کھوکھلے دعوے۔۔عبدالرؤف خٹک

وہ شکایت کررہے تھے کہ اس عمران خان کو مسند اقتدار تک کون لایا ہے؟
میں نے ترنت جواب دیا، قسم لے لو میں نہیں لایا۔
میں نے کہا خان صاحب کو لانے والے وہ لوگ ہیں جنھیں سیاست دان خلائی مخلوق کہتے ہیں اور ہم جیسی سادہ عوام انھیں چوکیدار کہتے ہیں،
وہ پھر سے کہنے لگے،
یہ وہی خان صاحب ہیں نا !جو وعدے کرتے تھے کہ اک کروڑ گھر ،پچاس لاکھ نوکریاں اور چوروں سے قرضہ لیکر قرض داروں کے منہ پر دے ماریں گے،
میں نے کہا جی ہاں!
خان صاحب تو وہی ہیں، لیکن خان صاحب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اکثر لوگوں کو ڈائمنشیا کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے جس میں اکثر کیے ہوئے وعدے اور کی ہوئی باتیں مریض بھول جاتا ہے،
اسے نسیان بھی کہا جاتا ہے،
میرا وہ دوست کہتا ہے خان صاحب پہلے ایسے نہ تھے،
میں نے کہا خان صاحب ایسے ہی تھے لیکن پہلے ہر کسی کو معلوم نہیں تھا، اب پوری دنیا جان گئی ہے کہ خان صاحب کیسے ہیں،
وہ کچھ دیر سوچنے لگے اور اک بار پھر گویا ہوئے، وہ یوتھیوں کا کیا ہوا؟
میں نے کہا وہ بالغ ہوگئے ہیں اب خان صاحب کو نہیں سنتے،
اچھا اور وہ لڑکیاں جو خان صاحب پر مرتی تھیں ان کا کیا؟
وہ خان صاحب کا کنٹینر پر کھڑے اصل چہرہ دیکھ کر سب کی سب پیا کے گھر سدھار گئیں،
اب وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد،
کیا اب بھی لوگ خان صاحب کو ووٹ دیں گے؟
میں نے کہا دیکھو، نئی یوتھ کے لیے اگر نئے ترانے تیار ہوگئے تو کوئی بعید نہیں کہ خان جیسا کوئی اور پوپٹ تیار ہوجائے،
وہ کچھ دیر میرے ساتھ بیٹھا رہا اور اس کے بعد وہاں سے چل دیا،

اس کے جانے کے بعد میں خود سے سرگوشی کرنے لگا، کیا واقعی ہم بہت سیدھے ہیں؟ یا ہمارے ساتھ ہر دفعہ ہاتھ ہوجاتا ہے؟
کیا واقعی ہم خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں؟ ہم جھوٹ بولتے ہیں یا ہمارے حکمران؟
اسٹیج پر کھڑا شخص ہم عوام کو رنگین دنیا کی سیر کراتا ہے اور قوم من و عن لبیک کہے دیتی ہے،
کون جھوٹا ہوا حاکم یا عوام؟

اگر کسی کے خیال میں یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی اچھا لیڈر آئے گا ملک اور عوام کی حالت بدلے گا اس ملک کو لٹیروں اور غداروں سے نجات دلائے گا تو یہ خوش فہمی اور خام خیالی تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

ستر سال سے تبدیلی کے نام پر اس ملک کو گِدھوں کی طرح نوچتے رہے اور عوام کو صبر کا لولی پاپ تھماتے رہے،
قوم یاد رکھے۔ یہ سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی اس ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں لائے گا۔ قوم کو نت نئے ناموں سے تبدیلی کے لولی پاپ دئیے جائیں گے اور قوم گدھوں کی طرح بلا چوں چراں بنا ہاضمے والا چورن کھاتی رہے گی،
ہمارا سب سے بڑا المیہ قوم کے شعور کا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو خود سے بھی بے خبر رہتی ہے کہ میرے ساتھ کوئی ہاتھ ہوا ہے۔ یہ اپنے حقوق پر اپنی آنکھوں سے ڈاکہ پڑتے دیکھتی ہے لیکن شعور پر  بے شعوری کا پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے قوم اک تماش بین کی طرح سب کچھ دیکھتی ہے۔

مسند پر بیٹھے حکمران قوم کو کچوکے لگاتے ہیں، اور حکومت، مخالفین اور  عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرتی ہے،
ستر سال سے بلی چوہے کا یہ کھیل جاری ہے ۔عوام کی نبض پر وقت کے حکمرانوں کی مکمل گرفت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عوام اسی امید اور آس پر چپ سادھے بیٹھی ہے کہ شاید اب تبدیلی ہونے کو ہے اس طرح اک دن وہ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے لیکن تبدیلی نہیں دیکھ پاتا،
تبدیلی نعروں سے نہیں، انقلاب اور عمل سے آتی ہے، تبدیلی نیت اور اخلاص سے بھی آتی ہے، تبدیلی کے لئیے زندہ ضمیر ہونا لازمی ہے۔
اور ہم ان تمام لوازمات سے عاری ہیں۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply