ساورکر پر پھر اٹھے سوالات/ابھے کمار

جیسے ہی یہ خبر آئی کہ رشی سونک برطانیہ کے نئے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو ئے ہیں، ویسے ہی بھگوا طاقتوں نے ان کے تعلقات کو ہندو نژاد سے منسوب کر کے دکھانا شروع کردیا ۔ ۲۶ اکتوبر کو آر ایس ایس کا ترجمان ہندی ہفت روزہ “پانچ جنیہ” میں شائع ایک مضمون میں سونک کی کامیابی کو کچھ یوں بیان کیا گیا: “وزیر اعظم کے طور پر ان کے پہلے خطاب میں ان کے ہاتھوں میں مقدس لال ہندو کلاوا دیکھ کر ہر ہندوستانی کا سرفخر سے بلند ہو گیا”۔ آگے کی  سطر میں سونک کی ۲۰۱۷ کی ایک تقریر کے چھوٹے اقتباس کو پیش گیا گیا ہے: “اب میں برطانیہ کا شہری ہوں۔ مگر میرا مذہب ہندو ہے۔ میری مذہبی اور ثقافتی وراثت ہندوستانی ہے۔میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں ہندو ہوں اور میری پہچان بھی ہندو ہے”۔ غور کیجیےکہ ان چار جملوں میں تین بار “ہندو” لفظ کا استعمال کیا گیا ہے، جبکہ صرف ایک بار ہی “ہندوستانی” لفظ آیا ہے۔یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ سونک نے واقعی ایسا کوئی بیان دیا تھا، مگر “پانج جنیہ” نے ان جملوں کو بڑی ترجیحات کے ساتھ جگہ دی اوراپنی اصلی سوچ ظاہر کر دی کہ ان کے نزدیک ہندو مذہبی تشخص بھارت کی قومی پہچان سےکہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔حالانکہ جب بات اقلیتوں کی آتی ہے تو بھگوا جماعتیں اپنا رویہ بدل دیتی ہیں اور ان سے یہ سوال پوچھتی ہیں : “آپ پہلے بھارتیہ ہیں یا مسلمان؟”

برطانوی سماج،جہاں کی غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے, وہاں پر ایک ہندو کا وزیر اعظم بننا ہندوتو کے نظریہ ساز ساورکر کی معنویت پر پھر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔یاد رہے کہ یور پ میں جدید ریاست کے قیام اورنظریہ حریت پسندی کے عروج کے بعدتصور شہریت میں ایک زبردست تبدیلی آئی۔قومی ریاست کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کیے گئے، جس کا ضامن ملک کا آئین بنا ۔حریت پسندی نے شخصی آزادی کو مقدس مانا   اور ریاست کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ انسان کی نجی زندگی میں دخل دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ریاست ملک کے تحفظات کا بہانہ بنا کر اکثر شخصی آزادی پرحملہ کرتی ہے۔جدید سیاست نے مذہب اور سیاست کو جدا کیا۔ پھر جدید ریاست کا تشخص سیکولر بن گیا۔یہاں سیکولر کا مطلب مذہب سے عداوت نہیں تھی بلکہ حکومت پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ مذہب کی بنیاد پر کوئی پالیسی نہ بنائے اور اپنے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرے۔ پھر جدید سیاست میں شہریت کو خطہ سےمنسوب کیا گیا۔ مطلب یہ کہ ملک میں مقیم تمام شہریوں کے حقوق یکساں دیے گئے کیونکہ وہ ایک ملک کے باشندہ ہیں۔ ذات، دھرم، نسل، جنس جیسے پیدائشی تشخص کو ریاست نے قانون کی کتاب میں نظر اندازکیا۔

برطانیہ کے نو منتخب وزیر اعظم سونک کا مذہبی عقیدہ ہندو مت کہا جا رہا ہے، جبکہ برطانیہ کی اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ چونکہ برطانوی ریاست نے شہریت سے وابستہ حقوق کو خطہ سے منسوب کیا ہے، اس لیے ایک ہندو کو اعلیٰ منصب پر فائز ہونے میں کوئی قانونی رکاوٹ  نہیں آئی۔ مگر ہندوتوا کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر کانظریہ شہریت خطہ اورحریت پسندی پر مبنی شہریت سے مختلف ہے۔حالانکہ ساورکر کے نظریہ کو ثقافت سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے، مگر اصل میں ان کی سوچ نسلی اور مذہبی امتیازات سے متاثر تھی۔ تضاد دیکھیے کہ بھگوا طاقتیں دن رات بھارتیہ کی بات کرتی ہیں اور اپنے حریفوں پر یہ الزامات عائد کرتی ہیں کہ وہ بھارت کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو اپنانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔مگر خودساورکر یور پ بالخصوص جرمنی کی نسل اور مذہب پر مبنی قومیت کے بڑے قائل تھے ۔وہ برطانوی مفکر ہربرٹ اسپینسر کے پیروکار تھے۔ اسپینسر کی فکر کہیں سے بھی غریب پَرور نہیں تھی، بلکہ وہ فرد اور سائنس کو مذہب پر فوقیت دیتے تھے۔دوہری سیاست کی اور کیا مثال ہوگی کہ اسپینسر کے پیروکار کے وارثیں بھارت میں دن رات مذہب کی اہمیت اور بھارتی ثقافت کی عظمت کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی اپنے حریفوں پر بھارت مخالف ہونے کا الزام لگاتی ہے ، وہیں حقیقت یہ ہے کہ ان کے بانی کی فکر کا سر چشمہ خود یور پ کی  نسل پرستی کو فروغ دینے والے مفکرین  سے ملتا ہے۔ ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ ساورکر نے نسل اور مذہب پر مبنی شہریت کے نظریہ کو یور پ سے نقل کیا اور اس لعنت کو بھارت پر تھوپ دیا، جس کا نقصان ہمارا سماج آج بھی جھیل رہا ہے۔ یور پ میں نسلی اور مذہبی تعصب پرمبنی شہریت اور قومیت نے دوسری عالمی جنگ کو جنم دیا، جبکہ بھارت میں ان امراض نے ملک کے دو حصے کیے۔ پھر ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔ تقسیم ملک کے بعد بھی یہ مذموم نظریات نفرت اور فسادات کے لیے زمین تیار کرتے رہے ہیں۔

حالانکہ بھارت کے آئین میں خطہ اورحریت پسندی پر مبنی شہریت کا تصور پایا جاتا ہے۔ ذات، دھرم، جنس اور علاقہ کے نام پر امتیازات قانون کی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔ مگر ساورکر آئین کےنظریہ شہریت کے مخالف تھے۔بھگوا جماعت اس سچائی کو قبول کرنے کو تیار ہیں  کہ ان کے بانی کا نظریہ شہریت نسل پرستی اور مذہبی امتیازات سے متاثر ہے۔ ساورکر کی فکر جمہوریت اور اقلیتوں کے مفاد کےبھی خلاف ہے۔جہاں بھارت کا آئین تمام شہریوں کو یکساں  حقوق فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے بڑے سے بڑے منصب پر اقلیتی برادری کے لوگ فائز ہوئے ہیں، وہاں ساورکر کا تصور شہریت فرقہ پرستی پر مبنی ہے۔ ساورکر کی اسی منفی سوچ سے بیمار بھگوا جماعت مسلمانوں اور عیسائیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ بات بھگوا جماعت قبول کرنے کی ہمت نہیں رکھتی ہے  کہ ملک کی تقسیم سے تین دہائی پہلے ہی ساورکر نے مذہب پر مبنی شہریت کی بات کی تھی۔ ۱۹۲۳ میں شائع شدہ کتاب “ہندوتو” میں ساورکر نے خطہ اور سیکولر بنیاد پر مبنی شہریت کو پوری طرح سے خارج کرتے ہوئے نسل پرستی پر مبنی شہریت کا تصور ان الفاظ میں بیان کیا:مسلمان اور عیسائیوں کے “مقدس  مقامات یہاں سے بہت دورعرب اور فلسطین میں واقع ہیں۔ ان کے پیشوا، نظریات، ہیرو، اس سرزمین سے نہیں نکلے ہیں۔ اس طرح ان کے نام اور ان کے نقطہ نظر سے بیرونیت کی بو آتی ہے۔ ان کی حب الوطنی منقسم ہے(ص ۹۲)”۔ یہاں ساورکر نے صاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ جس بھی شخص کے مقدس مقامات بھارت سے باہر ہیں ، وہ بھارت کا سچا محب وطن یا شہری نہیں ہو سکتا۔ اس طرح ساورکر نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوئم درجہ کا شہری سمجھا ہے۔ جب بھگوا طاقیں اقلیتوں کو اپنی پارٹی کے بڑے منصب پر بیٹھانے سے گریز کرتی ہیں یا پھر ان کو سرکاری اداروں سے باہر رکھنے کی سازش کرتی ہیں تو ان کے دماغ میں ساورکر کی یہی باتیں کار فرما ہوتی ہیں۔بعض اوقات بھگوا جماعت کے بڑے لیڈروں   مسلمانوں سے حق رائے دہندگی کو واپس لینے کا بیان جاری کر چکے ہیں۔این آر سی اور سی اے اے کے پیچھے ساورکر کی یہی فکر کام کر رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بھگوا طاقتوں کی دوہری سیاست دیکھیے کہ ایک طرف وہ بھارت کے اقلیت مسلمان اور عیسائی کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف برطانیہ کے ایک اقلیت ہندو کی سیاسی کامیابی پرجشن منا رہی ہیں۔تصور کیجیے کہ ساورکر کے نظریہ شہریت کو کوئی برطانوی عیسائی شہری استعمال کرے اور وہاں کے ہندوؤں سے حب الوطنی کی سند طلب کرے تو یہ کتنا برا ہوگا! کیا بھگوا جماعت کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ اگر بھارت کا کوئی اقلیت مسلمان اور عیسائی شک کے دائرے میں اس لیے ہے کہ ان کے مقدس مقامات عرب اور فلسطین میں ہیں  تو پھر کیسے ایک برطانوی ہندو شہری، جس کے مذہبی مقامات کاشی اور متھورا میں واقع ہیں ، برطانیہ کا سچا دیش بھگت  ہو سکتا ہے؟ مگر رشی سونک کو جس طرح برطانیہ کی اکثریت عیسائی آبادی نے گلے لگایا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ساورکر کا نظریہ شہریت اخوت کی راہ میں بڑا پتھر ہے ۔ یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ بھارت کے معماران آئین نے ساورکر کے نظریہ شہریت کو کبھی قبول نہیں کیا اور ملک کی تشکیل سیکولر بنیاد پرڈالی۔مگر خطرہ اس بات کا ہے کہ جو لوگ نسل اور مذہب کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں وہ آج اقتدار پر قابض ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply