے انسان کو موت سے غافل کر دیتا ہے. قرآن بھی تو …کہتا ہے. (لوگو) تم کو(مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔

لیکن اب آتے ہیں ایک اور پہلو کی طرف. میں نے اب تک جو بات کی ہے اس میں الزام تو ہیں. لیکن اس میں حل نہیں ہے. ایک بہت حقیقت پسند بات یہ ہے کہ غربت راتوں رات ختم نہیں ہو سکتی ہے. اس سے بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ غربت ختم ہونے کے بعد بھی یہ بھوک اور یہ لالچ ایک دم ختم نہیں ہو گا. شائد ایک نسل تک تو ایسا ہو بھی نہ سکے. تو کیا ہم ایسے ہی سانحات کو ہونے دیں. یہ سوچ کر خاموش ہو جائیں یا پس از مرگ آپس میں لڑتے رہیں اور معروضی حالات کی بہتری کی جانب کوئی قدم نہ اٹھائیں. اگرچہ اس کا مستقل حل یہی ہوگا کہ حکومتیں ان علاقوں کے لوگوں پر توجہ دیں. ریاست میں وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنائیں . لوگوں کو تعلیم اور شعور کی راہ پر گامزن کیا جائے. لیکن یہ حل اول تو حکومتوں پر منحصر ہیں اور بد قسمتی سے ہماری حکومتوں کو اور بہت ضروری معاملات درپیش ہیں. البتہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے کچھ جز وقتی حل نکالے جا سکتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

الیکٹرونک میڈیا اس وقت ہماری زندگی میں ہمارے خاندانوں اور مذہب سے زیادہ داخل ہے. یہ وہ واحد میڈیم ہے جس تک غریب کی پہنچ ہے. یہ الیکٹرونک میڈیا ہمارے لباس، ہمارے تمدن، ثقافت، شادی بیاہ، ہماری سوچ کا رخ سب کچھ متعین کر رہا ہے. اسی کی بنیاد پر آج ہمارا پہلی جماعت کا طالب علم اپنی استانی یا ہم جماعت کے عشق میں مبتلا ہو کر خود کشی کرتا ہے. اگر ہمارے میڈیا مالکان اس معاملے میں اپنی طاقت کو استعمال کریں تو غربت کے باوجود اس لالچ کو کم کیا جا سکتا ہے. ماضی میں کئی معاشرتی موضوعات اور حادثوں کو لے کر ڈرامے بنانے کا رجحان تھا. جو کہ عوام میں نہایت دیر پا اثر چھوڑ جاتے تھے. ایک وقت میں پی ٹی وی رات خبرنامے سے پہلے کسانوں کے لئے رہنمائی نشر کرتا تھا. جس کے یقیناً اچھے اثرات تھے. آج کا میڈیا اگر موثر پروگرام ترتیب دے جس میں لوگوں کو عزت نفس اور خودداری پر مائل کیا جا سکے تو شاید اگلی بار ایسی بڑی تباہی روکی جا سکے. اگرچہ اس میڈیا کے لئے جو کہ لان کے سوٹ کے پیچھے عزت دار عورتوں کو ان کے مقام سے نیچے لے آتا ہے، یہ مشکل کام ہو گا، لیکن اگر کسی بھی صاحب احساس کو اس کی توفیق نصیب ہو جائے تو شاید ان کے اور میرے حق میں حجت قائم ہو جائے.

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply