اِک مہم جو کی نفسیات ۔۔۔۔۔جاوید خان

مہم جوئی انسانی فطرت کاخاصا ہے۔کسی میں یہ کم ہوتی ہے کسی میں زیادہ۔تجسس اور پھرمثبت تجسس نے انسان کے لیے خلاؤں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔نیل آرمسٹرانگ عظیم شخص تھا جس نے چاندپر پہلا قدم رکھا۔اُس نے تمام عالم انسانیت کی طرف سے نمائندگی کی۔نانگاپربت،کے۔ٹو اورماونٹ ایورسٹ جیسے پہاڑوں کو سر کرنے والوں کی جدوجہد کے اپنے مقاصد اور شوق ہیں۔مہم جوؤں کے کارناموں سے تاریخ بھر ی پڑی ہے۔سکندر اعظم کے تکیے تلے ہومر کی اَوڈیسی اور ایلیڈ پڑی رہتی تھی۔ان رزمیوں میں کاٹ دار تلواروں کی جھنکار،سبک رفتار گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور سورماوں کی زور آزمائی ہے۔”ہیکتر“ اور ”اَخیلیوس“عظیم یدھا تھے۔ایک اپنے وطن کے دفاع کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے دوسرا ناموری کے لیے۔کوئی مانے یا نا مانے سکندر اعظم کی نس نس میں مہم جوئی بھرنے میں اُس کا وراثتی ماحول ہے اور ہومر کے تخلیقی رزمیے ہیں۔بھلا یونان کے اس مہان جوان کے سامنے،یونان کا تخت تھوڑا تھا،جو اس نے دنیا بھر میں اتھل پتھل مچا کر رکھ دی۔؟

آخر سکندر کے سامنے وہ کون سے مقاصد تھے۔؟نہ وہ کسی بڑے نظریاتی گروہ کانمائندہ تھا نا ہی مذہب کا ٹھکیے دار۔؟پھر اس کی فوجوں نے اتنے یدھ کیوں کیے۔؟اور اتنی قتل و غارت کیوں ہوئی۔؟ کوئی سکندر سے کیا پوچھے گا۔اسے ناموری چاہیے تھی وہ اسے مل گئی۔سوائے  ایک وسیع خطہ زمین کو فتح کرنے کے ہم سکندر کے نام کوئی بڑی کامیابی نہیں دیکھتے۔اہل فارس ٹرائے کی چھوٹی سی سلطنت پر چڑھ دوڑے اور وہاں کے جاں بازوں نے،جنھوں نے صرف لڑنے کے لیے جینا سیکھا تھا،فارسیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔آخری فتح کس کی ہوئی۔؟

تاریخ زیادہ تر فاتحین کو نہیں دیکھتی وہ یہ دیکھتی ہے کہ آپ کا درست موقع پر کیاہوا فیصلہ کتنا درست رہا۔مہابھارت بھی کوروں اور پانڈوں کے یدھ کا نقشہ کھینچتی ہے۔ارجن آخر دم تک اس بات سے ڈرتا ہے کہ و ہ کس کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔اس یدھ میں ارجن ایک ہیرو ہے۔اس کا کردار مثالی ہے۔وہ صرف مہم جو نہیں،وہ آخری دم تک اپنے بھائیوں پر ہتھیار اٹھانے سے ڈرتا ہے۔ارجن حق پر تھا فتح بھی اس کی ہوئی۔لِہٰذا تاریخ میں وہ قابل احترام ٹھہرا۔سکندر کے بارے میں تاریخ کی عدالت ابھی شاید گو مگو کی شکار ہے۔حتمی فیصلہ نہیں کر پائی۔سکندر اورارجن جس وقت لڑے تھے وہ وقت تلواروں،نیزوں اور ڈھالوں کا تھا۔آج ایک کے مقابلے میں دو مزائل ہیں۔ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ہیں۔کسی دو بدو جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ایک مزائل،ایک ایٹم اور صرف ایک ہائیڈروجن بم لاکھوں کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیں گے۔ ان انسانوں کا قصور صرف اتنا ہو گا کہ وہ اس عہد میں سانس لے رہے تھے۔ہاں اس کے بعد شاید نسل انسانی واپس پتھر سے پہلے کے دور سے آغاز کرے۔جو تلواراور ڈھال سے بہت پیچھے کا دور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاریخ میں جو ہیرو شیما ہو گزرے ہیں،وہ سخت تباہ کن تھے۔آنے والے وقت میں اگر کوئی مہم جو،کسی ایسے وقت کودعوت دے گاتو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے یہ وقت اس وقت سے کئی گنا آگے ہے۔ہیرو شیما اور ناگاساکی کے مہم جوؤں کو تاریخ اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتی۔اوراق آب دیدہ اور تابکار زدہ ہو جاتے ہیں۔دنیا میں اس وقت اہم حکومتوں پر فائز لوگوں کے مزاج میں مہم جوئی گردش کررہی ہے۔ایسے میں تیسری دنیا کے مہم جو پہلوان بھی لنگوٹی کس کر پھر میدان میں نظر آرہے ہیں۔جہاں کی عوام بنیادی سہولتوں کے لے ترس رہی ہے۔مگر حکمران ا نھیں مہم جوئی پر اکسا رہے ہیں۔تیسری دنیا کے عوام کے پاس زیادہ شعور بھی نہیں۔انھیں سکندر اورارجن سے زیادہ روٹی،کپڑے،صاف پانی اور گھرکی ضرورت ہے اور علاج کی بھی۔سکندر اعظم،ارجن،ابن قاسم اور طارق بن زیاد اپنے اپنے وقت کے ہیرو تھے۔وہ ان کا وقت تھا۔اس وقت مہم جوؤں کی نہیں دنیا کو ایک متوازن مزاج قیادت کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply