انسانی نفسیات اور فطری تقسیم/عمران بخاری

ہر انسان اپنی ذہنی ساخت کے اعتبار سے دوسرے تمام انسانوں سے مختلف ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ذہنی ساخت کے اعتبار سے دنیا میں جتنے انسان پائے جاتے ہیں اُتنی ہی انسانوں کی قِسمیں ہیں۔ ذہنی ساخت سے مراد انسان کے سوچنے کی صلاحیت (Thinking Ability)، ادراک کی صلاحیت (Perceptual Ability)، استدلال کی صلاحیت (Reasoning Ability)، شعوری سطح (Level of Consciousness) اور سیکھنے کی صلاحیت (Learning Ability) مراد لی جاتی ہے۔ درج بالا تمام صلاحیتوں کو یکجا کریں گے تو آپ کو ہر انسان دوسرے انسانوں سے مختلف معلوم ہو گا۔ انسان کی نفسیاتی ساخت یا کیفیت پر ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اُس کے حیاتیاتی عوامل (Biological and Genetic Factors) بھی اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی جسم میں ہارمونل عدم توازن (Hormonal Imbalance) ڈپریشن، اینگزائٹی (Anxiety)، جنسی ڈس آرڈرز (Sexual Disorders) اور طرح طرح کے دوسرے نفسیاتی امراض پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کے ماحول میں پائے جانے والے عدم تحفظ، غیر یقینی کی صورتحال اور سماجی و طبقاتی تقسیم بھی انسان میں انہی نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

اسی طرح انسان کی خوشی اور غم کی کیفیات پر بھی یہ دونوں عوامل (ماحول اور حیاتیاتی و جینیاتی عوامل) اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسان کی ذہنی ساخت یا کیفیت کا عکس اس کے عمل (Action) میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اسی لیے نفسیات کے مطالعے اور تحقیق کا محور انسان کی ذہنی کیفیت کو نارمل رکھنا قرار پایا ہے تاکہ انسان مثبت ذہنی کیفیت کے ساتھ بہتر سے بہتر انداز میں زندگی کے کام سرانجام دے سکے۔ اگر انسان کی نفسیاتی کیفیت میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے (چاہے وہ حیاتیاتی عوامل کی وجہ سے ہو یا ماحول کی وجہ سے ہو) تو اس مسئلے کو حل کیا جاتا ہے۔ بعض ذہنی امراض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا علاج یا حل ممکن نہیں ہوتا۔ ان امراض کے علاج کی بجائے ان کی علامات اور ان کی شدت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر ڈاؤن سنڈروم (Down Syndrome) ایک ایسا مرض ہے جو انسان کی جینیاتی خرابی (Chromosomal Imbalance) کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کی ذہنی و جسمانی ڈویلپمنٹ نہیں ہو پاتی۔ ایسے بچوں کو Children with disability میں شمار کیا جاتا ہے۔ اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے ان کا شمار مردوں یا عورتوں میں ہی کیا جاتا ہے۔

اسی طرح بعض بچے اس حالت میں پیدا ہوتے ہیں کہ ان کے جینیاتی عدم توازن کی وجہ سے جنسی اعضاء کی ڈویلپمنٹ نہیں ہو پاتی۔ ہمارے ہاں ان کے لیے ایک تیسری کیٹیگری تخلیق کی گئی ہے جسے خنثیٰ (Intersex) کا نام دیا جاتا ہے۔ قانونی سطح پر فقہِ اسلامی میں بھی ہمیشہ مرد اور عورت کی ہی تقسیم کی گئی ہے اور خنثیٰ کو بھی دیگر ظاہری علامات کی بنیاد پر ہمیشہ مرد یا عورت ہی شمار کیا گیا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ میڈیکل سائنسز کی ترقی نے ہمارے لیے یہ حقیقت سمجھنا اور بھی آسان بنا دیا ہے کہ دوسرے جینیاتی امراض کی طرح یہ بھی ایک Disability ہی ہے۔ اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں فرق کرنے والی چیز محض جنسی اعضاء نہیں ہیں۔ مرد اور عورت اپنی دماغی ساخت (Anatomy of Brain)، ہارمونز کے توازن، مسکولر ماس (Muscular Mass)، نظام تولید (Reproductive System) وغیرہ میں بھی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگر جنسی اعضاء کی بنیاد پر کسی کے مرد یا عورت ہونے کا تعین نہیں ہو پا رہا تو جدید میڈیکل سائنس کے ذریعے دیگر ٹیسٹس سے بھی جنس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مردوں میں ٹیسٹوسٹیران (Testosterone) ہارمون عورتوں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے اور عورتوں میں اینڈروجن (Androgen) ہارمون مردوں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مردوں میں مسکولر ماس (Muscular Mass) عورتوں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ایم آر آئی جیسے جدید ٹیسٹوں کے ذریعے دماغی ساخت کا مطالعہ بھی اب مشکل نہیں رہا۔ یہ محض چند مثالیں ہیں۔

جس طرح ڈاؤن سنڈروم جیسی دیگر بیماریوں (جن کی وجہ حیاتیاتی یا جینیاتی عوامل ہیں) میں مبتلا افراد کو Children with Disability میں شمار کیا جاتا ہے تو بالکل اسی طرح خنثیٰ (Intersex) کی الگ سے ایک تقسیم پیدا کرنے کی بجائے ہمیں انہیں بھی Children with Disability میں شمار کرنا چاہیے اور ان کے دیگر ٹیسٹس کر کے ان کی جنس کا تعین کرنا چاہیے۔ جس طرح دوسرے ڈس ایبلز کی مین اسٹریمنگ (Mainstreaming) کے لیے ہم ان کا کارہائے زندگی میں کوٹہ مختص کرتے ہیں تو اسی طرح خنثیٰ (Intersex) کو بھی انہی کے ساتھ شمار کیا جانا چاہیے۔

میرے نزدیک Intersex لوگوں کی اس سے بہتر مین اسٹریمنگ (Mainstreaming) اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ جب آپ انہیں ایک تیسرا اقلیتی گروپ قرار دے کر مین اسٹریم سے الگ کرتے ہیں تو یہ امتیاز اُن کی نفسیاتی کیفیت اور سماجی حالت پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

خالق کی تقسیم بہت سادہ اور باقصد ہے۔ اللہ  نے انسانوں میں فرق صرف ظاہری جنس تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ یہ حیاتیاتی فرق (Biological Differences) مرد و عورت کی نفسیات پر بھی اپنے اثرات چھوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرد و عورت کے اعصاب کا فرق آپ کو بچوں میں کھیلوں کی چوائس میں بھی فرق ڈالتا نظر آتا ہے۔ دماغی ساخت کا فرق آپ کو مرد اور عورت میں سوچنے، استدلال کرنے اور جذباتیت کے فرق کی صورت میں اپنا اثر ڈالتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح ہارمونز کے توازن کا فرق مردوں اور عورتوں کے موڈ اور رجحانات پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔

اسی طرح دنیا کے تمام حصوں میں ہوئی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ مردوں میں ایک سے زائد پارٹنر کی خواہش پائی جاتی ہے (جس کی وجہ Testosterone Hormone کی زیادہ مقدار بتائی جاتی ہے) اور اس کے برعکس عورتوں میں سنگل پارٹنر کی خواہش زیادہ پائی جاتی ہے۔

انسانوں میں خنثیٰ (Intersex) کی الگ کیٹیگری کا بنانا دراصل تمدنی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اسے خالق کی طرف attribute کرنا درست نہیں۔ انسانوں نے جب ظاہری جنسی اعضاء میں کسی کو خود (Mainstream) سے الگ دیکھا تو اسے خود سے الگ تسلیم کرتے ہوئے ایک الگ اقلیتی کیٹیگری تخلیق کر کے اُس میں شامل کر دیا۔ یہ تقسیم (Classification) درست نہیں تھی۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا الزام یا سزا بھی اسے ہی دی جانا چاہیے۔ انسانی دانش کے خلل کو مذہب کے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ اپنی بدپرہیزی کی وجہ سے بیمار ہو کر اپنی بیماری کا ذمہ دار اللہ کو قرار دینے لگیں۔

اسی طرح سماجی ارتقاء کے کسی مرحلے میں انسانوں نے اگر کوئی غلط تقسیم خود سے پیدا کر لی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی اسے خود لینا چاہیے۔ جس طرح کسی انسان میں پیدا ہونے والی بیماری کو ایک مسئلہ سمجھ کر اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح کسی سماجی بیماری یا خرابی کو بھی مسئلہ سمجھ کر اس کا علاج یا تدارک کرنا چاہیے۔ اگر کسی شخص کو خدانخواستہ کوئی مرض لاحق ہو جائے تو معقول رویہ یہ ہو گا کہ اسے مسئلہ سمجھ کر اس کے علاج کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے برعکس نامعقول رویہ یہ ہو گا کہ اس مرض کے علاج کی بجائے ایسے مرض میں مبتلا لوگوں کو ایک الگ کیٹیگری میں ڈال کر مین اسٹریم سے الگ کر کے اچھوت بنا دیا جائے۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کوئی بھی فرد یا گروہ جب مین اسٹریم سے الگ ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے تو اس فرد یا گروہ کی نفسیات بھی مین اسٹریم سے مختلف ہو جاتی ہے۔ تقسیم کی غلط بنیاد کو رد کیے بغیر آپ انہیں مین اسٹریم کا حصہ بنانے کے لیے جتنی بھی قانون سازی کر لیں وہ تمام کوشش محض کاسمیٹک (Cosmetic) نوعیت کی ہی رہے گی۔ قانون اگر سماجی اقدار اور روایات سے متصادم ہو تو بے اثر ہو جاتا ہے۔ معاشرتی مساوات کے لیے کی جانے والی تمام تر قانون سازیوں کے باوجود بھی کیا امریکی اور یورپی معاشروں میں گورے اور کالے کا فرق ختم ہو پایا ہے؟ کیا ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں اور مراعات میں فرق ایک اہم قابلِ بحث موضوع نہیں؟

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمدنی ارتقاء کی اس ٹھوکر کو غلطی تسلیم کر کے دوبارہ اس تقسیم (Classification) کی طرف جایا جائے جو خالق (اللہ) نے تخلیق کی تھی۔ یعنی اللٰہ نے انسان صرف دو طرح کے پیدا کیے ہیں، مرد اور عورت۔ اور اگر کسی حیاتیاتی نقص یا ماحولیاتی اثر (Environmental Influence) کی وجہ سے کسی مرد یا عورت میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے تو اس کا علاج کیا جائے اور اگر علاج ممکن نہیں تو انہیں Men or women with disability میں شمار کیا جائے۔ سماج کی تربیت کی جائے کہ خصوصی توجہ کے طالب افراد کو خود سے الگ کرنے یا دھتکارنے کی بجائے گلے سے لگایا جائے۔

جہاں سماجی ارتقاء میں ایک ٹھوکر یہ کھائی گئی کہ انسانوں کی جنسی بنیادوں پر تین کیٹیگریز تخلیق کی گئیں وہاں ایک اور غلطی یا فساد بھی توجہ طلب ہے۔ وہ غلطی یہ ہے کہ انسانوں کی تقسیم (Classification) جنس (Sex) کی بجائے اُن کی نفسیاتی کیفیت (Gender) کی بنیاد پر کر دی گئی یا کرنے کی کوشش کی جار رہی ہے۔ یہ فساد پہلے فساد (Intersex) سے زیادہ بڑا اور گھمبیر ہے۔ یہ فساد انسانوں کو تقسیم در تقسیم کر کے انسانی تمدن اور معاشرت کی جڑ اکھاڑ دینے والا فساد ہے۔ اس فساد کی روح انسان کا تصورِ حاکمیت ہے۔ یعنی انسان خود کو اللہ  کا فرمانبردار اور مطیع سمجھنے کی بجائے خود کو آزاد اور اپنے وجود کا حاکم تصور کرنے لگے۔ یعنی انسان فطری تخلیق کے برعکس اپنی مرضی کرنے لگے اور اپنے اندر پیدا ہوئی تخریب کو بنیاد بنا کر اپنی فطری تخلیق ہے بدل ڈالے۔

اللہ نے انسانوں کو مرد یا عورت بنایا اور سماجی امن اور ترقی کے لیے اُن میں ذمہ داریاں بھی تقسیم کر دیں جسے ہم  Division of labour کہتے ہیں۔ ذمہ داریوں کی یہ تقسیم مردوں اور عورتوں کی ذہنی و جسمانی ساخت کے مشترکہ فرق کی بنیاد پر کی گئی۔ انسانی تمدن کی تاریخ میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حقوق اور فرائض کی تقسیم ہمیشہ سے ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی ہو یا اجتماعی دانش، اس مسئلے کے حل میں انسان آج تک ٹھوکریں ہی کھا رہا ہے۔ اگر آپ مردوں کو حقوق و فرائض کے تعین کا حق دیں گے تو لامحالہ حقوق کا پلڑا مردوں کے حق میں بھاری ہو گا اور فرائض کا بوجھ عورتوں پر زیادہ ڈال دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر عورتوں کو حقوق و فرائض کے تعین کا حق دیں گے تو لامحالہ حقوق کا پلڑا عورتوں کے حق میں بھاری ہو گا اور فرائض کا پلڑا مردوں کی طرف بھاری کر دیا جائے گا۔ اس لیے تمدنی ارتقاء کی اس سیڑھی پر چڑھنے کے لیے انسانی دانش عاجز ہے اور کسی ایسی ہستی کی محتاج ہے جو اِن دونوں میں حقوق اور فرائض کا توازن قائم کر سکے۔ اور وہ ہستی اللہ  کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہی اِن دونوں (مرد و عورت) کا خالق ہے۔ ان کی جسمانی و نفسیاتی حرکیات سے اللہ سے زیادہ کوئی واقف نہیں ہو سکتا۔

اس نئی تقسیم (Classification) میں نیک نیتی یا حقیقت الامری کی بجائے بدنیتی کارفرما نظر آتی ہے۔ میں شروع میں ہی تمہیداً بیان کر چکا ہوں کہ ذہنی ساخت کے لحاظ سے جتنے انسان روئے ارضی پر موجود ہیں اُتنی ہی انسانوں کی قسمیں ہیں۔ تو ذہنی ساخت یا کیفیت کی بنیاد پر تو انسانوں کی تقسیم (Classification) ممکن ہی نہیں۔ اگر ذہنی کیفیت کو تقسیم کا معیار مان لیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ اس بنیاد پر تقسیم صرف جینڈر (Gender) تک ہی محدود رکھی گئی؟

ہر انسان اپنے ارتقاء کی مختلف اسٹیجز پر مختلف قسم کی ذہنی کیفیات سے گزرتا ہے۔ تو کیا پھر اس کی شناخت کو غیر حتمی (Fluid) مان لینا چاہئیے؟ اگر کسی شخص کو اپنے عظیم ہونے کا خبط (Delusion of grandiosity) لاحق ہو جائے تو آپ اس شخص کی اس ذہنی کیفیت کو حقیقت مان کر ملک کا سربراہ کیوں نہیں بنا دیتے؟ اگر کوئی شخص Schizophrenia کے مرض میں مبتلا ہو اور دعویٰ کرے کہ مجھ پر ملائکہ وحی لاتے ہیں تو اس شخص کی اس ذہنی کیفیت کو قبول کر کے اسے نبی یا ولی اللہ  کیوں نہیں مان لیتے؟ یقیناً ہمارا جواب یہی ہو گا کہ وہ شخص ایک نارمل انسان نہیں، اسے علاج کی ضرورت ہے۔ تو جب جینڈر کا معاملہ آتا ہے اور ایک شخص بیان کرے کہ میں پیدا تو مرد ہوا تھا لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے اندر عورتوں والے رجحانات اور خصوصیات پائی جاتی ہیں تو ایسے فرد کے علاج کی بجائے اس کے دعوے کو قبول کیوں کر لیا جاتا ہے؟ انسانی عقل اس معاملے میں مفلوج کیوں ہو جاتی ہے؟

اسی طرح معاشرتی بے راہ روی کے کئی اور دروازے بھی اسی تصور سے کھلتے ہیں۔ قانون ہمیشہ ظاہر کی بنیاد پر بنا کرتے ہیں۔ اس جدید تصور نے تو اس آفاقی اصول کو ہی الٹ کر رکھ دیا ہے کہ یہاں قانون سازی کسی کی باطنی کیفیت کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ ہر اصول یا قانون کی کچھ فروعیات اور مضمرات ہوتے ہیں جو بظاہر قانون یا اصول میں نظر نہیں آتے لیکن جب اس قانون یا اصول کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس میں چھپے مضمرات خود بخود ایک چیلنج بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔ جب آپ اصول کو قبول کر چکے ہوں گے تو پھر لامحالہ آپ کو بعد میں ظاہر ہونے والے مضمرات کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً جب آپ اصولی طور پر کسی فرد کو یہ اجازت دے دیں گے کہ وہ اپنی باطنی کیفیت کی بنیاد پر خود کو عورت سے مرد ڈکلئیر کر سکتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والے قانونِ وراثت اور ہم جنس پرستی جیسے معاشرتی مسائل کا کیا حل نکالیں گے؟ یقیناً اگلی اسٹیج پر آپ کو ان مسائل کو بھی حقیقت مان کر انہیں قبول کرنا پڑے گا اور اُن کے مطابق قانون سازی بھی کرنا پڑے گی۔

خاندان معاشرے کی سب سے بنیادی اکائی ہے۔ جب ہم جنس پرستی اور Same sex marriage جیسی اخلاقی برائیوں کو قانونی جواز اور تحفظ حاصل ہو جائے گا تو خاندان کا ادارہ قائم رکھنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے پھر؟

علمِ نفسیات میں ہوئی جدید تحقیقات یہ بتا رہی ہیں کہ انسان کا جینڈر (Perceived Self) پیدائشی طور پر اس کی جنس کے ساتھ ہی ودیعت شدہ ہوتا ہے۔ آپ کو گوگل پر ایسی بہت سی ریسرچز مل جائیں گی جن میں خنثیٰ (Intersex) کی ڈویلپمنٹ کا مطالعہ کیا گیا اور پتہ چلا کہ پیدائش کے وقت جس بھی خنثیٰ مرد یا عورت کو اپنی جنسی تخلیق کے متضاد شناخت دی گئی اُس نے کچھ عرصے بعد اپنی اس عطا کردہ شناخت کو ترک کر کے اپنی پیدائشی شناخت کو دوبارہ اختیار کر لیا (جس کی بنیاد جنس تھی)۔ یہ جدید تحقیق اس فلسفے کو باطل ثابت کر رہی ہیں جس میں جینڈر کی شناخت (Gender Identity) کو سماجی اختراع قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ ہم اپنے جینڈر کی شناخت معاشرہ یا ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تمام بحث کو سامنے رکھ کر اگر سورۃ النساء کی آیت نمبر 118 اور 119 کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ کتنا گھناؤنا شیطانی پلان ہے۔ شیطان نے اللہ  کو چیلنج دیا تھا کہ میں تیرے بندوں کا ایک مخصوص حصہ اپنے پیچھے لگا کر رہوں گا، انہیں بہکاؤں گا اور آرزوؤں میں الجھاؤں گا، اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت کو بدلیں گے۔ جب آپ جینڈر کی بنیاد پر تقسیم کے معیار کو قبول کریں گے تو اس فساد سے ایک حتمی نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ ایک شخص اپنی ذہنی کیفیت (Perceived Identity) کو بنیاد بنا کر اپنی جسمانی ساخت کو بھی بدلنے کا تقاضا کرے گا۔ لہٰذا معاشرے کے ذہین اور تعلیم یافتہ لوگوں کو آگے آنا چاہیے اور اس تمدنی فساد کے آگے پُل باندھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ تاریخِ انسانی کا اتنا بڑا فساد ہے کہ محض ساٹھ ستر برس میں اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے فورم سے نوعِ انسانی کی سوشل انجینئرنگ کا پروگرام لانچ کیا گیا ہے اور انسانی آزادی کے کا لیبل لگا کر نوعِ انسانی کو اس فتنے کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ  نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ اسے روح اور شعور کی امتیازی خصوصیات سے بہرہ ور کیا ہے۔ یہ محض حیوان نہیں۔ اصحابِ علم و دانش اور منبر و محراب پر بیٹھے علماء کو اس فتنے کی شدت اور گہرائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور پھر اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے لوگوں کی تربیت اور آگاہی کی مہم چلائیں تاکہ نوعِ انسانی اس تمدنی فتنے سے محفوظ ہو سکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply