لچکدار دماغ (24) ۔ گنگناتا نیٹورک/وہاراامباکر

اینڈریاسن 1980 کی دہائی میں دنیا میں PET (پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی) کی ماہر تھیں۔ اس میں جسم میں تابکار مادہ داخل کیا جاتا ہے اور ٹشو کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ اینڈریاسن کی تحقیق دماغ پر تھی۔ برگر کی ای ای جی ٹیکنالوجی کے بعد نیوروسائنس میں یہ اگلی بڑی چھلانگ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈریاسن نے خالی ذہن میں برقی توانائی کے عجیب پیٹرن دریافت کئے۔ یہ ویسے ہی تھے جیسا ان سے پہلے برگر نے دریافت کئے تھے۔ اینڈریاسن نے اس کا نام REST (Random Episodic Silent Thinking) سٹیٹ رکھا۔
یہ لفظوں کا کھیل اس لئے کہ یہ بتاتا تھا کہ خالی ذہن کی حالت میں دماغ آرام نہیں کر رہا ہوتا۔ یہ صرف انفارمیشن پراسسنگ کی ایک الگ حالت ہے۔
اینڈریاسن نے یہ دریافت کیسے کی؟ کسی بھی سائنسی تجربے کی طرح ان تجربات کو ایک کنٹرول کی ضرورت تھی۔ یہاں پر آئیڈیا یہ تھا کہ محقق خالی ذہن والی شخص کی تصویر لے گا۔ پھر کسی ایکٹیویٹی میں مصروف ہوتے وقت ریڈنگ لی جائے گی۔ دماغ کے ہر حصے میں دونوں کو تفریق کر دیا جائے تو پھر یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس ایکٹیویٹی کے لئے دماغ کا کونسا حصہ کس طرح سے استعمال ہوتا ہے۔
کنٹرول کے وقت کا کام یہ تھا کہ سیدھا اور ساکن لیٹ جایا جائے اور ذہن کو خالی چھوڑ دیا جائے۔ اینڈریاسن نے اس وقت دماغ کی ریڈنگ لینا شروع کی تا کہ اسے baseline بنایا جا سکے۔
اور اس وقت اینڈریاسن کو اس چیز کا احساس ہوا جو برگر کو چند دہائیاں قبل ہو چکا تھا۔ “خالی دماغ میں معمولی ایکٹیویٹی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی ہوتی ہے اور خاص طور پر چند سٹرکچرز میں بہت زیادہ ہے”۔
یہ روایتی دانائی کیلئے ایک بڑا تضاد تھا۔ لیکن اینڈریاسن کے لئے ایک اور توجہ طلب چیز یہ تھی کہ یہ ایکٹیویٹی ہوتی کہاں پر ہے۔ یہ سٹرکچرز کے اس جال میں تھی جن کے بارے میں اس سے پہلے خیال تھا کہ ان کا آپس میں کوئی کام نہیں۔ (اب انہیں default network کہا جاتا ہے)۔
اور اس سے بھی دلچسپ ایک اور چیز تھی۔ اینڈریاسن کہتی ہیں، “یہ صرف آواز نہیں تھی، ایک گیت تھا۔ ایک سٹرکچر کے اندر تو سیکنڈ سے اگلے میں تبدیل ہوتی تھی جیسا کہ ہوتا ہی ہے لیکن الگ علاقے آپس میں تال میل کے ساتھ فائر کر رہے تھے”۔ تین مختلف قسم کے علاقوں میں تال میل سے ہونے والی اس فائرنگ سے اینڈریاسن نے جانا کہ کچھ ایسا ہے جسے توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی دماغ اور خاص طور پر پری فرنٹل کارٹیکس کے سائز پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن اب سائنسدان اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ یہ غلط سمت تھی۔ اور دماغ کو سمجھنے کیلئے زیادہ اہم اس کے اندر آپس کے جوڑ ہیں۔
انسانی دماغ کے ان جوڑوں کے نقشے بنانے کا بڑا پراجیکٹ (کنکوٹوم) 2009 میں شروع ہوا۔ لیکن اینڈریاسن کو 1995 میں یہ علم ہو چکا تھا کہ دماغ کے فنکشن سٹرکچرز کے اتحاد پر منحصر ہیں۔ اور ان کے تال میل کا مطلب ہے کہ انہوں نے ایک ایسا اتحاد دریافت کر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس کی اہمیت کیا تھی؟ اینڈریاسن نے وہی بات دریافت کی تھی جو اس سے پہلے برگر نے۔ لیکن بہتر ٹیکنالوجی کی دستیابی کی وجہ سے وہ الگ حصوں میں ہونے والی ایکٹیویٹی اور اس کی قسم کے بارے میں جان سکی تھیں۔
لیکن اینڈریاسن نے تو ابھی سطح ہی دیکھی تھی۔ اس سے برسوں بعد ریچل نے وہ کام کیا جس سے ڈیفالٹ نیٹورک نیوروسائنس کی تحقیق میں مرکزِ نگاہ بن گیا۔
پچھلی دہائی میں سائنسدان اضافی سٹرکچر دریافت کر چکے ہیں جو ڈیفالٹ نیٹورک میں شرکت کرتے ہیں اور ہم اس کا دماغ میں بہتر کردار سمجھ رہے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کا ہماری اندرونی دنیا پر بڑا اثر ہے۔ جب ہم اپنے آپ سے شعوری یا غیرشعوری طور پر مکالمہ کرتے ہیں۔
جب ہم بیرونی دنیا سے آنے والی حسیاتی اِن پُٹ کے سیلاب سے الگ ہو جائیں تو یہ ہماری اپنی اندرونی دنیا میں دیکھتا ہے۔ اور ہماری لچکدار سوچ کے نیورل نیٹورک ہماری علم کی بڑی ڈیٹابیس، یادداشت اور احساسات کے ذخیرہ میں گھومتے ہیں۔ اور ایسے الگ تصوورات کو آپس میں جوڑتے ہیں جو ہم عام طور پر نہ کر پائیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ آرام کرنا، آوارہ خیال، خاموش وقت اور سست رفتار سیر وہ طاقتور کام ہیں جو ہمارے لئے نئے خیالات کے آنے کا موجب بن سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply