عمران خان، عدم اعتماد اور بندر بانٹ ۔۔ گل بخشالوی

وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ تحریک عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جو بھی کریں گے میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی تو کیا آپ تیار ہیں اس کے لیے جو میں آپ کے ساتھ کروں گا؟۔ مغرب کو آنکھیں دکھا کر انتہائی مشکل وقت میں روس کا دورہ کرنے والے عمران خان کہتے ہیں۔ 25 سال پہلے میں سیاست میں تم جیسوں سے مقابلہ کرنے کے لیے آیا تھا، جب تک مجھ میں خون کا ایک بھی قطرہ ہے میں تمہارا مقابلہ کروں گا۔

ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں، شعبہ صحافت میں ہر کوئی حامد میر ہے اور نہ سلیم صافی ، ایسے دانشور بھی اس دیس پاکستان کی پہچان ہیں جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور وہ لکھتے ہیں جو سچ ہے ، وہ کسی کی خوش نودی کے لئے قلم کے وقار کو مجروح نہیں کرتے ایسے ہی اہل قلم اس دیس کا اثاثہ تھے ہیں اور رہیں گے۔

انصار عباسی لکھتے ہیں ،اختلاف ضرور کریں لیکن اگر کوئی اچھا کام کرے تو ا اس کی تعریف کیوں نہ کی جائے؟ ۔ اگر تحریک انصاف، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے رہنما اور ا  ن کے ووٹر، سپورٹر ایسا کریں تو حیرانی کی بات نہیں لیکن اگر جماعت اسلامی جیسی جماعت اور محترم سراج الحق جیسے رہنما بھی اپنے مخالف کے کسی اچھے اقدام کی تعریف اور حمایت نہ کریں تو یہ افسوس کی بات ہے۔ خصوصاً معاملہ اگر اسلام، معاشرے کی بہتری اور تربیت کا ہو تو پھر سیاسی اختلافات کو بھلا کر سب کو ایسے کام کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں، خراب طرزِ حکمرانی، امتیازی احتساب وغیرہ سے ضرور اختلاف کریں لیکن اگر موجودہ حکومت نے معاشرے کو سدھارنے اور اس کی اسلامی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی ایسے اقدام کیے ہیں جو تاریخی ہیں تو ا  ن کی حمایت اور تعریف میں کنجوسی کیوں کی جاتی ہے؟ ویسے ہی یہاں ایک بااثر طبقہ پاکستان کو اسلام سے دورکرنے اور لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نام پر مغربی و بھارتی کلچر کے فروغ کے لیے بہت فعال ہے۔ ایسے میں اگر کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے ایسے اقدامات جو پاکستان کی اسلامی اساس کو مضبوط بنانے، یہاں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے اور معاشرے کی کردار سازی کے لیے ضروری ہیں ، ا  ن کی حمایت اور تعریف نہ کی جائے گی تو اس سے وہ طبقہ مضبوط ہوگا جو ایسے اقدامات کی مخالفت میں پہلے ہی بہت آ گے نکل چکا اور میڈیا کی حمایت سے ہر اسلامی اقدام کو متنازع بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی نصاب میں قرآ ن و سنت کو شامل کرنا بہت بڑا اقدام ہے جس کی حمایت سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر سب کو کرنی چاہیے۔ پردے کے حق میں اور فحاشی کے خلاف وزیر اعظم عمران خان بات کرتے ہیں تو ا  ن کے روشن خیال وزرا تک ا  ن کی حمایت نہیں کرتے جبکہ میڈیا ا  ن کا مذاق ا  ُڑاتا ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ سراج الحق صاحب بھی آ ج تک ان معاملات میں وزیراعظم کی حمایت میں نہیں بولے۔ ہماری قوم کی معاشرتی اوراخلاقی گراوٹ کو روکنے اور معاشرہ کی کردار سازی اور افراد کو بہتر انسان اور اچھا مسلمان بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی کوششوں سے رحمت للعالمین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اتھارٹی کے مینڈیٹ کو اگر دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کی اسلامی بنیادوں پر تربیت کے لیے یہ ایک انقلابی قدم ہے جس کی سپورٹ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ قابل احترام ڈاکٹر انیس احمد کو اس اتھارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیاہے جو بہت خوش آ ئند فیصلہ ہے۔ ڈاکٹر انیس کو ا  ن کی تعلیمی خدمات اور اسلام پسندی کی وجہ سے سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بڑی مشکل سے اس ذمہ داری کو لینے کے لیے راضی ہوئے۔ وہ اس ذمہ داری کے لیے حکومت سے کوئی تنخواہ بھی نہیں لیں گے۔ یہ وہ کام ہیں جو عمران خان کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ہو، کسی کی بھی حکومت ہو، اچھے کام کی تعریف اور ب ±رائی کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ۔ عمران خان ہوں یا کوئی اور اگر وہ اچھا کام کرے تو ا  ن کو سپورٹ کریں، غلط کام کو ضرور غلط کہیں۔ اندھی تقلید سے بچیں اور مخالفت میں صحیح اور غلط کی تمیز کو مت بھولیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

منصور آفاق لکھتے ہیں میری اطلاعات کے مطابق اپوزیشن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں پیش کرے گی۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ اس وقت اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک کیوں شروع کی۔ بعض صحافیوں نے لکھا ہے ”کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور زرداری کے اعتماد کو بحال کرنے میں کچھ بیرونی دوست ممالک نے بھی کردار ادا کیا“۔ حکومت کے خلاف موجودہ تحریک صرف اپنے غیر ملکی آ قاؤں کو خوش کرنے کے لیئے شروع کی گئی ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ صحافی کس طرح ملکی عہدوں کی خیالی بندر بانٹ کرنے میں لگے ہیں۔ بیچارے شہباز شریف کو وزیر اعظم کا پھر خواب دکھارہے ہیں۔ اگر نواز شریف شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے پر تیار ہوتے تو شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ پھر چوہدری برادران کے ساتھ ماضی میں جو کچھ شریف خاندان کر چکا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ پھر ان پر اعتبار کر سکیں؟ چوہدری برادران شہباز شریف کے کھانے پر نہیں گئے۔ کیا یہی پیغام کافی نہیں۔ یہ پڑھ کر کہ ”اسپیکر شپ پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے  گی اور چیئرمین سینیٹ کی سیٹ جے یو آ ئی کو دی جائے گی“ ہنسی آ تی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply