چہرہ فروغ مے سے گلستاں(قسط6)۔۔فاخرہ نورین

پھوہڑ پن اور گندگی پر اتفاق کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ صاف ستھرا مرد ویہلا اور صاف ستھری عورتیں بدکردار سمجھی جاتی ہیں( لطیفہ یہ بھی ہے کہ اکثر ایسا ہی نکلتا ہے )چنانچہ شرافت اور کاما ہونے کے دعوے دار گندے سندے رہتے ہیں ۔کام کرنے اور کام سوتر کرنے والوں کے درجات ہی نہیں حلیات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔

زراعت پر منحصر معاشرے میں جوائنٹ فیملی سسٹم ایک عمومی خاندانی طرز بودوباش ہے جو ظاہر ہے کہ کھانے والے منہ زیادہ ہونے کے سبب صرف زراعت سے حاصل آمدنی میں پوری نہ پڑنے سے مستقل نبردآزما رہتا ہے۔ بہت قریب سے دیکھنے اور بھگتنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ
جوائنٹ فیملی سسٹم اور پین اسلام ازم تقریباً ملتی جلتی علامات اور مظاہر والی بیماریاں ہیں ۔

یوں سمجھیے کہ جس طرح فلسطین کے دکھوں پر رونے والے سریاب روڈ پر ہوتے قتل عام پر بے حسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں یا بوسنیائی مسلمانوں کی تکلیف پر تڑپنے والے ہزارہ کے سالانہ قتال کو تہوار کی طرح ناگزیر اور معمولی سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح جوائنٹ فیملی میں بھی بہن بھائی ذمہ داری اور بیوی بچے قربانی کا بکرا سمجھے جاتے ہیں ۔

عموماً یہ طرز معاشرت باہرلی آمدنی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے چنانچہ ہر خوشحال گھرانے میں ایک باربرداری کا جانور بیٹا یا بھائی باہر بھیجا جاتا ہے ۔ اس بابردار کی بیوی اور بچے دوسروں کے حصے کی ذلت اٹھاتے ہیں ۔اچھے کپڑے اور جوتے کے بدلے زمینیں باپ بھائیوں کے نام لگتی رہتی ہیں اور بیویاں زیور اور کپڑے لتے کے بدلے مٹی ڈھونے کے لئے اپنا گدھا پردیس بھیج کر راضی رہتی ہیں ۔ بعض صورتوں میں گاؤں کے فارغ اور جوانی چڑھتے لڑکے دوگھوڑا بوسکی، باہر لے پرفیوم اور سونے کی چین پہنے گلیوں میں اترائے پھرتے ہیں کہ باہرلوں میں سے کسی کی بیوی یا بیٹی شوہر یا باپ کے خون پسینے کی کمائی اپنے خون کی حدت کے علاج میں دوسروں کے پسینے نکلواتی اور مزدوری فارن ایکسچینج کی صورت ادا کرتی ہے ۔

ایسی صورت میں چامے، دامے ہر دو طرح سے نوازے جانے والے افراد میں گاؤں کے مصلی سے لیکر خاندان کے محرم رشتے تک ہو سکتے ہیں ۔ سسر کا بہو کے ساتھ وسیبا، پھوپھا کا بیوی کی بھتیجی کے ساتھ کھلے عام تعلق، خالو کے ساتھ بھانجی کا تعلق تو میرے ذاتی دائرہ علم میں ہے ۔کزنز کے باہمی جنسی تعلقات، ارد گرد کے لڑکوں سے بیک وقت تعلقات ،شادی شده بال بچے دار عورتوں مردوں کے تعلقات اس قدر موجود ہیں کہ انھیں “سوترنا” کے نام سے ہر فرد کھلے عام جانتا اور زیر بحث لاتا رہتا ہے ۔ سرعام طلاق لینے دینے والوں کا ایک ساتھ رہنا صرف ناک بچانے کی دھن میں قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے ۔ یعنی طلاق یافتہ جوڑے کا ایک ہی کمرے گھر اور خاندان میں قیام ایک کھلا راز ہے جسے ہر کوئی جانتا اور قبول کیے پھرتا ہے ۔ بیٹا طلاق دے بھی دے تو سسر صاحب اسے بہو کے درجے سے اتارنے پر تیار نہیں ہوتے اور یہ کھیل بچوں کے سامنے کھیلا جاتا ہے ۔مزے دار ترین بات یہ ہے کہ ساری جوانی ننگا ناچنے والے تقریباً ہر بزرگ حاجی صاحب اور ہر عورت بعد از حج مبرور حاجن کہلاتی ہے ۔ایک عمر تک علاقے بھر میں بدچلنی کے لئے مشہور مردوزن صرف ایک عمرے یا حج کی بدولت نیک نامی کمانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

میرے لئے یہ امر حیرت کا سبب بن گیا کہ لوگ اپنے باپ کو حاجی صاحب اور ماں کو حاجن کے عرف سے بلاتے ہیں ۔ میں نے اپنے دیور سے پوچھا
یار یہاں لوگوں میں اپنے باپ ماں کو حاجی حاجن کہنے کا رواج کیوں ہے کیا وہ شروع دن سے یہی کہلاتے تھے؟
وہ ہنس پڑا ۔
نہیں بھابھی جان اصل میں حج کرنے کے بعد بطور عزت اور نیک نامی ان سب کو اس طرح بلایا جاتا ہے ۔

لیکن یہ تو چلیں دوسرے لوگ کہتے ہیں، اپنی اولاد کے لئے تو وہ ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔مطلب دنیا کا ہر بندہ انہیں حاجی حاجن کہہ سکتا ہے لیکن ان کے بچوں کے لئے تو وہ ماں باپ رہنے چاہئیں ۔آخر ماں باپ ہونا ایک تخصیصی رتبہ ہے۔مثلاً میں ڈاکٹر ہوں یا اسسٹنٹ پروفیسر ہوں تو یہ میری سماجی حیثیت ہے، میری عائلی حیثیت بیوی یا بہن یا بیٹی کی ہے۔میرے گھر میں تو میرا عہدہ نہیں رشتہ چلے گا نا۔ میں نے اپنی الجھن کا دوسرا سِرا بھی اسے پکڑانے کی کوشش کی ۔
وہ کنفیوز ہو گیا ۔
بس وجہ خاص تو کوئی نہیں بس سب کہتے ہیں تو پھر بچے بھی وہی کہتے ہیں ۔

مطلب جو عورتیں گھر سے بھاگتی یا کھیتوں کھلیانوں میں پکڑی جاتی ہیں، مقامی لوگ انھیں ادھال کے نام سے یاد کرتے ہیں تو کیا ان کے بچے بھی عوام الناس کی پیروی میں انھیں وہی بلاتے ہیں؟ وہ ہاتھ باندھ معافی مانگ، کانوں کی لویں چھوتا میرے کمرے سے نکل گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے کہا نا کہ گندگی ایک عموماً مقبول قدر ہے، بھلے کسی بھی شکل میں ہو گندگی پر حرف ِ سوال کوئی نہیں اٹھاتا ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply