• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دوست پبلیکشنز اسلام آباد نے لکھاریوں کو رسوا کردیا ہے/سلمیٰ اعوان

دوست پبلیکشنز اسلام آباد نے لکھاریوں کو رسوا کردیا ہے/سلمیٰ اعوان

مجھ نگوڑی پر تو وہی مثال صادق آرہی تھی کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

تیرا لٹیا شہر بھنبوڑنی سسیئے بے خبرے
جمعے کی شب طاہرہ اقبال کو ان کے نئے ناول ہڑپہ جسے جہلم بک کارنر نے چھاپا ہے پر مبارک باد دینے کے لیے فون کیا۔ شکریہ کہتے ہوئے طاہرہ نے کہا‘‘ تمیں کچھ معلوم ہے دوست پبلیکیشنز اسلام آباد نے اپنا کاروبار سمیٹ کر ہماری کتابیں ردّی والوں کو اٹھوا دی ہیں اور خود امریکہ چلے گئے ہیں۔’’
‘‘کیا کیا؟ طاہر ہ ہوش میں تو ہو۔کیا کہہ رہی ہو؟’’میرے اوپر تو جیسے بجلی گری تھی۔میں جانتی تھی کہ اچھی کتابیں بہترین انداز میں چھاپنے کے لیے یہ ادارہ اپنی ایک شہرت رکھتا ہے۔بہترین چھاپہ خانہ کا مالک ہے۔
‘‘آپ کی بے خبری کی بھی حد ہی ہے ۔اس خبر کو تو سات آٹھ ماہ ہونے کو ہیں۔میں تو سوگ منا منا کر اب کچھ کچھ سنبھلی ہوں۔’’
‘‘اور باقی لوگوں کا کیا حال ہے؟ثروت محی الدین ،نیلو فر اقبال، یونس جاوید، ڈاکٹر حامد بیگ، سیما پیروز ،حسن عباس اور ہاں منشا یاد کی کتابیں بھی تو یہیں سے چھپتی تھیں۔بے شمار لوگ اور بھی ہیں۔ ان کے بارے تو جانتی ہوں کہ کسی کی چار کسی کی تین،کِسی کی دو اور میری تو ٹوکرہ بھر یعنی چودہ کتابیں چھاپے بیٹھے تھے۔تمہاری کون سی کم تھیں آٹھ تو مجھے یاد ہیں۔’’
بڑی لمبی آہ طاہرہ اقبال کے سینے سے نکلی تھی۔‘‘دیکھو میرے پاس تو کسی کی سوفٹ کاپی بھی نہیں۔’’
بقیہ رات کیسے گزری ہوگی ۔خود ہی جان جائیے۔چودہ کتابیں جیسے سینے پر مونگ دلنے بیٹھ گئی تھیں۔
ان میں سے بیشتر اسفارتین ناول اور تین افسانوی مجموعے شامل ہیں۔
پیسہ،محنت،لہو رنگ فلسطین کو لکھتے ہوئے چار سال لگے تھے اور بھیجا ہی پلپلا ہوگیا تھا۔لو بھئی اس پیسے والے نے تو ہم غریبوں کا پٹڑہ کردیا۔
کسی سیانے کی اِس بات نے کبھی متاثر نہیں کیا تھا کہ اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں کبھی مت رکھو۔تین پبلیشروں میں بٹی ہوئی تھی مگر جی جان سے یہی چاہتی تھی کہ ایک ہی کے ساتھ نتھی ہوجاؤں۔
اب بستر پر لیٹی ماتم کرتے اندر کو سمجھا رہی ہوں۔شکر کر باقی چودہ تین میں بٹی ہوئی ہیں۔وہ بھی کہیں ان کے پاس ہی ہوتیں توبلیئے تیرا تو ککھ پت نہیں رہنا تھا۔
حال اس خستہ حال دکھیاری ماں جیسا تھا جس کے جوان بیٹے کی بے وفائی نے اُسے نو ماہ پیٹ میں رکھنے جننے اور پالنے پوسنے کی کلفتوں اور مشقتوں کی اذیتوں کی یاد نے بے کل کر دیا ہو ۔
پہلے تو اسفار یاد آئے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر پروفیسر معین نظامی کی ایک تقریر جو کسی تقریب میں سنی تھی کانوں میں گونجنے لگی۔‘‘سفر نامہ لکھنے کے لئیے سفر نہیں کرنا چاہیے۔لو جی یہ اچھی ایکٹویٹی رہی۔تب بھی بڑا پیچ و تاب کھایا تھا اور اس وقت بھی کھولنے لگی تھی ۔ بھلا اب اس صاحب علم کی بات سے میں اتفاق کیسے کروں؟ جبکہ میں نے تو سفر کیئے ہی لکھنے کے لیئے ہیں۔ جتنی اذیتیں اور پریشانیاں میں نے بھوگیں اُن کا کیا مول۔ پیسہ کی بربادی تو رہی ایک طرف خطرات میں کودنے سے بھی گریز نہ کیا۔ طعنے اور لعن طعن جو سہی اس کی بھی کئی کہانیاں ۔
ساری کلفتیں، سارے دکھ، سارے مرنے ، کہیں دوپہر کے کھانے کی بچت ، کہیں رات کا کھانا گل۔ آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں کو پوروں سے پونچھتے ہوئے خو دسے کہتی ہوں ۔ ‘‘اے میرے دل ناہنجار کہاں تک سنو گے اور کہاں تک سناؤں تمہیں۔ یہ تم ہی بد بخت تھے جو اکساتے تھے کہ فلاں ملک پر لکھو۔ فلاں جگہ جاؤ ۔پہلے جانے کے رپڑ اور واپس آکر اُسے لکھنے کے سیاپے۔ اُن کی صحت بارے مستند حوالوں کے لیئے کہیں کتابوں سے مغزکھپائی اور کہیں انٹرنیٹ پر آنکھوں کو پھوڑنا۔مواد کو دلچسپ بنانے کے لیئے کوششیں اور حربے۔ قاری بورنہ ہو جائے کہیں۔ چھپوانے کے سیاپے اور پھر تنقید نگاروں کے کھیل تماشے۔
لہورنگ فلسطین ناول یاد آیا تھا۔
‘‘شومئی قسمت کہ مصر میرا خواب’’سفر نامہ کی تقریب رونمائی مصری سفارت خانے نے کی ۔ مصری سفیر عامرمگدی نے تقریب کے دن مشرق وسطیٰ کے سفیروں کو بھی بلا لیا تھا۔ جہاں فلسطین کے نوجوان سفیر ابو شینب نے کہا۔‘‘ ہمارے فلسطین پر بھی تو لکھیئے۔’’ ہائے دل سے ہوک اٹھی۔ الطاف آپا یاد آئی تھیں۔ فلسطین سے ان کا عشق یا دآیا تھا۔ اُن کی کہانیاں یا دآئی تھیں۔ ان کے گول برآمدے میں میٹ پر بیٹھے ان سے باتیں کرتے ہوئے اپنے اور ان کے آنسو یا د آئے تھے۔
تو رقت بھری آواز میں ہامی بھری تھی۔ اور یہ ہامی کتنی مہنگی پڑی۔ کسی کو کیا بتاؤں اور کیا سناؤں۔ ویزا کے لیئے اسلام آباد کے چکر ۔ اسرائیل بے ہودہ کی بے ہود گیاں ہر بار ایک نیا اعتراض۔ چار سال کی قید بامشقت کہ لاہور میں ہوتے ہوئے بھی فلسطین اور اسرائیل میں شب و روز گزرتے تھے۔
ردّی کے بوروں میں ٹھونستے مزدور،بے دردی سے ٹائٹیل اکھیڑ تے، وحشیانہ انداز میں صفحات کو اکھٹے کرنے اور انہیں ردی کے بوروں میں ٹھونسنے کے رلد دینے والے منظر تھے۔ جان جگر سے بھی زیادہ قیمتی کتابیں کہ جنہیں شیشوں میں سجاتے نہ تھکتی تھی اب کیسے اپنی بے قدری اپنی بے حرمتی پر آنسو بہارہی ہوں گی۔
ایسے قصے تو خیر آئے دن سنتے رہتے تھے کہ لوگ کتابیں ردی میں بیچ آتے ہیں ۔ پر وہ تھڑوں پر سج جاتی تھیں۔ کراچی سے ایک دو سال پہلے جناب معراج جامی نے میرا ایک افسانوی مجموعہ ‘‘بیچ بچولن’’ کسی کباڑیئے سے خریدا اور پھر اپنی آپا کو بھیجا تھا۔ میں نے اُسے وصول پا کر بھی لمبی چوڑی آہیں بھری تھیں۔
اور تب اپنے آپ سے کہا تھا ۔ چل چھوڑ کلیجہ نہ ساڑ اپنا۔ جب قو میں زوال پر آتی ہیں۔ تو ذہن سے سوچ اور فکر غائب ہوجاتی ہے۔ حرف سے محبت نہیں رہتی۔ لیکن اس پڑھے لکھے ادب سے وابستہ قابلِ ذکر لکھاریوں شفقت تنویر مرزا اور مظہر اسلام کے خاندان سے انتہائی قریبی تعلق کے با وجود آصف نے کیا کیا؟
کاروبار میں اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں۔ اتنا احسان اور نیکی کرتے کہ ہر مصنف کو بلا کر اس کی کتابیں اور متعلقہ چیزیں انہیں پوری قیمت سے بھی زیادہ پر اٹھو ادیتے دعائیں لیتے۔ یہ ہلاکوخان والے کام تو نہ کرتے۔ اس نے دجلے کے پانیوں کو سیاہ کر دیا تھا اورآصف تم نے بے شمار لکھاریوں کے کلیجوں میں چھرے اور چھریاں گھونپ دی ہیں۔ خود امریکہ بھا گ گئے ہو ۔جو تم جیسوں بھگوڑوں کی جائے پناہ گاہیں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply