مکالمہ کس سے کیا جائے؟۔۔۔ شبیر رخشانی

انسان اس وقت مکالمہ کرتا ہے، جب معاملات و حالات سازگار ہوں۔ دو فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے راستے نکالتے ہیں۔

اسلام آباد میں مادری زبانوں کا میلہ لگ چکا تھا۔ پاکستان کے کونے کونے سے ادیب و دانشور اسلام آباد آئے ہوئے۔ پیارے عابد میر بھی ان میں شامل تھے۔ یہ میلہ لوک ورثہ اسلام آباد میں منعقد کیا جا رہا تھا۔ لوک ورثہ سے جڑت کی وجہ سے ایک لحاظ سے ہمیں بھی میزبان شمار کیا جانے لگا۔ ہم نے اپنے اختیارات کو استعمال کر کے اپنے دفتر کو بلوچستان گھر بنا دیا۔ “میڈیا منڈی” کے مصنف اکمل شہزاد گھمن بھی اس تقریب میں شریک تھے۔ کتاب کی سن گن دور دور تک پھیلی تھی۔ تبصروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع تھا۔

   ملاقات کے بعد ان سے ایک دلی انسیت محسوس ہونے لگی۔ ایسے لگا جیسے یہ بلوچستان کے باسی ہوں۔ پھر تو ایک ایسا رشتہ جڑ گیا کہ اسلام آباد چھوڑے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا، دلی رشتہ اور رابطہ اب بھی برقرار ہے۔ اسی پروگرام کے بعد اکمل بھائی کہہ گئے کیوں نہ عابد میر کے اعزاز میں پروگرام رکھا جائے جس میں اسلام آباد کے دوستوں کو بلا کر گپ شپ کی جائے۔ میں نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ لوک ورثہ کو اپنا گھر سمجھ کر پروگرام وہیں شام کے وقت طے پایا۔ پروگرام میں عابد میر کے علاوہ اکمل شہزاد گھمن، خرم مہران، روش ندیم، عمر چیمہ، ظفراللہ خان (یدبیضا)، بیورغ بلوچ، آصف کنبھر اور دیگر کئی دوست جن کے نام یاداشت سے نکل گئے ہیں، موجود تھے۔

یہ ایک قسم کی جنرل گیدرنگ تھی۔ اکمل شہزاد گھمن نے پروگرام کا آغاز عابد میر کی کتاب “سرخ حاشیے” کے چند اقتباسات سنا کر ماحول کو گداز کر دیا۔ پھر عابد میر سے اسلام آباد کے دوستوں کے سوالات کا نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو گیا۔ کئی بار ایسے لگا کہ پروگرام میں بیٹھے ہم بلوچستان کے دوست سرمچار اور اسلام آباد کے دوست مقتدر حلقے ہیں۔ جب ماحول انتہائی گرم ہوا تو عمر چیمہ جو کہ بہت ہی نامی گرامی صحافی ہیں، خاموشی سے پروگرم سے واک آؤٹ کر گئے۔

خیر بھلا ہو اکمل شہزاد گھمن اور روش ندیم کا کہ انہوں نے دوستوں کو بتایا کہ نہ ہم اس وقت حکومت ہیں اور نہ جنگجو، ہم قلم کار ہیں، یہی قدر ہمارے بیچ مشترک ہے۔ کافی دیر تک بحث و مباحثہ جاری رہا۔ تمام دوستوں نے اس بات پہ اتفاق کیا کہ مکالمہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ ہم تحریروں ، تبادلہ خیال یا بحث مباحثوں کے ذریعے سے ہی ایک ماحول پیدا کر سکتے ہیں کہ ہم نہ حکومت ہیں اور نہ جنگجو۔

آج ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ بلوچستان سے نوجوان “حال حوال” کے ذریعے سے مکالمے کی فضا بحال کرنے میں مصروف عمل تھے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان کی آواز وفاق تک پہنچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مکالمے کی فضا مقتدر حلقوں سے برداشت نہیں ہوئی۔ “حال حوال” بند کر دیا گیا۔

اسلام آباد کے وہ دوست جن میں پی ٹی اے کا نمائندہ دوست بھی شامل تھا٬ اب یقیناً  انہیں یہ بات سمجھ میں آگئی ہو گی کہ مکالمے کی راہوں کو بند کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ حالانکہ “حال حوال” سماج میں ایک مثبت کردار ادا کر رہا تھا۔ مکالمے کی تمام راہیں بند کی جاتی ہیں تو بچتا کون سا راستہ ہے؟۔ مکالمے کا گلا گھونٹنے کی بجائے اسے راہیں فراہم کی جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج یقیناً  ان دوستوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے جو اس پروگرام کا اختتامیہ اس اعلان کے ساتھ کر چکے تھے کہ مسائل کا حل ڈائیلاگ ہے، ڈائیلاگ سے ہی راستے نکل سکتے ہیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply