شناخت/اعظم معراج

یہ شائد جنوری2013ء کی بات ہے جب میں نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنی کتاب’’ شان سبز وسفید” کے پہلے ایڈیشن جو” سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہداء ” کے نام سے چھپی تھی ۔۔امریکہ میں میجر سرمس رئوف شہید تمغۂ بسالت کی بیوہ روبینہ رئوف تک پہنچانے میں کامیاب ہوا، کچھ دن بعد جب ان سے بات ہوئی تو ان کا پہلا ردعمل تو جو ایک جوان سال بیوہ کا ہو سکتا ہے ،وہ ہی تھا ۔۔۔کہنے لگی

“بھائی میں ساری رات کتاب پڑھتی اور روتی رہی ”
اس کے بعد انہوں نے شکریہ ادا کیا ،اور کہنے لگیں.. “پاکستان میں جہاں جہاں کتاب پہنچی ہے، اور جہاں بھی لوگ کتاب پڑھتے ہیں ۔ میجر صاحب کی اس عظیم قربانی کو سراہتے ، ہمیں عزت دیتے ہیں اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے، آپ نے میرے شہید خاوند کی اس قربانی کو امر کر دیا ہے۔ جہاں بھی اس کتاب کے حوالے سے میجر صاحب کی قربانی پر بات ہوتی ہے، میرے دل میں آپ کے لئے عزت اور احترام کے جذبات بھر آتے ہیں۔ واقعی آپ کی کوشش عظیم ہے آپ نے میجر صاحب اور دوسرے مسیحی شہداہ، غازیوں اور محافظان وطن کی داستانوں کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرکے بڑا کام کیا ہے،”
اس کے بعد کچھ دن بعد جب پھر ان سے ٹیلیفون پر بات ہوئی تو باتوں کے دوران کچھ جھجکتے ہوئے کہنے لگی “بھائی آپ سے ایک بات کرنا تھی۔”۔۔ میں نے کہا جی ضرور فرمائیے.. وہ کہنے لگی بھائی”” آپ نے ایک جگہ میجر صاحب کے خاندان کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا ہے کہ سوہترے جاٹوں کا یہ قبیلہ دریائے راوی کے کنارے ڈیڑھ پنڈی گائوں میں آباد ہے۔” میں نے کہا جی… وہ پھر جھجکتے ہوئے کہنے لگی.. وہ بچے کہہ رہے تھے ..کہ وہ ذرا انکل سے کہیے گا …میں نے کہا ..میں سمجھا نہیں… تو وہ کہنے لگی “دراصل وہ سوہترے جاٹوں کے بارے میں بچے کہہ رہے تھے۔ میں نے کہا جی کیا کہہ رہے تھے؟ تو وہ بولی کہ دراصل وہ یہ نہیں چاہتے یہ لکھا جائے میں نے کہا اچھا… میں خاموش ہو گیا.. نہ تو میں نے احتراماً ان کی بات کو رد کیا اور نہ ہی کوئی دلیل دی بس میں نے بات بدل دی انہوں نے بھی اس بات پر زور نہیں دیا پھر ہم دوسری باتوں میں لگ گئے یہ بات آئی گئی ہو گی میں کیونکہ اس پر خاص نکتہ نظر رکھتا ہوں اس لئے اکثر یہ بات مجھے ہانٹ کرتی کہ بچوں کے نام شین شیرن، سائمن رچرڈ اور ظاہر ہے وہ اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں لہذا شائد انہیں لگتا ہو کہ ہماری یہ پنجابی نسلی پہچان شائد ہمارے کمتر خاندانی پس منظر کو ظاہر کرتی ہے اور ظاہر ہے اس میں ان بچوں کا کوئی قصور نہیں یہ سب پاکستانی پنچابی مسیحیوں کا تو نہیں لیکن بہت سے پڑھے لکھے مسیحیوں کا مائنڈ سیٹ ہے بلکہ کئی تو اپنی اس سوچ کی بدولت باقاعدہ گوانی کنورٹ ہو چکے ہیں اور یہ بھی بحالت مجبوری ہے کیونکہ رنگ روپ کی بدولت یورپین تو کنورٹ ہوا نہیں جا سکتا۔ رہن سہن طرزبود وبوش جو جیسے چاہے اختیار کرے لیکن اپنے اصل پر شرمندہ ہونا یا اسے چھپانا انسان کی بہت ساری خوبیوں کو کھا جاتا ہے اور میں تو اکثر یہ کہتا ہوں کہ پنجابی مسیحی اس معاملے میں بڑے خوش نصیب ہیں ۔۔یورپین مسیحیوں کے ذریعے ہم تک مسیحیت کا پیغام پہنچا ہمارے اجداد نے اسے قبول کیا یہ ہماری ایک قابلِ فخر شناخت ٹھہری۔ اس کے ساتھ شائد پنجاب میں انہیں زیادہ وقت نہیں ملا یا ہمارا کلچر اتنا مضبوط تھا کہ وہ ہمیں مذہب تو دے گئے لیکن ہمارا رہن سہن بودو بوش اس طرح نہ بدل سکے جیسے گوا یا سری لنکا میں انہوں نے مقامیوں کے ساتھ کیا بلکہ میں اکثر ایک بات پر پریشان ہوتا کہ یقیناً ہمارے گوانی بھائی مقامی النسل ہندوستانی ہیں اور ہزاروں سال سے برصغیر کے واسی ہیں چاہے بمبئی میں ہوں،کراچی یا لاہور میں پھر یہ سب کیسے پرتگالی ذاتوں والے ہو گئے میں اکثر سوچتا کہ یقیناً کچھ مخلوط النسل ہوں گے حکمران پرتگالیوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں کی ہوں گی لیکن ہر گوانی پرتگالی ذات والا کیسے ہو سکتا ہے پھر میں سوچتا شائد حکمرانوں سے یقینا عام آدمی متاثر ہوتا ہے تو لوگوں نے رضا کارانہ طور پر ذاتیں بھی پرتگالی اپنا لی ہوں گی لیکن پھر جب کبھی یہ بات یاد آ جاتی تو میں سوچتا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب لوگ اتنی بڑی تعداد میں بلکہ تقریباً100فیصد ہی اس ذات بدل پروگرام پر متفق ہو گئے ہوں۔ پنجاب میں بھی یہ ہوا مشنریوں نے مقامی لوگوں کے بچوں کے بپتسمے کے وقت نام انگریزی رکھ لئے یعنی چن کو یوسف کرنے کی بجائے جوزف کر دیا اسی طرح وریام کو داؤد کرنے کی بجائے ڈیوڈ کر دیا اور بڑی تعداد میں جو ساون پطرس ہو سکتے تھے انہیں پیٹر کر دیا گو کہ عقیدہ بدلنے کے بعد اگر وہ ساون، چن، وریام یا مقامی ناموں والے رہتے تو فرق نہ پڑتا لیکن اگر سیدھا (ڈائریکٹ) پیٹر ، ڈیوڈ، جوزف ہونے کی بجائے پطرس ، داؤد اور یوسف رہتے تو کوئی فرق نہ پڑتاگو کہ اس طرح کے فیصلے انہی کے ہوتے ہیں۔۔ جو اس وقت اس فیصلے کے مجاز ہوتے ہیں لیکن ادارتی سطح پر ان چیزوں کا خیال کیا جائے تو قومی سطح پر اس طرح کے فیصلوں کے نتائج بہتر ہو سکتے ہیں پھر پاکستانی مسیحیوں کو تو یہ بھی بہت بڑافائدہ تھا کہ اس خطے میں مسیحیت کے بانیوں نے جب بائبل مقدس کا اردو میں ترجمہ کیا تو اس کے کرداروں کے نام بھی ایسے ہو گئے جو اس خطے میں پہلے ہی جانے پہچانے تھے اور معاشرتی طور پر قطعی اجنبی نہ تھے لیکن ناموں کی تبدیلی کے باوجود یہ اس خطے کے مسیحیوں کی اپنے تہذیبی ورثے سے محبت تھی یا جو بھی جذبہ کارفرما رہا ہو چند لوگوں کو چھوڑ کر لوگ اپنی ہزاروں سال پرانی ذات، برادری کی وراثت کو پیار اور اپنے لئے باعثِ فخر ہی سمجھتے ہیں۔
لیکن ذاتیں تو لوگوں نے تبدیل نہیں کیں میں اکثر اس پر سوچتا لیکن کبھی کسی سے پوچھ نہیں سکا بابا گوگل کے پاس بھی اس کا جواب نہیں تھا یا کسی اور ذرائع سے بھی اس کا جواب نہیں ملا اور میری ایک اور بدقسمتی کہ میراکوئی دوست یا اچھا جاننے والا گوانی نہیں ایک دو اپنی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے جاننے والے یا کلیرنس گل کی بدولت دو چار گوانی مسیحیوں سے ملاقات ہو جاتی لیکن کبھی کسی سے سے یہ نازک سا سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ” آپ میں سے کوئی بھی مقامی ذات والا کیوں نہیں رہ گیا؟
پھر میری ملاقات2016ء میں اپنی کتاب ’’شناخت نامہ‘‘ کے سلسلے میں رولینڈ ڈیسوزا سے ہوئی جن کا شخصی خاکہ میری کتاب کا حصہ ہے دو چار ملاقاتوں کے بعد جب ماحول کچھ دوستانہ اور ان کے علمی قابلیت کے اسرارِ رموز مجھ پر کھلے تو مجھے لگا یہ بالکل مناسب شخص ہیں وہ مجھے میرے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس طرح ایک دن میں ان کے دفتر میں بیٹھا تھا۔دورانِ گفتگو میں نے یہ سوال کیا کہ ہر گوانی کی ذات یا سرنیم پرتگالی ہی کیوں ہوتا ہے جب کہ آپ لوگوں کے خدوخال مقامی ہیں کیا اس بڑے پیمانے پر مخلوط شادیاں ہوئیں ہیں۔ وہ اپنی مخصوص دھیمی مسکراہٹ میں بولے
“ارے تمہیں پتہ نہیں ہمارے ساتھ کیا واردات ہوئی؟
ہم بھی برصغیر کے دوسرے لوگوں کی طرح مقامی ہیں اور ہمارے اجداد بھی پوپٹ لال یا بہاری لال تھے۔ لیکن ہمارے خطے پر جب پرتگالی قابض ہوئے تو بعد میں ان کے ساتھ آنے والے مسیحی مشنریوں نے پیار محبت کے ساتھ جہاں ضرورت پڑی ریاستی جبر کو بھی استعمال کیا اور جب غاصبوں نے ہماری زمینوں پر قبضے کے بعد آپس میں بندربانٹ کی تو پھر پورے پورے گائوں جو جس کی ملکیت ہوتا اس گائوں کے سارے لوگ اس مالک کی ذات والے ہو جاتے، بلکہ کر دیئے جاتے مثلاً میرے گائوں کا مالک کوئی پرتگالی ڈیسوزا تھا تو ہمیں ڈیسوزا ذات آلاٹ کر دی گئی پھر وہ ہنس کر بولے تم لوگ خوش قسمت ہو کہ تمہیں مسیحیت ملی تمہارا جغرافیائی تشخص برقرار رہا اور ہاں یہ جو آپ مخلوط شادیوں کی بات کر رہے ہو وہ بھی ہوئیں وہ لوگ میسٹز کہلاتے ہیں۔ ان کے اس جواب نے ایک تو میرے ذہن میں کئی سالوں سے چھپے سوال کا جواب مل گیا اور ساتھ میرے اس خیال کو بھی مزید تقویت ملی کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ یورپین لوگ ہمیں مسیحیت تو دے گئے لیکن ہم سے ہمارا کلچر نہ لے سکے جیسا انہوں نے دنیا میں اور کئی جگہوں پر کیا بس ہمیں اپنی مسیحی شناخت پر فخر کرنا چاہیے۔ لیکن اپنی اس شناخت کو کسی خاص خطے سے جوڑ کر اپنی جغرافیائی شناخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی احساس چاہے وہ احساسِ کمتری ہو یا احساسِ برتری یہ انسانی ذات کی بڑی کمزوری ہوتا اور ایسی کمزوریاں ساری عمر انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور ایسی کمزوریاں انسان کی فکری ، شعوری، تعلیمی، معاشی ،سماجی، معاشرتی، علمی ، مذہبی، تہذیبی و سیاسی ترقی میں رکاوٹ رہتی ہیں۔

اعظم معراج کی تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتب میں سے پہلی کتاب
” دھرتی جائے کیوں پرائے”؟ سے اقتباس

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply