• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • افغان پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری اور پشتون قوم پرستوں کی مصلحت پسندی/عبدالکریم

افغان پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری اور پشتون قوم پرستوں کی مصلحت پسندی/عبدالکریم

تین اکتوبر کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جب پاکستان میں موجود غیرقانونی پناہ گزینوں کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا ،اور ان غیرقانونی پناہ گزینوں کو رضاکارانہ طور پر 31اکتوبر تک نکلنے کا مدت مقرر کیا گیا ۔امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ پشتون قوم پرست پارٹیوں کے جانب سے سخت ردعمل سامنے آئیں گا ۔ کیونکہ پاکستان میں سب سے زیادہ افغان پناہ گزین آباد ہیں ۔ پشتون قوم پرست پارٹیوں نےہمیشہ سے افغان بیانیے پر سیاست کی ہے  اور ان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغان پناہ گزین اپنی سرزمین پر آباد ہے ۔جس کو وہ پناہ گزین کے بجائے کڈوال یعنی پاوندہ کہتے آرہے ہیں اور ان کو یہاں کے مقامی تسلیم کرتے ہیں ۔ ان قوم پرست پارٹیوں میں عوامی نیشنل پارٹی خود کو پشتونو کی سب سے بڑی پارٹی گردانتی ہیں ۔ ان کا ایک مقبول نعرہ کہی دہائیوں سے رہا ہیں ” لراو بر یو افغان” جس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے آرپار افغان ایک ہی قوم ہیں ۔ مذکورہ نعرہ پشتون تحفظ موومنٹ ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے بھی اپنایا اور اس کے ساتھ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے جلسے جلسوں میں بھی یہ نعرہ گونجتا رہتا ہیں ۔

مذکورہ پارٹیوں کے موقف اور بیانیے کے بنیاد پر امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو جبری طور پر نکالنے کے خلاف وہ ملکی سطح پر سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گئے اور سخت فیصلوں کے بنیاد پر جدوجہد کا راستہ اپنائے گئیں ۔ امکان امکان کے حد تک رہا ان قوم پرست پارٹیوں نے مصلحت کا راستہ اختیار کیا ،اور مذمت پر اکتفاء کرنا مناسب سمجھا ۔ البتہ بلوچستان کے حد تک ایک تین پارٹی اتحاد انتخابی علاقہ بندیوں کے خلاف بنا۔ اس اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی ، پشتونخواملی عوامی پارٹی ( خوشحال کاکڑ ) نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ شامل ہیں بعد میں اتحادی پارٹیوں کے جلسوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما بھی شامل ہوئیں۔

مذکورہ اتحاد نے 31 اکتوبر کو افغان پناہ گزینوں کے جبری انخلاء کے خلاف بھی ایک بڑا جلسہ کیا ، اور اسی جلسے میں 3 نومبر کو کوئٹہ شہر میں شٹرڈاون ہڑتال کی کال دئی گئی اور ساتھ میں قلعہ سیف اللہ ، لورالائی ،کچلاک اور ہرنائی اور دیگر علاقوں میں احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا ۔ لیکن سیاسی ماہرین اس عمل کو روایتی سیاسی ردعمل سے تعبیر کرتےہیں ۔ اور کہتے ہیں مذکورہ احتجاج بے شک ایک جمہوری عمل ہیں،یہ ایک انتخابی عمل کی تیاری تو ہوسکتی ہیں لیکن اس عمل سے حکومت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ غیرقانونی پناہ گزینوں کی انخلاء کا فیصلہ واپس لے ۔

یاد رہے مذکورہ اتحاد میں شامل قوم پرستوں جماعتوں کا خیبرپختونخوا میں کافی مضبوط تنظمیں ہیں خاص کر عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے اس کے ساتھ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ( خوشحال کاکڑ ) اور نیشنل ڈیموکریٹک وہاں کافی متحرک لیکن وہاں ابھی تک افغان پناہ گزینوں کے جبری انخلاء کے خلاف ایک بھی احتجاج ریکارڈ نہیں کیا گیا ۔

دوسری طرف بزرگ اور نامور پشتون قوم پرست سیاست دان پشتونخوا ملی پارٹی ( محمودخان اچکزئی) دھڑے کے چئیرمین محمودخان اچکزئی نے کافی محتاط رویہ اپنایا ہیں ۔ ان کے پارٹی نے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک بہت بڑی ریلی نکالی جس کی سربراہی محمودخان اچکزئی نے خود کی ۔ لیکن افغان پناہ گزینوں کے انخلاء پرصرف ایک دن صوبے کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کئے ۔ 5 نومبر کو محمودخان اچکزئی نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اس پریس سے لوگوں کو توقع تھا کہ محمودخان اچکزئی ایک اہم اعلان کریں گئے ، لیکن انہوں نے تاریخی حقائق اور جغرافیائی حدود پر بات کرنے پر اکتفاء کیا ۔ اسی بنیاد پر ایک صحافی نے محمودخان اچکزئی سے سوال کیا کہ کیا” یہ مصلحت پسندی انتخابات کی وجہ سے تو نہیں ہے ” جس کے جواب میں محمودخان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ” اگر میری مرضی ہوتی میں عمر بھر انتخابات میں حصہ نہیں لیا”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رہے اپیکس کمیٹی میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پاک افغان سرحدی علاقے چمن ۔ سپین بولدک دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت یکم نومبر سے پاسپورٹ کے ذریعے ہوگا ۔ اس سے پہلے اس سرحد پر قندہار اور چمن کے باشندے پاکستانی شناختی کارڈ اور افغانی تذکرہ پر آزادنہ طور پر سرحد کے آرپار سفر کرتے تھے ۔ روزانہ کیا بنیاد پر چمن سے تقریباً بیس ہزار کے قریب لوگ افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک کاروبار کے غرض سے جاتے تھے ۔ سرحد پر پاسپورٹ کے نفاذ کے فیصلے کے خلاف چمن شہر میں ایک احتجاجی دھرنا دو ہفتوں سے جاری ہیں ۔ دھرنے کا شرکاء کا ایک ہی مطالبہ ہیں کہ وہ سرحد پر آمدورفت کیلئے پاسپورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے ، اس لئے حکومت یہ فیصلہ واپس لے ۔ مذکورہ دھرنے میں تمام قوم پرست پارٹیوں کے رہنماؤں نے شرکت کی ہیں اور دھرنے کے شرکاء کے مطالبے کی حمایت کی ہیں ۔ لیکن دوسری طرف یہی پارٹیاں افغان پناہ گزینوں کے مسئلہ پر چمن کے طرز پر احتجاج سے اجتناب برت رہا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply