پانی کا بحران اور ہندوستان/شائستہ مبین

صاف پانی تک رسائی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی بنیادی شق ہے ۔ یہ اقوامِ متحدہ کے اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 11(1) کے تحت مناسب معیارزندگی برقرار رکھنے کے لیے ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ 28 جولائی 2010 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک تاریخی قرار داد منظور کی جس کے تحت پینے کے صاف پانی تک رسائی کو ان بنیادی انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کیا گیا ۔جو بہر صورت بقائے   انسانی کے لیے ضروری ہیں۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل کا یہ قانون ریاستوں کو ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کیے بغیر اپنے تمام شہریوں کے لیے صاف پانی کا انتظام کرنے اور اس تک رسائی کے حصول کا بندوبست کرنے کا پابند کرتا ہے۔
اس قانون کے مطابق صاف پانی تک رسائی کے مندرجہ ذیل نکات ہیں اور ان سب تک حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

دستیابی  
ہر شخص کی ذاتی اور گھریلو ضروریات کے لئے پانی مسلسل طور پر دستیاب ہونا چاہیے۔ ان ضروریات میں پانی پینے، کپڑے دھونے، کھانے کی تیاری، اور حفظان ِ صحت شامل ہیں۔ ہر گھر کے اندر یا اس کے قریب، صحت اور تعلیم کے تمام اداروں ، کام کی جگہوں اور دیگر عوامی مقامات پر پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ ہر فرد کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔

رسائی 
پانی کی سہولت آبادی کے کمزور طبقوں (جیسا کہ معذور افراد، بچوں، بوڑھوں اور خواتین) کی رسائی میں ہونی چاہیے۔

استطاعت 

پانی کی سہولیات سب کے لئے سستی ہونی چاہییں۔ کسی بھی فرد یا گروہ کو غربت کی وجہ سے اچھے معیار کے صاف پانی سے محروم نہیں رہنا چاہیئے ۔

جراثیم سے پاک پانی 
ذاتی اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کو محفوظ اور مائیکرو آرگنزم، کیمیائی مادوں اور ریڈیولاجیکل خطرات سے پاک ہونا چاہیے۔

ہندوستان میں پانی کی کمی ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جو کہ ہر سال لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ آبادی کی بڑی تعداد کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی ماحولیات اور زراعت کے شعبے پہ بھی بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بھارت کی آبادی سوا ارب سے زیادہ ہونے کے باوجود دنیا کے تازہ پانی کے وسائل کا صرف چار فیصد اس علاقے میں موجود ہے۔ تازہ پانی کی غیر متناسب دستیابی کے علاوہ ہندوستان میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ موسم گرما کے مہینوں میں مون سون کے آغاز سے پہلے ملک کے دریاؤں اور ان کے ذخائر کا خشک ہو جانا ہے۔ حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مون سون کے آغاز میں تاخیر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہ بحران زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ اسی وجہ سے کئی علاقوں کے آبی ذخائر خشک ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں پانی کی کمی کی وجہ حکومتی سطح پر لاپرواہی، ملک میں پانی سٹور کرنے کے لئے مناسب بنیادی ڈھانچے کی کمی، اور پانی کی آلودگی جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔

بھارت میں پانی کی کمی کی وجہ سے ملک بھر میں کروڑوں افراد روزانہ متاثر ہوتے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصّے کے پاس اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لئے پانی حاصل کرنے کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے۔ جون 2019 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے آبی ذخائر میں سے 65 فیصد میں پانی کی سطح معمول سے بہت کم اور 12 فیصد مکمل طور پر خشک ہیں۔ چنائی جیسے بڑے شہر سمیت کئی علاقوں میں نل کا پانی سِرے سے دستیاب ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں کے باشندوں کو پانی کے متبادل ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ملک بھر میں کئی جگہوں پر پانی کے پمپ عوام کے لیے لگے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر شہروں اور آبادی سے بہت دور واقع ہیں، اور پانی کا بہاؤ یا تو بہت کم ہے یا پھر غیر متوقع اوقات کے علاوہ آتا ہی نہیں۔ کافی زیادہ ہندوستانی پینے کا پانی خریدنے کے لیے محنت سے کمائے ہوئے پیسے خرچ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لیکن معاشرے کا غریب طبقہ اسے روزانہ کی بنیاد پر خریدنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کی دیہی آبادی کے لیے پانی کا حصول ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پانی تک محدود رسائی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پانی کے بحران کے دوران اس کمی کی وجہ سے پورے شہر کی آبادی کو صحت کے مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ چند سال پہلے لاہور شہر میں 90 فیصد سے زیادہ عوام پانی کی کمی کی وجہ سے صحت کے مسائل کا شکار ہو رہی تھی۔ صورتحال سے تنگ آکر شہری کیمیکلز اور آلودگی پھیلانے والے عناصر سے نپٹنے کا خطرہ مول لے کر بورویل کھودنے پر مجبور ہوگئے۔ پانی کی کمی اتنی سنگین ہے کہ عوام جانتے بوجھتے ہوئے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن اس آبادی کا چھ فیصد سے زیادہ حصہ صاف پانی تک رسائی سے محروم ہے، اور تقریباً پندرہ فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرتی ہے۔ گھریلو پانی کے کنکشن اور بیت الخلاء میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ان علاقوں میں موت کی بڑی وجہ ہیں۔ ہندوستان اور باقی دنیا میں لاکھوں لوگ صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کرونا وائرس کی وجہ سے اضافی چیلنج درپیش ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ عوام کو محفوظ پانی تک رسائی حاصل ہو۔ پانی کے اس بحران کو ختم کرنے کے لیے پہلے سے موجود سیاسی دباؤ کے ساتھ ساتھ یہ نئے عوامل شامل ہو کر محفوظ اور صاف ستھرے پانی تک رسائی کی اہمیت کو اور اجاگر کر رہے ہیں۔ موثر حل تلاش کرنے میں عجلت کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھارت میں پانی کا بحران مستقل صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ پہلے ہی ملک کے پاس صاف پانی کے وسائل کم ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور بار بار خشک سالی آنے کی وجہ سے اب ان میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ اس بحران کا سب سے زیادہ نقصان خواتین اور بچوں کو ہوتا ہے۔ سنٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کے 700 اضلاع میں سے تقریباً 256 میں زیر زمین پانی کی سطح میں پریشان کن حد تک کمی آ چکی ہے۔ یعنی کہ ان علاقوں میں پانی کی سطح اتنی کم ہوگئی ہے کہ پانی حاصل کرنا اب پہلے سے مزید مشکل ہو گیا ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں سے تین چوتھائی کو پینے کے قابل پانی تک آسان رسائی نہیں ہے اور انہیں غیر محفوظ ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پوری دنیا میں سے زمین سے نکالے جانے والے پانی کا 25 فیصد صرف ہندوستان ہی نکالتا ہے کیونکہ ملک کے تقریباً 70 فیصد دوسرے آبی ذرائع آلودگی کا شکار ہیں اور تمام بڑے دریا آلودگی کی وجہ سے ناقابل استعمال بن گئے ہیں۔ زمین سے اس قدر زیادہ پانی نکالنے کے باوجود عوام کی ضروریات پوری نہ ہو پانا ایک خطرناک حقیقت کی نشاندہی ہے۔ اگر اب بھی بھارتی حکومت  نے  درست  اقدام نہ اٹھائے تو مستقبل کی نسلیں بھوک اور بے روزگاری کی بجائے پیاس کی وجہ سے موت کا شکار ہوں گی۔

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply