میری منگیتر۔۔سیّد محمد زاہد

(محترمہ راحیلہ خان ادیبہ کا افسانہ ‘حادثہ’ پڑھا۔ ‘منگیتر اور خاوند’ ایک ہی شخص کے دو روپ دیکھے۔ پڑھ کردل چاہتا ہے کہ بندہ ساری عمر منگیترہی رہے۔ شادی والا حادثہ کبھی وقوع پذیر نہ ہو۔ ایک افسانہ پیش خدمت ہے۔)
سچی محبت قاضی کے خطبے، پنڈت کے اشلوک یا وکیل کے کابین نامے کی محتاج نہیں، یہ وہ سماوی بادشاہت ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔ کیا یہ سماوی بادشاہت اس کے وجود کا حصہ تھی بلکہ زیادہ بہتر سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی یہ بادشاہت موجود ہے یا جمہوریت نے اسے پچھاڑ دیا ہے؟ میں نے جب بھی خود سے یہ سوال کیا کوئی جواب نہ پاسکا۔
وہ میری بچپن کی منگ ہے۔ ہم دونوں اس تعلق کا چھٹا عشرہ پورا کرنے والے ہیں۔ وہ کون ہے؟ بس اک ذرہ خاکی، لیکن ایسا نکھرا ہوا ذرہ جس کے حضور لاکھوں آفتاب غروب ہو جاتے تھے۔ آج بھی وہ جھمکتے تاش کی انگیا اور کمخوب کا لہنگا پہن کر آ جائے تو جوبن کی بہار ہزار خزاؤں کو مات کرتی ہے۔
ہماری محبت کیا تھی؟ تھی بھی یا نہیں یہ باتیں اب فضول لگتی ہیں۔ طفلی کا عشق اور عہد جوانی کے دعوے وعدے، سب بیکار کی باتیں ہیں۔ آپ بھی سن کرکیا کریں گے۔ بات شادی سے ہی شروع کریں تو مناسب ہے۔

دونوں کی شادی ایک ہی دن طے پائی۔ کس نے تاریخ پہلے رکھی؟ آج تک پتا نہیں چل سکا۔ ٹنٹا کھڑا ہو گیا کہ برادری والے کس کے گھر جائیں گے۔ اس سمسیا کا حل ڈھونڈنے کے لیے دو افراد پر مشتمل پنچائیت توڑ جوڑ مار کر بیٹھ گئی۔ وہ اڑیل تھے اور ہم بھی ناک نہیں کٹوانا چاہتے تھے۔ پنچائیت نے دونوں طرف کےدلائل سن کر فیصلہ دیا کہ اس تاریخ کو کسی کی بھی شادی نہیں ہوگی۔ جو عمر میں زیادہ ہے اس کی شادی ایک دن پہلے ہوگی اور دوسری کی ایک دن بعد۔ ہم نے لاکھ گلہ کیا کہ ثبوت دیکھے بغیر مونث صیغہ استعمال کر لیا گیا ہے۔ ہمیں اس غیر آئینی فیصلے پر اعتراض ہے۔ لیکن اعلیٰ عدلیہ طاقتور کے سامنے ناچار تھی۔
ہماری ہی برادری کی ہو کروہ طاقتور کیسے ہو گئی، ابھی بتاتا ہوں۔

کئی سال بیت گئے ہیں۔ موٹر وے کا نیا نیا افتتاح ہوا تھا۔ ہم چار دوستوں نے لانگ ڈرائیو کا پروگرام بنایا۔ موٹر وے پر پولیس نے آگاہی مہم کا آغاز کیا ہوا تھا۔ ہمیں بھی روکا گیا۔ لیکن یہ کیا؟ ہم سے ڈرائیونگ لائسنس مانگ لیا گیا؟ پھر حکم ہوا گاڑی کے کاغذات بھی چیک کروائیں۔ کاغذات نہیں تھے۔ پھڈا پڑ گیا۔ گاڑی بند۔ شور مچایا۔ منت کش ہوئے، حکم ہوا اندرصاحب تشریف فرما ہیں، ان سے بات کر لیں۔ صاحب کے پاس حاضر ہوئے۔ کہنے لگے آپ معزز لوگ ہیں قانون پر عمل کیا کریں۔ ہماری شرمندگی بھانپ کر چائے بھی پلائی۔ شکریہ ادا کر کے چلے آئے۔ اگلے دن منگ کا فون آ گیا، کہنے لگی ”اپنے منگنوئی سے چائے بھی پی آئے ہو شرم تو نہیں آتی۔ تمہیں علم نہیں، وضع دار لوگ اپنی منگیتر کے سسرال سے کچھ نہیں کھاتے پیتے۔“ میں نے خجالت سے پوچھا ”منگنوئی کون؟“
”اب میں اسے تمہارا بہنوئی کہنے سے تو رہی؟ یہ بے غیرتی مجھ سے نہیں ہوتی۔ اگر
دوبارہ ملے تو تم کہہ لینا۔“
اس کی ماں بیمار تھی اور گاؤں میں اپنے نکھٹو بیٹے کے پاس۔ میری اماں کو پتا چلا تو وہ ملنے کو بیتاب ہو گئیں۔ میں نےدیکھا کہ بڑھیا کو کوئی خاص بیماری نہیں صرف نرسنگ کئیر کی ضرورت ہے۔ اماں جی بھی واپسی کا نام سن کر افسردہ ہو رہی تھیں۔ سو میں نے تجویز کیا ” ماں جی انہیں ساتھ ہی لے چلیں کچھ دن ہمارے پاس رہیں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی۔ اماں کہنے لگیں، ”پتر جے اینوں کجھ ہو گیا تے بدنامی ہوگی۔“
”امی جی پہلے ایتھے میری نیک نامی دے جھنڈے لگے ہوئے نیں۔ جے کجھ ہو گیا تے اک بدنامی ہور سہی۔“ میرا جواب سن کر اماں جی مطمئن ہوگئیں اور ہم انہیں ساتھ لے آئے۔
اگلے ہی دن وہ چلی آئی، ساتھ ہی بچے بھی۔
اک کچھڑ، اک ڈھاکے، اک ٹریا آئے آپے۔
(کچھڑ، کچھ، بغل ۔ ڈھاکے، ڈھاک، کولہا۔ ٹریا، چلتا)

یہ دیکھ کر میری بیگم نے منہ بنا لیا۔ کہہ وہ کچھ سکتی نہیں تھی کیونکہ گاؤں کی پلی ساس ماشاءاللہ مضبوط ہاتھ پاؤں کی مالک تھی۔ میں نے بھی حوصلہ بڑھایا کہ شکر کرو تین گھر چھوڑ آئی ہے۔
میں نے پوچھا چھ کافی ہیں یا ٹیم مکمل کرنا چاہو گی۔ جواب ملا۔ دل تو یہی چاہتا ہے لیکن اس گھسیٹے کے ہی بچے جنتے جانا ہے! کسی دل جلے کی خدمت کے لیے بھی کچھ رکھنے ہیں۔
غالب کو شکایت تھی کہ بیگم نے گھر کو مسجد بنا رکھا ہے۔ ہمیں کوئی شکایت نہیں بس اس نے شکایت کی سو بیگم تک میں نے پہنچا دی۔

بیگم نے اعلیٰ ظرفی کی مثال قائم کرنے کے لیے اپنا پرانا بیڈ روم اسے دے دیا تھا۔ صبح میں نے پوچھا رات کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟ نیند ٹھیک آئی؟ کہنے لگی ”نیند کیا آتی! تمہاری بیگم نے گھر کو بت خانہ بنا رکھا ہے۔ وہ اوپر دیکھو اور جدھر بھی دیکھو اس نے تمہارے ساتھ اپنی تصویریں لگا رکھی ہیں۔ کیا اسے ابھی بھی یقین نہیں آیا کہ تم نے اس کے ساتھ بیاہ کر لیا ہے۔“
بیگم نے اطلاع پاتے ہی کم از کم اس کمرے سے تصویریں ہٹا لیں۔

گرچہ بیگم بھی میرے جیسی ہی ہے، کسی بھی غیر مرئی چیز پر ایمان نہیں رکھتی لیکن اس دن ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے نظر بٹو کو نظر نہ لگ جائے۔
ہماری اکلوتی بیٹی کو ایک قاری صاحب پڑھانے آتے تھے۔ ان کی بیٹی کی ٹرانسفر کا مسئلہ تھا۔ مجھے وزیر تعلیم سے سفارش کرنے کو کہا۔ جب اٹک ضلع کا نام آیا تو میں نے جھٹ فون ملا کر سفارش کر دی اور قاری صاحب کو کہا ”چھوڑیں وزیر کو۔ اسے ای ڈی او کے پاس بھیج دیں، کام ہو جائے گا۔“ وہ دفتر پہنچی تو کلرکوں نے اسے اندر نہ جانے دیا۔ لڑکی مجھے فون کرتی تھی اور میں ای ڈی او کو۔ بالآخر میں نے غصے میں کہا ”کام کرنا ہے تو کرو اسے کیوں ذلیل کر رہی ہو؟“
”وہ ہے کہاں؟“
”تمہارے دفتر میں۔“
”میرے پاس تو نہیں؟“
تھوڑی دیر بعد فون آیا جیسے تم جاہل ہو ویسے ہی تمہارے اقارب۔ تمہیں بندے کی پہچان ہے، نہ انہیں۔ وہ جاہل عورت  کلرکوں کے پاس بیٹھی تھی۔“

پھر مجھے پتا چلا کہ اس کے خلاف کرپشن کے الزامات پر محکمانہ کاروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بقول سال ہا سال کی نوکری کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ اس ملک میں کسی شریف کی کوئی عزت نہیں۔ اس کے مولوی خاوند پر بھی ایسے ہی بے بنیاد الزامات تھے۔ دونوں کو اپنی نیک کمائی ادھر ادھر بہت سے کلرکوں، افسروں میں بانٹنی پڑی۔ پھربھی ‘من فضل ربی’ سے کافی کچھ بچ گیا۔ دونوں وقت سے پہلے ہی ریٹائیرمنٹ لے کرانگلینڈ منتقل ہوگئے۔

سارا خاندان بہت نیک ہے۔ انگریز ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ مولوی صاحب بہت موٹے ہو چکے ہیں۔ داڑھی کی کانٹ چھانٹ پسند نہیں کرتے۔ رنگ بھی نہیں لگاتے۔ وہ نیک بی بی مجھے بھی کہتی ہے کہ تم کیا اپنے منہ پر خود ہی کالک ملتے رہتے ہو۔ پھر کہتی ہے ہاں، ابھی سے عادت ڈالنا بہتر ہے فرشتوں نے بھی تمہارا یہی حال کرنا ہے۔

سارا خاندان سات وقت کا نمازی ہے۔ اکثر کہتی ہے اچھا ہوا تم میرے شوہر نہیں بنے۔ بزرگوں کی دی ہوئی زبان کی لاج رکھی۔ انہوں نے ہمیں منگیتر بنایا, ہم اسی بات پر قائم رہے۔ ویسے بھی تمہارے ساتھ شادی ہو جاتی تو مجھے دوزخ جانا پڑتا۔ اب میں جنت میں حوروں کی سردار ہو نگی۔
میں نے پوچھا کہ حوریں تو مولوی صاحب کو ملیں گیں تمہیں کیا ملے گا؟ اس کا جواب ہمیشہ ہی کھڑاکے دار ہوتا ہے۔
”حلیہ دیکھا، تم نے اس موٹے کا؟ بڑا آیا حوروں کا طلب گار۔ کسی کو اس کے نزدیک پھڑکنے بھی نہیں دوں گی۔ ویسے بھی وہ نیک آدمی ہے تمہارے جیسا بھنورا نہیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جنت کی حق دار اور حوروں کی سردار کے دل میں سماوی بادشاہت قائم ہے یا نہیں؟ جمہوریت نے اس کا قلع قمع کیا ہے یا نہیں؟ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کیونکہ چھ جمع ایک ووٹ، میرے ایک سے بہت زیادہ ہیں۔ ہاں ملک کے حالات حوصلہ افزا ہیں کہ جمہوریت آ بھی جائے تو کنٹرولڈ ہی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply