جنگ آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔۔۔فرخ ملک

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے  بعد جب برطانیہ کی وزیر  اعظم سے پریس کانفرنس میں  کسی صحافی نےیہ سوال کیاکہ اب مغربی دنیا  کا کیا لائحہ عمل ہو گا اور سرد جنگ مزید چلے گی تو انہوں نےجواب دیا تھا کہ کیمونیزم تو ختم ہو چکا لیکن ابھی اسلام باقی ہے ۔

اگر اس بیان کے تناظر میں پچھلے 30 سال میں مسلمان ممالک اور صرف مسلمانوں  کے خلاف امریکہ اور نیٹو(صلیبی) ممالک کی جنگی کاروائیوں کا  جن میں عراق پر دو دفعہ مسلط کی گئی جنگ ،  بوسینیا اور یوگو سلاویہ ، افغانستان ، لیبیا اور شام میں  لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ،حکومتوں کی تبدیلی   اور ان ممالک کے وسائل پر قبضے کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ اس کا مقصد وہی  ہےجو مارگریٹ تھیچر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ابھی اسلام کو ہینڈل کرنا باقی ہے۔

ٹرمپ کا ہوسٹن  میں مودی کے جلسہ میں سر عام اعلان کہ ریڈیکل اسلام  کے خلاف وہ اور مودی اکٹھے ہیں اور امریکہ انڈیا کی حکومت کا اس مسئلے پر ساتھ دے گا  یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے مزید قتل عام کا وہی تسلسل ہے جس کا اوپر ذکر ہے بلکہ اب  یہود و نصاریٰ کے ساتھ ہنود بھی اس گٹھ جوڑ میں شامل ہوچکاہے ۔ یہود، ہنود اور نصاریٰ کی ٹرائیکا مسلمانوں کے خلاف  بن چکی ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں یہود گریٹر اسرائیل کیلئے کوشش کررہا ہے اور ایک ایک کرکے مسلمان ممالک کو کمزور کر رہا ہے  تو دوسری  طرف یہی یہودو نصاریٰ جنوبی ایشیاء  میں اپنی بقا کیلئے ہندو وزیر اعظم مو دی کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں اور اس کو کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے رہے ہیں ۔  انہی کی شہ پا کر مودی نے آرٹیکل 370 کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت  کو ختم کرکے اس کو ہندوستان کا حصہ قرار دے دیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا امریکی صدر اس  مسئلے کی شدت کو کم کرواتے اوراسکو  سلجھانے کیلئے اپنا کردا ادا کرتے اور اس خطہ کو جنگ کی طرف جانے سے روکتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے صدر ٹرمپ نے مودی کو حوصلہ دیا ہےکہ وہ جو چاہتا ہے کرے ،امریکہ اس کی پشت  پر ہے،اسے فکر کرنے کی کو ئی ضرورت نہیں۔

دشمن نے یہ جال بڑی کمال مہارت سے بچھایا ہے ۔ اور مسلمان نا چاہتے ہوئے بھی اس میں پھنستے چلے جارہے ہیں کہ  اور ان کوکچھ  سوجھ نہیں رہی کہ کریں تو کیا کریں۔۔ پوری دنیا میں ترکی واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں سب مسلمانوں کے لئے بات کی ہے ۔صرف طیب اردگان نے کشمیری مسلمانوں کے حق میں بات کی۔اور ان کیلئے پاکستان کے موقف کی حمایت کی  ورنہ سب مسلم ممالک اس مسئلہ پر خاموش رہے ہیں ۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کی خاطر چپ رہا ہے ۔ مسلمہ اُمّہ  گھمبیر مسائل کے باوجود کہیں اکٹھی دکھائی نہیں دے رہی۔

مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور یورپ ایک طرف مسلمان ملکوں کو  کہیں براہ راست  اور کہیں پراکسی وار میں آپس میں الجھا کراپنا اسلحہ ان کو بیچ رہاہے تو دوسری  طرف مسلمان کو مسلمان کے ہاتھوں قتل کروا رہا ہے۔گزشتہ تیس برسوں میں مسلمان ممالک ہی میدان جنگ بنتے رہے ہیں ۔ مسلمان ممالک میں اتحاد اور اتفاق نہ ہونے کی بنا پر یہودو نصاریٰ ان کو آپس میں لڑا کر ان کے قدرتی وسائل کو ہڑپ کر رہے ہیں  اور ان کی زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں ۔ تیل سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ ہی امریکہ اور یورپ کی اسلحہ ساز صنعت کو سہارا دئیے ہوئے ہے۔اور پیٹرو ڈالر معاہدہ کی وجہ سےڈالردنیا پر راج کر رہاہے ۔  انہی آپس کی  جنگوں کی وجہ سے  یہود کو اپنے عزائم کو پورا کرنے اور گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کا موقع مل رہاہے  اور وہ آہستہ آہستہ عرب مسلم ممالک کو کمزور کرکے اپنے اثرو رسوخ اور علاقہ میں اضافہ کر رہا ہے۔

دوسری طرف جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جو فوجی لحاظ سے انتہائی مستحکم ملک ہے اور ایٹمی قوت کا حامل ہے جو کہ یہودو نصاریٰ کے اس خطہ میں استعماری عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے ۔ افغانستان کے معاملہ میں امریکہ بری طرح پٹ چکا ہے اور وہ  19 سال کی تھکا دینے والی اور معیشت کو برباد کردینے والی جنگ سے اکتا چکا ہے لیکن چونکہ افغانستان میں رہنا اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ اگر امریکہ آج افغانستان سے نکل جاتا ہے تو سمجھ لیں جنوبی ایشیا بلکہ پورا ایشیا ء  امریکہ اور یورپ  کے ہاتھ سے نکل جائے گا  جو کہ نہ امریکہ اور نہ ہی یورپ کو منظور ہے ۔ اور وہ کبھی بھی افغانستان سے نکلنا نہیں چاہیں گے، چاہے اس کیلئے ان کو کتنی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔طاقتور چین اور روس کی موجودگی کی وجہ سے  امریکہ اور یورپ کے عزائم کسی صورت پورے ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ۔ پاکستان جو کہ امریکہ کا ایک بہت دیرینہ اور مضبوط اتحادی تھا  اب اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔پاکستان ہی کی وجہ سے امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اتنی دیر موجود رہ پائے ۔ لیکن اب پاکستان بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔ اب امریکہ اور نیٹو اسی صور ت میں افغانستان میں موجود رہ سکتے ہیں جب پاکستان کمزور ہو جائے اور ان کی ہر طرح کی بات ماننے لگ جائے ۔ اس کیلئے پاکستان کو کمزور کرنا لازمی ہے ۔ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے معاشی اور فوجی حربے آزمائے جا رہے ہیں ۔ معاشی حربے نے پاکستان کو بہت زیادہ زخمی کر دیا ہے اور اب ساتھ ہی یہ کشمیر کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔  ان سب باتوں  کو ذہن میں رکھتے ہو ئے یہود و نصاریٰ نے ہنود کو ساتھ ملا کر پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کا منصوبہ بنایا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہوسٹن کے جلسہ میں باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ کچھ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے ۔حالات ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر گھمبیر ہیں ۔ کشمیر پر ہمارے کمزور موقف کی وجہ ہم کسی برادر اسلامی ملک کو بھی اپنی حمایت پر قائل نہیں کر پائے ،الٹا برادر اسلامی ملک انڈیا کی حمایت کرتے نظر آئے۔  جنگ آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہی ہے اور ہم کمزور معیشت اور کمزور حکومت کی وجہ سے جس داماندگی کا شکار ہیں اس میں ان سازشوں کا اسی وقت مقابلہ کیا جا سکتا ہے جب قوم ایک ہو جائے ۔ اس کڑے وقت میں قوم دشمن کی سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے ۔

قوموں کو دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے فکر، نظریات اور با شعور لیڈر شپ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس کا پاکستانی قوم میں انتہائی درجہ کا فقدان ہے ۔ پاکستانی قوم اس وقت شتر بے مہار قوم بن چکی ہے ہم اخلاقی لحاظ سے تنزلی کا شکار ہیں ۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اس وقت جسطرح پاکستان میں ہو رہی ہے اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔

میں ارباب اقتدار کو جوآجکل پاکستان کو چلا رہے ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لو، جوڑ توڑ کی سیاست بہت ہو چکی قوم کو کوئی سیدھی راہ دکھاؤ ،اس کو کوئی لائن آف ایکشن دو ،قوم کو منظم اور ڈسپلنڈ بنانے کی کوئی ترکیب کرو۔ کسی ملک کی  فوج کو شکست دینا کو ئی مشکل کام نہیں ہو تا لیکن منظم قوموں کو دنیا کی کو ئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔اس وقت ہندوستان میں آر ایس ایس انتہائی طور پر خود کو منظم کر چکی ہے بلکہ ہندو قوم کو منظم کر چکی ہے ۔ ہم اس کو جتنا مرضی برا کہہ  لیں، لیکن وہ اپنی قوم کو منظم کرکے اپنی فوج کے ساتھ کھڑا کر  چکی ہے۔ ہم انڈیا کی دس بارہ لاکھ فوج کو شکست دے سکتے ہیں لیکن اس ایک کروڑ انتہائی طور منظم آر ایس ایس کو کیسے شکست دے پائیں گے جو کہ ہندوستان کے گلی کوچوں میں خود کو منظم کر چکی ہے   ۔  عسکری اور سویلین اسٹیبلشمنٹ  خدا کیلئے ہوش کے ناخن لے۔تمھارا وجود اس وقت تک ہے جب تک یہ ملک ہے ۔ہمارے ہمسائے نظریاتی طور خود کو منظم کر رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں لیکن ہم اپنی قوم کو کمزور کرنے اور سیاسی جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس انتہائی درجہ کی بد کرداری جو کہ قوم کے ساتھ کی جارہی ہے قوم کبھی معاف نہیں کرسکتی اس کو ۔ بلکہ قدرت اس کیلئے ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ابھی بھی وقت ہے سمجھ جاؤ ورنہ تمھاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ میرے ملک اور قوم کا حامی و ناصر ہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply