غلام کے غلام / قادر خان یوسف زئی

آئے دن آئینی اور سیاسی بحرانوں کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہُوا ہے کہ ان لوگوں کے ذہنوں کو جنہوں نے پاکستان کو بنتے نہیں دیکھا ، یا جو اس کے پس منظر سے خاطر خواہ آگاہ نہیں ، مختلف قسم کے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا ہے، حتی کہ کچھ لوگ اس کے قیام کی افادیت پر بھی شک کرنے لگے ہیں، اس سے حاصل ہونے والی نعمتوں اور فراوانیوں کے باوجود بھی وہ اس سے نالاں نظر آتے ہیں اور ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ عناصر بھی سر اٹھانے لگے ہیں جو اس کے قیام کے مخالف تھے یا کم از کم اس کے حق میں نہ تھے ،کچھ عرصے سے میڈیا کے تمام شعبوں میں یہ لوگ اپنے خیالات کو منطقی سوچ کا روپ دے کر یا تاریخی حقیقتیں قرار دے کر پیش کر رہے ہیں۔

قوم جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام ، معاشی بحران اور اداروں کے درمیان طاقت کی کشمکش کی وجہ سے ذہنی خلفشار میں مبتلا ہے ، انہیں بعض عناصر داخلی طور پر اور بیرونی طور پر منظم طریقے سے بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب نتیجہ ہے اس فیصلے کا ، جو قائد اعظم علیہ رحمہ نے اپنے رفقا ء کے ساتھ مسلمانانِ  ہند کے لیے کیا تھا کہ وہ غلط تھا ۔ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر نا پختہ اذہان میں یہ زہر انڈیلا جا رہا ہے اور اس کے منفی نتائج مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں ۔ کبھی بھارت میں رہنے والے  مسلمانوں کی حالت زار کا موازنہ ، پاکستانی عوام سے کیا جاتا ہے تو کبھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو پاکستان میں ہونے والے واقعات سے تشبیہ دی جاتی ہے۔بہر طور ثابت یہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ کسی طرح  نوجوان نسل مان لے کہ مطالبہ پاکستان ایک غلطی تھی ۔ سیاست دانوں نے اپنی اپنی ترجیحات بنا لی ہیں۔ اقتدار کے لیے  کسی بھی  قسم کا داؤ کھیلنے سے گریز نہیں کرتے ۔ جس کا جتنا بس چلتا ہے اس پر کسی بھی قسم کے وار کرنے سے نہیں چوکتا ۔

زمینی اقدار و روایات تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، لیکن ثقافت بدلنے کا عمل سیکڑوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ اشوک کے عہد میں ہندوستان کی سرحدیں اور تھیں ، تغلقوں اور خلجیوں کے عہد میں کچھ اور ،  مختلف  مغل بادشاہوں کے عہد میں بھی اس  کا حدود اربعہ تبدیل ہوتا رہا اور جسے ہم 1947تک کا ہندوستان کہتے تھے ، وہ دراصل برطانیہ کے زیر انتظام اس کی سلطنت کا جگمگاتا ہوا ہیرا ، برٹش انڈیا تھا جس میں اشوک کے عہد کا افغانی علاقہ یا مغلوں کا علاقہ شامل نہ تھا ، جب کابل کا گورنر دہلی سے مقرر ہوتا تھا ، اس میں صوبے انتظامی ضرورت کے تحت محدود کئے گئے تھے ، ہم نے 1947میں ایک قوم کی حیثیت سے اپنے حق خود ارادیت کو استعمال کرتے ہوئے ( جو ہمارا حق تھا) اپنے لیے ایک ہوم لینڈ حاصل کیا تھا ، کسی گائے کو کاٹ کر اس کے دو حصے نہیں کئے تھے۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم  مسلمان ، شہنشاہوں کے متعلق جذباتی انداز میں سوچتے ہیں ، ہماری نظر ان کی بنائی ہوئی وسیع و عریض عالیشان مساجد و محلات تک رہ جاتی ہے ، ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے محض ذوق تعمیر کی نمود ہو ۔ انہوں نے مقبرے بھی بڑے شاندار تعمیر کرائے تھے اور باغ و بارہ دریاں بھی ، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی توجہ دراصل اپنی سلطنتوں کو مضبوط بنانے پر ہی مرکوز رہی ، غیر مسلموں کی امور ِ سلطنت میں شرکت ہو یا ان کی عورتوں کا حرم میں شمول ، راجواڑوں کو رام کرنے کے لیے رشتے جوڑنے ہوں یا اپنے بھائیوں کا قتل ، سب کچھ روا تھا ، حتیٰ کہ غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لیے دین میں آمیزش تک انہیں قبول تھی۔ ورنہ یہ نہ ہوتا کہ صدیوں کی حکومت کے بعد مسلمان دارالسلطنت میں بھی اقلیت  رہیں۔میں  تو یہی سمجھتا ہوں کہ اس سارے عرصے میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان گنت راندہ درگاہ ،   غربا ء ، مظلوم لوگوں تک اسلام کا مساوات کا پیغام نہ پہنچا، اس آفتاب کے نور سے وہ محروم رہے ، ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کروڑوں شودر ذلت کی گہرائیوں سے نکل  کر عزتِ  نفس کے حصول کے حامل پیغام کی طرف نہ لپکے ، انہوں نے اس طرف آنا پسند نہ کیا ، کون انسان ذلیل و مجبور رہنا پسند کرتا ہے جب اس کے سامنے سرفرازی و سربلندی کے راستے کھلے ہوں ۔

اصل بات یہی ہے کہ حقیقت کے راستے ان کی نگاہوں سے اوجھل رہے ، مسلمان حکمرانوں کے دور میں بھی وہ بدستور کسی پنج  ہزاری ،کسی ہفت ہزاری کی فوج میں پیادے ہی رہے ، غلام کے غلام ، مجبور و مقہور ، بے کس و بے بس حاکم کے مسلمان ہونے سے ان کے شب و روز میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ 75برسوں بعد دوبارہ ایسے حالات نوجوانوں کے سامنے اُن لوگوں کی جانب سے رکھے جا رہے ہیں جنہیں قوم نے رد کردیا ، پھر سے ان کی شخصیتوں کو ملت کا ہمدرد ، مونس و غم خوار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے ماضی کے گوشوں سے ، ان کی تحریروں سے جو قول و عمل کا تضاد سامنے آچکا ہے، انہیں دوبارہ کیوں ملت کا عظمت کا نقیب ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلا وجہ شخصیتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا جارہا ہے ۔ سیاسی بیانوں میں اپنا تقابل ملت اسلامیہ کی اُن ہستیوں سے کرتے ہیں جن کے یہ پاؤں کی خاک بھی نہیں۔ سیاست سے تو عوام کو بے زار کر ہی دیا تھا اب اسلام کے نام  پر وہ وہ تماشے کئے جاتے ہیں کہ سیاست بیزار ، اسلام سے بھی متنفر ہوجائیں ۔ عجیب احوال ہے ایسے لوگوں کی زندگیوں کا ، جو اپنی تعریف کے لیے پورے نظام کو بگاڑنے میں جتے ہوئے ہیں ۔ ان کی سازشیں سب کچھ کھل کر سامنے آچکی ہیں لیکن جہل کا دستور ہے کہ وہ نہ ماننے کو ہی اپنا سچ سمجھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کسی کی سیاسی جاگیر نہیں کہ وہ اسے اپنے خو د ساختہ مفروضوں کے تحت تبدیل کردے گا ۔ کوئی بھی ہو ، اس کی جو بھی حیثیت ہے وہ پاکستان کی پہچان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ، اور پاکستان کی واحد پہچان ، اسلام کے نام پر دو قومی نظریے کے تحت بنائی جانے والی ریاست ہے ، جس کے خلاف قیام پاکستان سے آج تک سازشیں ہی رچائی جا رہی ہیں۔ گو کہ آج کا نوجوان جذبات کی رو میں بھٹک رہا ہے ، لیکن سچ کا سورج کبھی تاریکی میں کھو نہیں سکتا ۔ یہ ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply