• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکہ کا پاکستان پر عمران خان کو ہٹانے کیلئے دباؤ(قسط1)-مترجم:آفتاب اعوان

امریکہ کا پاکستان پر عمران خان کو ہٹانے کیلئے دباؤ(قسط1)-مترجم:آفتاب اعوان

پاکستانی سفارت خانے کی خفیہ دستاویزات

 

 

 

 

دی انٹرسیپٹ نے پاکستانی حکومت کی ایک خفیہ دستاویز حاصل کی ہے جس کے مطابق، یوکرین پر روسی حملے کے معاملے پر غیرجانبداری دکھانے پر امریکی محکمہ خارجہ نے 7 مارچ 2022 میں ہونے والی ایک میٹنگ میں پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

امریکہ میں پاکستانی سفیر اور محکمہ خارجہ کے دو عہدیداروں کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات گزشتہ ڈیڑھ سال سے پاکستان میں شدید جانچ پڑتال، تنازع  اور قیاس آرائیوں کا موضوع رہی ہے، کیونکہ اس درمیان خان کے حامیوں اور ان کے فوجی اور سویلین مخالفین کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی چلتی رہی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت میں 5 اگست کو اس وقت مزید اضافہ ہوا جب عمران خان کو بدعنوانی کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور انہیں ان کی معزولی کے بعد دوسری بار حراست میں لے لیا گیا۔ خان کے حمایتی ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اس سزا نے پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان عمران خان کو اس سال کے آخر میں پاکستان میں ہونے والے متوقع انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے افسران کے ساتھ ہونے والی اس میٹنگ، جس کا ان دستاویزات میں ذکر ہے، کے ایک ماہ بعد پاکستانی پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے نکال دیا گیا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس عدم اعتماد کو پاکستان کی طاقتور فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس وقت سے لے کر اب تک عمران خان اور ان کے ساتھی فوج اور اس کے سویلین اتحادیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے امریکی اشارے پر ان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ساز باز کی۔

پاکستانی مراسلے کا متن، جو سفیر کی میٹنگ کے بعد تیار کیا گیا تھا اور پاکستان بھیجا گیا تھا، آج سے پہلے کہیں شائع نہیں کیا گیا۔اس مراسلے، جسے اندرونی طور پر “سائفر” کے نام سے جانا جاتا ہے، میں امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے دباؤ کی غرض سے دی گئی دھمکیوں اور مراعات دونوں کا ذکر ہے۔ اس میں یہ وعدہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو امریکا کے ساتھ گرمجوشی سے تعلقات ممکن ہوں گے اور یہ دھمکی بھی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

“خفیہ” کے لیبل والی اس دستاویز میں محکمہ خارجہ کے عہدیداروں بشمول جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونالڈ لو اور اسد مجید خان (جو ان دنوں امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے) کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیل شامل ہے۔ انٹرسیپٹ کو یہ دستاویز پاکستانی فوج کے گمنام ذریعے سے حاصل ہوئی ہے۔ جس کا  کہنا تھا کہ ان کا عمران خان یا خان کی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذیل میں انٹرسیپٹ اس مراسلے کا متن شائع کر رہا ہے، متن میں ٹائپنگ کی معمولی غلطیوں کو درست کر دیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کی تفصیلات سے دستاویزات کو واٹر مارک کیا سکتا ہے اور ان کو ٹریک کیا جا سکتا ہے۔

انٹرسیپٹ کی حاصل کردہ دستاویز کا مواد پاکستانی اخبار ڈان کی رپورٹ اور دوسری جگہوں پر شائع ہونے والی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں مراسلے کی تفصیل اور میٹنگ کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مراسلے میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کی جن حرکیات کا ذکر کیا گیا ہے ان کی تصدیق بعد میں پیش آنے والے واقعات سے بھی ہوتی ہے۔ اس مراسلے میں امریکہ کی طرف سے یوکرین جنگ سے متعلق عمران خان کی خارجہ پالیسی پر اعتراض کیا گیا ہے۔ تاہم عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد صورت حال الٹ گئی اور جیسا کہ میٹنگ میں وعدہ کیا گیا تھا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد گرمجوشی پیدا ہو گئی تھی۔

یہ سفارتی میٹنگ روس کے یوکرین کے حملے کے دو ہفتے بعد ہوئی تھی جو کہ عمران خان کے روس کے اس دورے کے درمیان کیا گیا تھا جس نے واشنگٹن کو اشتعال دلا دیا تھا۔

میٹنگ سے کچھ ہی دن پہلے، دو مارچ کو سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی سماعت کے دوران ڈونلڈ لو سے یوکرین تنازعے میں انڈیا، پاکستان اور سری لنکا کی غیر جانبداری پر سوال پوچھے گئے تھے۔ سینٹر کرس ہولن نے پچھلے ہی دنوں کیئے گئے پاکستانی فیصلے کے بارے میں سوال پوچھا جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف مذمتی قرارد داد کے حق میں ووٹ ڈالنے کی بجائے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پر لو نے کہا “وزیر اعظم عمران  خان نے حال ہی میں ماسکو کا دورہ کیا ہے۔ اور میرا یہ خیال ہے کہ ہم ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم کو کس طرح انگیج کیا جائے۔ وان ہولن اس بات پر ناراض نظر آئے کہ محکمہ خارجہ کے اہلکار اس معاملے کے بارے میں خان سے رابطے میں نہیں تھے۔

اس میٹنگ سے ایک دن پہلے عمران خان نے ایک جلسے سے خطاب کرتے یوروپین یونین کے ان مطالبات کا براہ راست جواب دیا تھا کہ پاکستان یوکرین کا ساتھ دے۔ عمران خان نے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” کیا ہم تمھارے غلام ہیں؟ تم ہمیں سمجھتے کیا ہو کہ ہم تمھارے غلام ہیں اور جو تم کہو گے ہم وہی کریں گے۔” اس نے تقریر میں مزید کہا کہ ہم روس کے بھی دوست ہیں اور امریکا کے بھی۔ ہم چین کے دوست بھی ہیں اور یورپ کے بھی۔ ہم کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔”
دستاویز کے مطابق، اس ملاقات میں لو نے واضح الفاظ میں تنازع سے متعلق پاکستان کے موقف پر واشنگٹن کی ناراضگی کے بارے میں بات کی۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ لو نے کہا ’’یہاں اور یورپ میں لوگ اس بات پر کافی ناخوش ہیں کہ (اگر ایسا کوئی مؤقف ممکن بھی ہے تو) پاکستان یوکرین کے معاملے میں اس قدر جارحانہ طور پر غیر جانبدارانہ موقف کیوں اختیار کر رہا ہے۔ ہمیں تو یہ کوئی اتنا غیر جانبدارانہ موقف نہیں لگتا۔” لو نے مزید کہا کہ انہوں نے اس موضوع پر امریکی قومی سلامتی کونسل کے ساتھ بات چیت کی ہے اور یہ کہ ” بظاہر تو یہ بات بالکل واضح لگتی ہے کہ یہ کسی اور نہیں صرف وزیر اعظم کی پالیسی ہے”۔

اس کے بعد لو بڑے دو ٹوک انداز میں عدم اعتماد کے ووٹ کا مسئلہ اٹھاتے ہیں: “میرے خیال میں اگر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جاتا ہے، تو واشنگٹن میں سب کچھ معاف کر دیا جائے گا کیونکہ روس کے دورے کو وزیر اعظم کے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔” دستاویز کے مطابق لو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ، “وگرنہ مجھے لگتا ہے کہ آگے کافی مشکلات پیش آئیں گی۔”

لو نے مزید خبردار کیا کہ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پاکستان اپنے یورپی اتحادیوں کی جانب سے تنہائی کا شکار کر دیا جائے گا۔ “میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملے کو یورپ کس طرح دیکھے گا مگر مجھے اندازہ ہے کہ ان کا رد عمل بھی ہماری طرح کا ہی ہو گا” لو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان آفس میں یعنی وزیر اعظم رہا تو اسے یورپ اور امریکہ کی طرف تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے پاکستانی مراسلے میں لکھی گئے لو کے الفاظ کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، “ان مبینہ کمنٹس سے کہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ امریکہ اس معاملے میں کوئی مؤقف دے رہا ہے یا کوئی پوزیشن اختیار کر رہا ہے کہ پاکستان کا لیڈر کون ہونا چاہیے” ملر نے یہ بھی کہا وہ نجی سفارتی گفتگو پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

لو کی ان باتوں کے جواب میں پاکستانی سفیر نے امریکی قیادت کی جانب سے پاکستان کو انگیج نہ کرنے پر  اپنی فرسٹریشن کا اظہار کیا اور کہا کہ “رابطے کرنے میں اس ہچکچاہٹ سے پاکستان میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ہماری بالکل قدر نہیں کی جا رہی۔ پاکستان میں یہ احساس پایا جا رہا ہے کہ امریکہ خود تو پاکستان سے ان معاملات میں سپورٹ کی توقع کرتا ہے جو کہ امریکہ کے لیے اہم ہوں مگر اس کے بدلے میں ہمیں کوئی سپورٹ نہیں کی جاتی۔”

دستاویز کے مطابق پاکستانی سفیر نے گفتگو کا اختتام اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کیا کہ روس یوکرین جنگ کا مسئلہ “ہمارے دو طرفہ تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا۔” اس کے جواب میں لو نے انہیں کہا کہ ان تعلقات کو حقیقی نقصان پہنچ چکا ہے مگر یہ نقصان ناقابل تلافی نہیں اور یہ کہ خان کے جانے کے بعد تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔ “میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہمارے نقطہ نظر سے اس معاملے نے پہلے ہی ہمارے تعلقات میں کافی خرابی پیدا کر دی ہے۔” لو نے پاکستان میں “سیاسی صورتحال” کے معاملے کو دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ “چند دن انتظار کر کے دیکھتے ہیں کہ آیا پاکستان میں سیاسی حالات بدلتے ہیں یا نہیں، اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس معاملے پر ہمارا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہوگا اور یہ کہ نقصانات کو لگنے والا ڈینٹ بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں ہمیں اس مسئلے کا غور سے جائزہ لینا پڑے گا اور فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس کا کیا بندوبست کیا جائے۔”

اس میٹنگ کے اگلے ہی دن آٹھ مارچ کو پارلیمنٹ میں خان کے مخالفین نے عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دی جو کہ عدم اعتماد کے ووٹ کا اہم قانونی مرحلہ ہوتا ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک نان ریذیڈنٹ اسکالر اور پاکستانی امور کے ماہر عارف رفیق   کہتے ہیں کہ، “اس ملاقات کے وقت خان کی حکومت کی قسمت پر مہر نہیں لگائی گئی تھی، لیکن اب یہ ایک کچے دھاگے سے بندھی تھی۔ اس دستاویز کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ بائیڈن ایڈمنسٹریشن ان لوگوں کو جنہیں وہ پاکستان کا حقیقی حکمران سمجھتی تھی پیغام بھیج رہی ہے اور انہیں اشارہ دے رہی ہے کہ اگر عمران کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ”

انٹرسیپٹ نے دستاویز کی تصدیق کے لیے ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔ پاکستان میں سیکورٹی کے ماحول کو دیکھتے ہوئے، پاکستانی حکومت کے ذرائع سے اس دستاویز کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے کہا کہ، “ہم نے یوکرین پر روس کے حملے کے دن، اس وقت کے وزیر اعظم خان کے ماسکو کے دورے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس تشویش کو عوامی اور نجی دونوں سطح پر ان تک پہنچایا تھا۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ “امریکہ کی جانب سے پاکستان کی قیادت کے بارے میں اندرونی فیصلوں میں مداخلت کے الزامات غلط ہیں۔ وہ ہمیشہ سے غلط تھے اور اب بھی غلط ہیں۔”

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

https://theintercept.com/2023/08/09/imran-khan-pakistan-cypher-ukraine-russia/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply