خوشی کی سائنس؟۔۔وہاراامباکر

ماہرینِ نفسیات اس بارے میں کئی بڑی زبردست دریافتیں کر چکے ہیں کہ کیا شے ہمیں خوش کرتی ہے۔ ان میں سے کئی ایسی چیزیں ہیں جو کامن سینس کے خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر ہم منفی تجربات سے بہت جلد سنبھل جاتے ہیں۔ اس سے بہت جلد جتنا ہمارا خیال ہے۔ ڈینیل گلبرٹ اس کو ہمارا “نفسیاتی امیون سسٹم” کہتے ہیں۔ کئی دوسری دریافتیں ایسی ہیں جو ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اچھے دوستوں کی صحبت ہماری خوشی میں اضافہ کرتی ہے۔ تنہائی مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔
کچھ محققین کا خیال ہے کہ جس طرح اس میں مزید پیشرفت ہوتی جائے گی، ہم خوش زندگی گزارنے کے کسی مکمل سائنسی حل کی طرف پہنچ جائیں گے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ بالفرض اگر ہم خوشی کی کسی آبجیکٹو تعریف پر اتفاق کر لیں۔ اور فی الحال کے لئے، “خوش زندگی” اور “اچھی زندگی” کے فرق کو ایک طرف رکھ دیں، تب بھی زیادہ سے زیادہ خوشی کا حصول بڑی حد تک سائنس کے ڈومین سے باہر رہے گا۔
کیوں؟ اس کے لئے پہلے ایک اور سوال پر غور کر لیتے ہیں۔ ہم یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ کونسا معاشرہ سب سے زیادہ خوش ہے؟ ڈیرک پارفٹ نے یہ سوال اٹھایا اور کہا کہ فرض کر لیجئے کہ ہمارے پاس کوئی طریقہ ہے جس سے ہم کسی فرد کی خوشی کو پریسائز طریقے سے معلوم کر لیتے ہیں تو پھر ہمارے سامنے مشکل سوال آ جاتا ہے۔ کونسا معاشرہ زیادہ خوش ہو گا؟ کیا سب کی خوشی کو جمع کر دیں؟ “ایک افراد لوگ جو بس اتنے خوش ہیں کہ خود کشی نہیں کر رہے” بمقابلہ “ایک لاکھ بہت خوش افراد”۔ ظاہر ہے کہ جمع کرنے کا طریقہ کام نہیں کرتا تو پھر اوسط لے لی جائے؟ ایسا معاشرہ جس میں اکثریت بہت ہی خوش ہیں لیکن ایک چھوٹی اقلیت کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے اور وہ انتہائی بری زندگی گزار رہی ہے بہتر ہے یا پھر ایسا معاشرہ جس میں تمام لوگ ہی بس مطمئن ہیں؟ کیا کچھ غلط نظر آتا ہے؟ یا پھر ایسا معاشرہ جہاں سب برابر خوش ہیں کا مقابلہ ایسے معاشرے سے کیسے ہو گا جہاں عدم مساوات ہے۔ دوسرا معاشرہ اوسط اور جمع سمیت ہر معیار پر آگے ہے۔ یہ مشکل پرابلم ہے اور اصل دنیا کی ہے اور ایسی نہیں جسے کسی سائنسی طریقے سے حل کیا جا سکے کیونکہ سائنس کوئی ایسی ترکیب نہیں دیتی کہ مجموعی خوشی کی پیمائش کیسے کی جا سکتی ہے۔
پارفٹ اس کے بعد نوٹ کرتے ہیں کہ یہی مسائل ایک فرد کی زندگی پر بھی ہیں۔ مکمل زندگی کی خوشی کا کیا مطلب ہے؟ ایک یکسانیت والی زندگی کا موازنہ کبھی خوشی، کبھی غم سے کیسے کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایسا سوال نہیں جس کی ترکیب یا تجربہ موجود ہو۔ لیکن اس بارے میں مسئلہ پیمائش اور اعداد سے زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جہاں پر ہمارے پاس اخلاقی انتخاب ہوتے ہیں۔ اپنی خوشی دوسروں کے فائدے کے لئے قربان کرنے کا انتخاب ہوتا ہے۔ اپنے دوستوں اور فیملی کے لئے تو زیادہ تر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ کئی لوگ اجنبیوں کے لئے بھی ایسا کرتے ہیں۔ یہ خوشی کا نہیں، اخلاقی سوال ہے۔ زیادہ سے زیادہ خوشی کا طالب صرف اس وقت دوسروں کی مدد کرے گا جب اسے ایسا کرنے سے خود کچھ خوشی ملے۔ اچھے اخلاقی انتخاب ہمیشہ ایسا نہیں کرتے۔
ایسا ہی افراد کے آپس میں تعلق کے ساتھ ہی نہیں، ایک ہی فرد کی زندگی میں بھی ہے۔ مثال کے طور پر، آپ اپنے سے سوال کر لیں آپ اپنی زندگی میں کیا کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ دوسروں کے لئے نہیں بلکہ خود اپنی ذات کے مستقبل کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ایسے انتخاب سے بھری پڑی ہے۔ جب ہم کوئی ایسا انتخاب کر رہے ہیں جو ہمیں فوری خوشی دے ۔۔۔ مرغن غذا کھانا، غیرمحتاط زندگی، ایسے رہنا جیسا کل نہیں ہونی ۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آج کی خوشی کے بارے لالچی ہیں اور اس کی قیمت اپنے مستقبل کی خوشی سے ادا کر رہے ہیں۔ جب ہم مستقبل کے لئے قربانی دے رہے ہیں ۔۔۔ صبح صبح اٹھ کر ناخوشگوار ورزش، صحتمند لیکن کم مزے والی خوراک، برے وقت کے لئے بچت ۔۔۔۔ تو یہ خود اپنے کل کے لئے آج کی خوشی کی قربانی ہے۔
اور خوشی کے بارے میں انتہائی خودغرض شخص کو بھی اخلاقی سوالات کا سامنا پھر بھی ہوتا ہے۔ اور یوں، خوشی کے بارے میں سائنسی تحقیق سے اچھی بصیرت ملنے کے ساتھ ۔۔ خوشی کی تلاش کسی اور سمت جا نکلتی ہے۔ کیا کرنا ٹھیک ہے؟ زندگی کو گزارا کیسے جائے؟ اچھی زندگی کیا ہے؟ خوشی کو زندگی کی ترجیحات میں کہاں پر ہونا چاہیے؟ ہم کرنا کیا چاہتے ہیں؟ یہ سوال غیرسائنسی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: یہ خیالات پال بلوم کے ہیں جو Yale University میں کوگنیٹو سائنس کے پروفیسر ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply