پاکستان میں صدارتی نظام کا فساد۔۔ارشد غزالی

1901 میں جیک ڈی مورگن کی قیادت میں فرانسیسی آثارِ  قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے ایران میں شوش شہر کی کھدائی کے دوران پتھر کی ایک سِل دریافت کی، جو  اَب پیرس کے مشہور زمانہ لوور میوزیم کی نچلی منزل پر ایستادہ ہے، آٹھ فٹ لمبی اور تین فٹ موٹی اس سِل کے بالائی حصے پر دیوتا مردوک تخت پر رونق افروز ہے اور اس کے سامنے بابل کا حکمران حمورابی دائیں ہاتھ سے سلام کرتے اور بایاں ہاتھ پیٹ پر رکھے ادب سے کھڑا نظر آتا ہے۔ مردوک دیوتا حمورابی کو قوانین کا مجموعہ عطا کر رہا ہے جو زیریں حصے پر عکادی زبان میں کنندہ ہیں یہ حمورابی کا ضابطہ قانون ہے جس کی 282 دفعات ہیں اگرچہ یہ پہلا ضابطہ قانون نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے آر کے بادشاہ ارنمو, ریاست اشنونا اور حمورابی کے پیش رو بادشاہ لپت استر کے بھی ضابطہ قانون دریافت ہو چکے ہیں، مگر حمورابی کا ضابطہ قانون ماضی کے ضابطوں سے کہیں زیادہ مکمل, واضح اور جامع تھا۔

کسی بھی ریاست کے امور کو چلانے کے لئے متعین کردہ قوانین کو آئین یا دستور کہا جاتا ہے، حمورابی کے قوانین سے میگنا کارٹا اور آئین پاکستان تک سب کا بنیادی مقصد ایک ایسے نظام کی تشکیل تھی جس کے ذریعے ریاست کو منظّم اور مربوط انداز میں چلایا جا سکے، نیز عوام النّاس کی فلاح و  بہبود کو مقدم رکھا جا سکے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی بحث زور و شور سے جاری ہے اور جن لوگوں کو صدارتی اور پارلیمانی نظام کی الف بے کا بھی علم نہیں وہ بھی اس معاملے میں اپنی دانشوری بگھارنے میں پیش پیش ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی یہ بحث اب گلی کوچوں تک پھیل چکی ہے اور لوگ واضح طور پر دو حصّوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔ ایک طبقہ موجودہ پارلیمانی نظام کے حق میں اور دوسرا صدارتی نظام کے حق میں اپنے اپنے دلائل دیتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ صدارتی نظام کی یہ بحث نئی نہیں ہے ،مگر اس بار اس میں کچھ زیادہ ہی شدت نظر آرہی ہے۔

اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ہاتھ سے لکھی ایک تحریر کا حوالہ بھی شدومد سے دیا جارہا ہے جو ماضی میں بھی کئی بار مستند اخبارات و جرائد کا حصہ بن چکی ہے جسے بانی پاکستان نے 10 جولائی 1947 کو تحریر کیا تھا۔ اس کے مندرجات درج ذیل ہیں۔
پارلیمانی طرز حکومت کے خطرات
1۔ پارلیمانی طرز ِحکومت : اس نے اب تک صرف انگلینڈ میں تسلی بخش طریقے سے کام کیا ہے کہیں اور نہیں۔
2۔ صدارتی طرزِ حکومت : (پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہوگی)

پاکستان بننے کے بعد انڈین ایکٹ 1935ء میں ترامیم کر کے اسے عبوری آئین کے طور پر تسلیم کر لیا گیا جس میں اگرچہ وزیراعظم اور کابینہ بااختیار تھے مگر قائداعظم چونکہ پاکستان کے بانی اور پہلے گورنرجنرل پاکستان تھے لہٰذا کابینہ نے اپنے اختیارات ان کو تفویض کر دئیے. پاکستان میں 1956ء پھر 1962ء میں آئین بنے، مگر موجودہ آئین 1973میں نافذ ہوا جس میں اب تک بہت سی ترامیم کی جاچکی ہیں۔

پاکستان میں ایوب خان, ضیاء الحق یا پرویزمشرف کے ادوار کو بھی صدارتی نظام کہا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدور نہیں تھے بلکہ فوجی سربراہان تھے جنہوں نے طاقت کے زور پر خود کو صدر ڈکلیئر کیا تھا۔ اگرچہ ایوب خان کے دور میں سپارکو, سوئی ناردن گیس کمپنی, منگلا اور تربیلا ڈیم بنے۔ پاکستان نے پہلی بار آٹو موبائل, آئل ریفائنری اور سیمنٹ کی انڈسٹری میں قدم رکھا ،نیز پاکستان کے اہم ترین بیراج ، ہیڈورکس اور نہریں بنائی گئیں، جب کہ مشرف دور بھی معاشی ترقی, سرمایہ کاری اور روزگار کے حوالے سے بہتر رہا مگر یہ تمام فوجی حکمران چونکہ عوامی منتخب نمائندے نہیں تھے ،نہ ہی ان کی صدارتی مدت معیاد حتمی تھی ،نہ  وہ ایوان سمیت کسی کے سامنے جواب دہ تھے ،اس لئے انھوں نے بہت سے غلط فیصلے اور پالیسیاں عوام پر مسلط کیں جن کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑا۔

امریت کے ادوار کےمقابلے میں اگر صرف 1988ء سے 1999ء اور پھر 2008ء سے 2022ء تک کے پارلیمانی دور کا جائزہ لیں تو یہ عمومی طور پر محاذ آرائی، بدانتظامی, معاشی بدحالی, میگا کرپشن سکینڈلز، بیڈ گورننس, لاقانونیت، بے انتہا بیرونی قرضے، غربت, بیروزگاری, نااہلی, اوراقرباء پروری کی صورت ہم پر مسلط رہا جس میں تحریک انصاف کی حکومت انے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ائی  اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب نمائندے صرف طاقت, جوڑ توڑ اور پیسے کے بل پر منتخب ہوتے ہیں مگر استعداد، اہلیت اور مہارت سے عاری ہوتے ہیں نیز یہ لوگ ترقیاتی فنڈ سے لے کر وزارتوں تک ہر جگہ وزیراعظم کو بلیک میل کرتے ہیں اور ان کا مقصد عوام کی بھلائی کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنا ہوتا ہے اس نظام کے حامی بھی وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں اس نظام کے بینیفشری ہیں خواہ سیاسی پارٹیاں ہوں, میڈیا ہو,بیوروکریسی ہو یا دیگر ریاستی ادارے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ صدارتی نظام کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے جس کے لئے اکثریت موجودہ حکومت کے پاس موجود نہیں مگرکسی طور ایسا ممکن ہوجائے تو صدر کا براہ راست انتخاب کیا جائےاور اسے کابینہ سازی کا اختیاردیا جائے نیز وزراء کے لئےوزارت کے تقاضوں کے مطابق اہلیت اور معیار مقرر کیا جائے۔ صدر پارلیمنٹ کوجواب دہ ہو جومتناسب نمائندگی کے اصول پر منتخب کی جائے۔مقامی اور ضلعی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے تاکہ عوامی مسائل بہتر طور پر حل کئے جاسکیں۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply