اردو کی فکشن نگار ،خدیجہ مستور۔۔احمد سہیل

خدیجہ مستور اردو فکشن کا ایک ایسا نام ہے۔جو اردو فکشن کو ایک ایسا مزاج دے گیا جس میں متانت، فکری گہرائی، اور معاشرت کا ایسا افقی اور عمودی ثقافت کا اس حرکیاتی اور سکونیاتی ماجرات پوشیدہ ہیں۔ جس میں فرد معصوم بھی ھے، کمینہ اور لالچی بھی ہے۔ ان کی کہانیوں میں خاندانی بکھراؤ کے سانحات، نقل مکانی کے بعد پاکستان میں تبدیل ہوتے ہوئے المناک واقعات، حقائق اور کربوں کی ازیت ناک داستانیں بھی ہیں۔ اگر مجھے سے کوئی یہ پوچھے کہ کا اردو کی پہلی بڑی تین بڑی ناولوں کا نام بتاو تو میرا جواب ہوگا: خدیجہ مستور کا ناول ۔۔۔
1۔ آنگن
2۔ آنگن
3۔آنگن
خدیجہ مستور کے انتقال کے بعد احمد ندیم قاسمی صاحب نے شکاگو میں مقیم شاعر افتخار نسیم ( افتی) سے میرا پتہ لے کر مجھے خدیجہ مستور پر مختلف تناظر میں مضمون لکھنے کو کہا۔ میں ان دنوں امریکہ میں پڑھ رہا تھا۔ میں نے ان سے ایک ماہ کی مہلت لے کر ” “آنگن” کے عمرانیاتی شعور ” پر ا یہ مضمون لکھ دیا۔ جو ان کے ادبی جریدے میں شائع ہوا۔ “آنگن” میں تقسیم ہند کے بعد پاکستانی معاشرے کی ایک سچی اور اذیت ناک روداد ہے۔ اس کے تمام کردار، عالیہ، جمیل بھائی، چھمی، تہمینہ باجی، صفدر بھائی، بڑے چچا، مظہر چچا، اسرار میاں اورکسم دیدی ھم کو اپنے ہی کنبے کے افراد لگتے ہیں جو ہندوستاں سے ایک تہذیب لے کر اپنے ساتھ آئے تھے۔
برصغیر پاک وہند کی تقسیم پر متعدد اردو ناول لکھے گئے جن میں ’ آگ کا دریا ( قرة العین حیدر ) ، اداس نسلیں (عبد اللہ حسین ) اور ’آنگن ( خدیجہ مستور ) بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان میں تقسیم کی نہ صرف تاریخ مل جاتی ہے بلکہ اس دور کا جیتا جاگتا معاشرہ بھی نظر آتا ہے ۔ اس نسل کو جو المیہ پیش آیا اس کا درد و کرب تو ملتا ہی ہے ساتھ ساتھ اس نے پورے معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔

اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے ناولوں اور افسانوں کی مجموعوں کی تعداد سات ہے۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ایک ایسا ناول ثابت ہوا کہ جو ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں زندہ رہے گا۔
خدیجہ مستور 11 دسمبر 1927 کو بلسہ بریلی میں یوسف زئی خاندان میں پیدا ہوئی، متوسط خاندان میں ہوئی ۔ انہوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم لکھنو سے حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ ان کا قیام بمبئی میں بھی رہا بھر تقسیم ملک کے بعد ان کا خاندان لاہور نقل مکانی کرگیا۔

انہوں نے کم عمری میں ہی کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں ۔ خدیجہ مستور نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942میں کیا ۔ آپ کا پہلا افسانہ ”ضیاء“ تھا۔ آپ کے مختلف افسانے اس دور کے مشہور رسائل ” خیال“،”عالمگیر“ اور ”ساقی“ میں شائع ہوتے تھے۔ ۔خدیجہ مستور ان کے جذباتی اور عمرانی مسائل کی تصویر کشی ان ادوار کے عظیم ناولوں میں کی گئی۔ تقسیم ہند نے بھی لا محالہ افسانوی ادب کا ایک بڑا Corpus تیار کیا۔ جس میں کچھ جذباتی اور وقتی اہمیت کا سامان تھا۔ لیکن چند ناول اور افسانے ادب میں اپنی جگہ بنالے گئے۔اور ممبئی میں قیام کے دوران ان کے فن کو بہت جلا حاصل ہوئی۔ لیکن ان کی اصل تخلیقات لاہور کے قیام کی دین ہیں۔ خدیجہ مستور اور ان کی افسانہ نگار بہن حاجرہ مسرور کو احمد ندیم قاسمی جیسی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ وہ ادبی جریدے ” نقوش” کی مدیر بھی رہیں ۔احمد ندیم قاسمی نے ان کی مدد کی۔۱۹۵۰ء میں خدیجہ کی شادی مشہور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کے بھانجے ظہیر بابر سے ہوئی جو صحافت کے پیشے سے منسلک تھے۔ اس کے بعد تو وہ مسلسل لکھتی رہیں اور ان کی کہانیاں بھارت اور پاکستان کے مقتدر ادبی رسائل میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے بہت جلد نمایاں ادبی مقام حاصل کر لیا۔ ان کا افسانہ” محافظ الملک“ بے حد مشہور ہوا جو ایک خاص دور کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’ تلاش گمشدہ ، درد ، کھیل ، بوچھار ، چند روز ‘ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ،ان کے مشہور افسانوں میں ”کھیل ، بوچھاڑ ، چندر وز اور ، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھاپانی “ کے نام شائع شامل ہیں ۔

ان کے مشہور افسانوں میں ”کھیل ، بوچھاڑ ، چندر وز اور ، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھاپانی “ کے نام شائع شامل ہیں جبکہ ان کے دوناول ”آنگن اور زمین “ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے، ان کا آخری افسانہ “بھروسا” بھی اسی موضوع پر ہے۔ان کے ناول ” آنگن” کو شہرت ہی نہیں ملی بلکہ ان کی اس ناول میں پاکستاں میں پچاس کی دہائی کسے ان مہاجریں کا اصل داخلی اور اجتماعی دکھ ، الام، مصائب اورتناؤ نظر آتا ہے جو پاکستان کے نئے معاشری میں ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والوں کو ہوا تھا۔ یہ ان کی بڑی سچی اور حقیقت پسندانہ تصویری تھی۔ اقصٰی شبیر سلہری نے اپنے مضمون میں اس حولے سےلکھا ہے” جب پاکستان بنا تو ایک ہندوستان ہی نہیں بلکہ کئی خاندان بھی دو لخت ہوئے. کسی کے لیے اس زمین سے الگ ہونا ممکن نہ تھا جہاں انہوں نے، ان کے بچوں نے آنکھ کھولی اور جہاں انکے ماں باپ ہمیشہ کے لئیے آنکھیں موندھ کے زیر زمین سو رہے تھے۔۔ لیکن کچھ لوگ لکیر کو اس امید میں پار کر گئے کہ پاکستان میں حالات اچھے ہوں گے. شریعت کا نفاظ ہوگا، بچوں کو تعلیم ملے گی، بے روزگاری نہ رہے گی، امن ہوگا۔ یہ ناول پڑھ کے گہرائی سے احساس ہوتا ہے کہ جو مسلمان ملک آزاد کروانے کیلئے تن، من اور دھن سے لگے ہوئے تھے انہوں نے کس حد تک قربانیاں دیں. اور جو لوگ ملک آزاد کروانے میں اتنے پیش پیش نہ بھی تھے وہ آزادی کے وقت جب سرحد پار کرنے لگے تو کیسی کیسی مشکلات سہیں۔. جہاں ساری زندگی گزاری ہو، جہاں گھر بنایا ہو، جہاں اپنے ہاتھوں سے پیڑ لگائے ہوں، جہاں کے کھیتوں سے اگلا ہوا اناج کھایا ہو کیا اس جگہ کو چھور کے ایک نئی جگہ جانا آسان ہوتا ہے؟ بالکل نہیں. لیکن اپنے مذہب، تہذیب، زبان اور وقار کو بچانے کی خاطر برصغیر کے مسلمان زندگی بھر کی کمائی چھوڑ کے خالی ہاتھ پاکستان کی جانب چل پڑے.”

خدیجہ مستور نے اپنے ناولوں میں کئی معاشرتی ، تہذیبی ، ثقافتی ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کاجائزہ لیا ہے اور ان کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ خدیجہ مستور کا شما رایک سنجیدہ اور گہری سوچ رکھنے والی تخلیق کار کی حیثیت سے ہوتا ہے ۔ ان کا فسانہ بیانیہ کا منفرد جمالیاتی پہلو اس سبب دوسرےاحمد سہیل ناول نگاروں سے منفرد اور الگ نظر آتا کہ ان کے تحریروں میں اذیت ناک اور اندوہناک معاملات افسانوی جمالیات کی نئی شعریات کو خلق کرتے ہیں

اس ناول کی ہیروئن کا نام عالیہ ہے۔۔اور ساری کہانی عالیہ کے کردار کے گرد گھومتی ہوئی نظرا تی ہے۔ مصنفہ نے بڑ ے خوبصورت انداز میں اس کردار کو تراشا ہے۔ یہ ایک خوبصورت تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔ بے سہار ا ہونے کے بعد اپنے بڑے چچا کے گھر میں آجاتی ہے اور آخر میں پاکستان آکر ایک کامیاب عورت بنتی ہے۔ اس کردار کی مکمل نفسیاتی کیفیات مصنفہ نے واضح کرتے ہوئے کردار کا نفسیاتی تجزیہ خوبصورتی سے کیا ہے۔۔ عالیہ دراصل ایک ذہنی کشمکش کا شکار نظرآتی ہے۔ خدیجہ مستور کا یہ ناول موضوع کے لحاظ سے دو سطحیں رکھتا ہے۔ ایک جاگیردارانہ نظام کے حوالے سے گھریلو زندگی ہے اور دوسرا اس کا موضوع تحریک آزادی ہے۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں ایک جاگیردار گھرانے کی روایت اور ذہنیت کی کہانی بیان کی ہے۔ یہ ناول اپنے عہد کی مخصوص تہذیب‘ رسم و رواج اور سیاسی اثرات کا ترجمان ہے۔ خدیجہ مستور نے اپنے فن کے ذریعے اردو ادب کے لئے جو خدمت سرانجام دی ہے اسے تاریخ ادب اردو میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے ۔
خدیجہ مستورنے لندن میں سن انیس سو بیاسی میں چھبیس جولائی کی درمیانی شب کو اس دنیا سے منہ ۔ان کا جسد خاکی لاہور لاکر قبرستان گورومانگٹ (کبوتر پورہ ) میں پیوند زمین ہوئیں۔

اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے ناولوں اور افسانوں کی مجموعوں کی تعداد سات ہے۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ایک ایسا ناول ثابت ہوا کہ جو ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں زندہ رہے گا۔ اورانھوں  نے اردو میں مہاجرت کے کرب اور خواتین کے مسائل پر ان کی ہر تحریر میں منفرد انداز سے بڑی مہارت اور چابک دستی سے لکھا ہے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے قدرتی طور پر خدیجہ کی ہمدردیاں عورت کے ساتھ ہیں۔ اُن کے افسانوں کے پہلے مجموعے کھیل کا پہلا افسانہ عورت کی وفا اور مردکی بے وفائی کے پس منظر میں ہے اور اتفاق دیکھیں کہ ان کا آخری افسانہ بھروسا بھی اسی موضوع پر ہے۔ خواتین کی حیثیت، نفسیات اور مسائل اُن کا پسندیدہ موضوع ہے۔ یوں تو ان کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد سات ہے ۔ خدیجہ مستور کے دونوں ناولوں میں ان کی ترقی پسندیت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔انھوں نے معاشرتی زندگی کے مسائل کی اچھی اور بہترین عکاسی کی ہے۔وہ ناولوں کی بنیاد مادی حقائق اور اجتماعی شعور پر قائم کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے براہ ِراست زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں غور و فکر ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان کو افراد کے سماجی تناظر میں پیش کیا ہے۔ غزالہ فاطمہ کا موقف ہے۔ “خدیجہ مستور کے دونوں ناولوں میں ان کی ترقی پسندیت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔انھوں نے سماجی زندگی کے مسائل کی اچھی اور بہترین عکاسی کی ہے۔وہ ناولوں کی بنیاد مادی حقائق اور سماجی شعور پر قائم کرتی ہیں۔انہوں نے براہ ِراست زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں غور و فکر ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان کو افراد کے سماجی تناظر میں پیش کیا ہے۔ ” مگر ان کا ناول ’ آنگن ہی اس قدر توانا ثابت ہواکہ اس نے ان کے نام کو زندہ جاوید کر دیا ۔ نہ صرف یہ کہ یہ ناول ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply