ذہانت (13) ۔ ڈیٹا اور قانون/وہاراامباکر

دنیا بھر میں لوگوں کے پاس عالمی رابطے کا نیٹورک ہے۔ ہر طرح کے علم تک رسائی ہے۔ دنیا بھر سے تازہ ترین خبریں آپ تک چشم زدن میں پہنچ جاتی ہیں۔ سافٹ وئیر اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین ایجادات سے لامحدود فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور صارفین کے لئے یہ سب مفت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب نجی اداروں نے بنایا ہے۔ اس کی قیمت اشتہاروں سے ادا ہوتی ہے۔ اور دنیا بھر کو فائدہ دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کا یہ ماڈل ہے اور ہم سب اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ آپ اپنے ڈیٹا کے عوض یہ مفت کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ سے منافع کمایا جا سکتا ہے اور آپ پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ یہ اس کی ڈیل ہے۔ کیپٹلزم کا بدترین اور بہترین ایک ہی ساتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اچھی ڈیل ہے۔ اور اس میں حرج نہیں۔ لیکن یہ اہم ہے کہ ہم ڈیٹا اکٹھا کرنے کے خطرات سے بھی باخبر رہیں۔ ڈیٹا کے یہ ڈھیر کیا کر سکتے ہیں، کیونکہ اس کہانی میں ایک یاسیت والا پہلو بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ ڈیٹا بروکر آپ کی تمام انفارمیشن کو ایک سکور میں دال دیتا ہے۔ اس میں آپ کو فون نمبر، گھر کا پتا، آپ کی خریداری وغیرہ تو ہے ہی لیکن آپ کا روزانہ کا مزاج بھی ہے۔ آپ کی سوشل میڈیا پوسٹ، آپ کا ٹیکسی سواری کا ڈیٹا، یہ ڈیٹا کہ آپ کس سے چیٹ کرتے ہیں اور کس سے ملاقات۔ اور اس کی بنا پر آپ کے ساتھ سکور لگا دیتے ہیں۔
اور یہ سائنس فکشن نہیں۔ چین کی کمپنی سیسمی کریڈٹ یہی کر رہی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر لی ینگ یون نے اپنے انٹرویو میں کہا، “فرض کیجئے کہ کوئی شخص دن میں دس گھنٹے ویڈیو گیم کھیل رہا ہے تو وہ کاہل ہے۔ اگر کوئی ڈائپر باقاعدگی کے معمول سے خریدتا ہے اس کا چھوٹا بچہ ہے اور وہ ذمہ دار ہے”۔
اگر آپ چین میں ہیں تو اس سکور کی اہمیت ہے۔ اگر آپ کی ریٹنگ 600 سے اوپر ہے تو آپ ایک سپیشل کریڈٹ کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ اگر 650 ہے تو آپ بغیر ڈیپازٹ دئے، گاڑی کو کرائے پر لے سکتے ہیں۔ اور بیجنگ ائیرپورٹ کی وی آئی پی لین استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر 750 سے اوپر ہے تو یورپ کے ویزہ کے لئے فاسٹ ٹریک کر دئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے یہ سکیم رضاکارانہ تھی تو یہ سب اچھا تھا۔ لیکن 2020 میں یہ سکورنگ سسٹم لازم کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں کے سکور کم ہیں، ان کی روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔ حکومت کی اپنی دستاویزات بتاتی ہیں کہ جرم کی سزا کی مقدار، کسی کو ملک چھوڑنے سے روک دئے جانے، ہوٹل بُک کروانے، جائیداد خریدنے سے لے کر قرض اور انشورنس لینے تک یہ سکور استعمال ہوتا ہے۔
علی بابا کی طرف سے بنائے گئے ایک سادہ loyalty پروگرام سے جنم لینے والی اس سکیم نے شہریوں کی نگرانی کی سمت پکڑ لی۔ یہ اب چینی حکومت کا سوشل کریڈٹ سسٹم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دوسری طرف، اس بارے میں آگاہی بہتر ہونے کا مطلب آئندہ کے بارے میں بہتر کی امید بھی دیتا ہے۔
ڈیٹا کی کمیونیٹی میں کئی لوگ بہت دیر سے الگورتھم کی پہنچ پر بندشیں لگانے کے لئے متحرک ہیں۔ قوانین بن رہے ہیں۔ اگر آپ یورپی یونین میں ہیں تو GDPR کا متعارف کردہ قانون اس پر قدغن لگاتا ہے کہ آپ کو بتائے بغیر آپ کے ڈیٹا کو کسی اور کام کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے سامنے جب کسی سائٹ پر شرائط کی تفصیلی فہرست آتی ہے تو ہم Okay کا بٹن دبا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر “ویب آف ٹرسٹ” کا پلگ ان اس تمام انفارمیشن کو کھلے عام سامنے رکھ دیتا تھا کہ وہ آپ کا کونسا ڈیٹا پکڑے گا اور اس کے ساتھ کیا کیا کچھ کرے گا لیکن اس کو سامنے رکھ دینے سے اس کے استعمال میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اور دوسرا یہ کہ انٹرنیٹ پر ریگولیشن پر عملدرآمد کروانا آسان نہیں۔ ڈیٹا کے تجزیے اور فروخت کا بہت سا کام پسِ پردہ سائے میں کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکنالوجی کی کمپنیاں، مختلف ممالک کی حکومتیں اب ڈیٹا کے خطرات سے خبردار ہو کر سافٹ وئیر اور قوانین میں ضروری تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ جس سے امید بنتی ہے کہ اس بارے میں خطرات سے بچا جا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب بھی ہم الگورتھم استعمال کریں تو ہمیں یہ سوال کرتے رہنا چاہیے۔ آخر یہ کر کیا رہا ہے؟ ہمیں یہ مفت میں کیوں دے رہا ہے؟ کیا یہ ایسا سودا ہے جس سے میں مطمئن ہوں؟ کیا اس کے بغیر رہا جا سکتا ہے؟
اور یہ صرف ورچوئل دنیا کی بات ہی نہیں۔ الگورتھم معاشرے کی ہر جگہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ڈیٹا اور الگورتھم نہ صرف ہماری خریداری کی پیشگوئی کر سکتے ہیں بلکہ ان کے پاس یہ طاقت بھی ہے کہ یہ ہماری آزادی چھین سکیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply