نئے امریکی صدر کا خطاب، پاکستانی رہنماؤں کے لیے سبق

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جيت کے بعد پہلی تقرير کی تو عام سوچ يہی تھی کہ ان کا فاتحانہ خطاب بھی انتخابی مہم کے دوران کی گفتگو کی طرح ہی طعن و تشنيع سے بھرپور ہوگا۔ ليکن ان کا خطاب بالکل ايک روايتی امريکی صدر کا ہی تھا۔ نئے امريکی رہنما نے بھی مدبرانہ انداز ميں بھی صرف قومی مفاد کی بات کی۔ کسی سياسی حريف کونہ لتاڑا اور نہ ہی ہارنے کے طعنے ديے اور سب سے بڑی بات يہ ہے کہ ہارنے والی ڈيموکريٹک اميدوار ہيلری کلنٹن نے بھی کھلے دل سے شکست تسليم کی ہے۔ کسی نے بھی اپنی ہار کی وجہ انتخابات ميں دھاندلی کو قرار نہيں ديا اور نہ ہی دھرنے کی دھمکی دی ہے۔ پچھلے چند ماہ ميں دو دھڑوں ميں تقسيم امریکی قوم دوبارہ يک جا ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ميں عام انتخابات ہوئے ساڑھے تين سال کا عرصہ گذرچکا ہے مگر ابھی تک نہ جيتنے والے اپنی جيت کے نشے سے نکلے ہيں اور نہ ہی ہارنے والوں کو شکست کے زخم بھولے ہيں۔ کبھي دھاندلی کے خلاف دھرنا تو کبھی پاناما ليکس اور نيوز ليکس، قومی سياست ميں ايک تلاطم ہے کہ رک نہيں رہا۔ قوم بھی حکومتی اور حزب اختلاف کے کيمپوں ميں بٹی نظر آتی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان ميں ملک کی ترقی کے لئے کام نہ تسلسل سے ہورہا ہے اور نہ ہی کوئی سياسی پختگی نظر آتی ہے۔

اس کی بنيادي وجہ ہمارا ماضی بھی ہے۔ قيام پاکستان کے بعد بھی ہمارے ہاں صرف اس شخص کو ہی ليڈر سمجھا جاتا ہے جو جيل گيا ہو۔ گويا قائداعظم کی آئينی جدوجہد کے نتيجے ميں بننے والے پاکستان ميں تبديلی کے لئے پرامن کوشش کی کوئی جگہ نہيں۔ سياسی تحريک بھی تب کامياب ہوتی ہے جب لاشيں گريں۔ گفتگو اور عمل پرتشدد نہ ہو تو کوئی سننے کو تيار نہيں ہوتا۔ نوابزادہ نصراللہ خان جيسے جيد سياستدان بھی زندگی بھر جيل جانے اور تحريک چلانے کی ہی بات کرتے رہے۔ سوائے 1970 کے انتخابات کے ، 1977 سے اب تک تمام انتخابات متنازعہ ہی رہے ہيں۔ جو جيتا اس نے انتخابی عمل کو شفاف قرار ديا جب کہ ہارنے والی جماعت نے نہ صرف نتائج کو مسترد کيا بلکہ تحريک چلانے کا اعلان بھی کيا جس کا نتيجہ ہميشہ جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کی صورت ميں ہی ملا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اتارنے کے لئے تحريک کے نتيجے ميں ملک کو ضياء الحق کی صورت ميں فوجی ڈکٹيٹر ملا۔ 1988 سے 1999 تک نواز شريف اور مرحومہ بے نظير بھٹو ايک دوسرے کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے مختلف اداروں کو ملوث کرتے رہے۔ آخرکار سياسی افراتفری کے خواب کی تعبير بھی ايک فوجی انقلاب کی صورت ميں ملی اور ايک طويل عرصے تک جنرل پرويز مشرف حکمران رہے۔ مملکت خداداد کے سياستدانوں نے ملک کی ستر سالہ تاريخ کے اتار چڑھاؤ سے بالکل نہيں سيکھا۔ اب بھی ايک دوسرے کی حکومت کے خلاف تحريکيں چلانے کا عمل چل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی متاثر ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے برعکس ہمارے ہمسايہ ملک ميں ايسا بہت کم ہوا ہے۔ احتجاج ضرور ہوتا ہے۔ مگر اس کا نتيجہ کسی فوجی مداخلت کی صورت ميں نہيں نکلا۔ بھارت يا سری لنکا ميں ابھی تک کوئی فوجی انقلاب نہيں آيا۔ اس کي وجہ صرف اور صرف سياست ميں انتہا پسندی نہ ہونا ہے۔ امريکہ کے علاوہ يورپ اورديگر ترقی يافتہ ممالک ميں بھی قومی مفاد ہی سب سے پہلی ترجيح ہوتا ہے۔ کوئی حکمران يا حزب اختلاف ہٹ دھرمی نہيں دکھاتے۔ يہی وجہ ہے کہ ان ممالک ميں اقتصادی، معاشرتی اور ديگر شعبوں ميں ترقی کا سلسلہ رکنے ميں نہيں آرہا۔ کاش لکير کی دونوں طرف سياست دان اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات کو بھلا کر صرف قومی مفاد کا ہی سوچيں تاکہ ہر مرتبہ جمہوريت کی بحالی کے لئے طويل جدوجہد نہ کرنی پڑے۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply