• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو اپنی صفائی کے موقع سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے/ڈاکٹر ابرار ماجد

جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو اپنی صفائی کے موقع سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے/ڈاکٹر ابرار ماجد

جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اس عہدے پر کام نہیں کر سکتے۔

انہوں نے اپنے استعفے میں بحیثیت جج لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ اپنی خدمات کو اپنے لئے اعزاز سمجھا ہے جن میں سے ایک اعزاز بحیثیت ممبر بنچ لاہور ہائیکورٹ، جس میں پرویز مشرف کی سزا کو ہی ختم نہیں کیا گیا تھا بلکہ اپنی ہم رتبہ عدالت کو بھی ختم کر دیا گیا تھا، بھی ہے جس کی عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اور کیا حسین اتفاق ہے کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا فیصلہ بھی ان کے استعفیٰ کے دن ہی آیا ہے جس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سپیشل کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا گیا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے ایسے حالات جو عوام کے علم اور ریکارڈ پر ہیں ،کی طرف اشارہ دیتے ہوئے مجبوری اور تحفظات کے تحت کام جاری رکھنے کو نا ممکن کہا ہے۔ جن سے اس بات کا تاثر مل رہا ہے کہ شائد، جیسا کہ وہ اپنے کونسل کو شو کاز نوٹسز کے جوابات میں بھی اظہار کرتے رہے ہیں، انہوں نے اپنے خلاف کاروائی کی شفافیت اور غیر جانبداری سے مایوس ہوکر استعفیٰ دیا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے کونسل میں اپنی کاروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا تھا جس میں کونسل کے ممبران کے اپنے بارے تعصب کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کاروائی کو روکنے کی استدعا کی تھی، جو کل استعفے کے دن ہی مسترد کی گئی ہے جس میں جسٹس اعجاز الحسن نے اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کی تھی اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کی سپریم کورٹ میں درخواستوں کو سننے والے بنچ بارے اپنے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا کہ بنچ کی تشکیل میں ان سے مشورہ نہیں لیا گیا ۔جس کے جواب میں قاضی فائز عیسیٰ نے ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے رابطہ کیا اور معلوم ہوا کہ وہ جمعہ کو لاہور کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ ان کے تحفظات دور کرنے کے ساتھ ان کی اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ ہم سپریم کورٹ میں ساڑھے چار دن نہیں بلکہ چھ دن کام کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔

چونکہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں اس لئے ان کو اپنے خلاف کاروائی کے جاری رہنے سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا بلکہ میں سمجھتا ہوں  کہ  ان کے اس موقف کے تحت ان کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ان درخواستوں کے خلاف ان کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنی بے گناہی کو ثابت کرکے اپنی ساکھ اور خدمت کے اعزاز کو بحال رکھ سکیں۔ اور ججز کے کوڈ آف مس کنڈکٹ کے آرٹیکل 2 میں دیے گئے ” ٹروتھ فُل آف ٹَنگ” اور “فیتھ فُل ٹو ہِز ورڈ” کے الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے۔

انصاف کے اصولوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کوڈ کے تحت انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ جہاں کئی آئینی تشریحات کو درست کر چکی ہے وہاں آرٹیکل 209 کی تشریح کو بھی ججز کی ریٹائرمنٹ کی نسبت سے اس کے اطلاق کو ٹھیک طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر جج اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائے تو اس پر آئین کے آرٹیکل 209 کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس کے موجودہ اطلاق سے کونسل بارے عوام اور قانونی حلقوں کے اندر پائے جانے والے شکوک و شبہات سے کونسل کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔

اگر جج کے خلاف بدعنوانی یا کسی مس کنڈکٹ کی شکایات ، صدارتی ریفرنس یا کونسل کی طرف سے سوؤموٹو اختیارات کے تحت کاروائی کا آغاز استعفے یا ریٹائرمنٹ سے پہلے ہوجائے تو پھر اس کے عمل میں رکاوٹ کا عمل شعور اور انصاف کے تقاضوں کے بر عکس دکھائی دیتا ہے۔ اور اگر کوئی جج اپنے خلاف شکایات یا ریفرنس کے آجانے کر بعد آرٹیکل 209 کو ڈھال بناتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے لئے استعفیٰ دے تو یہ بد نیتی پر مبنی ہو گا جس کو اس آرٹیکل کے اطلاق میں بار نہیں بنایا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ کی 2023 میں کی گئی آئین کے آرٹیکل 209 کی تشریح جس میں یہ طےکیا  گیا ہے کہ “مس کنڈکٹ کی کاروائی کا اطلاق سابقہ یا ریٹائرڈ ججز پر نہیں ہوتا” کے اطلاق میں ان کی ریٹائرمنٹ اور استعفے سے مراد ان کے خلاف درخواستوں کے دائر کرنے کے وقت کو لیا جانا چاہیے اگر اس وقت تک وہ ریٹائر یا استعفیٰ دے چکے ہوں تو ان کو استثنیٰ کا فائدہ دیا جائے اور اگر وہ اس وقت تک ابھی عہدے پر کام کر رہے ہوں اور اپنے خلاف درخواستوں کے دائر ہو جانے کے بعد وہ استعفیٰ دیں تو کاروائی کو جاری رہنا چاہیے۔

چہ جائیکہ   جج اپنے الزامات کو مسترد کر چکا ہو بلکہ اس نے ان الزامات کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو سپریم کورٹ میں جھوٹے ہونے کی بنیاد پر چیلینج کیا ہو اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران پر بھی تعصب کے الزامات لگا چکا ہو تو ایسے شخص کے خلاف کاروائی کو صرف اس بنیاد پر روک دینا کہ اس نے استعفیٰ دے دیا ہے انصاف کے اصولوں کے منافی لگتا ہے۔

جیسا کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی شو کاز نوٹسز کے جوابات بھی دے چکے ہیں جس میں وہ اپنے خلاف الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور کونسل کے ممبران پر تعصب اور کاروائی سے علیحدہ ہونے کی درخواست دے کر بعد میں واپس لے چکے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کاروائی کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کی ان درخواستوں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ تکنیکی بندوبست کے ذریعے سے نکلنے کی کوشش بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اگر ان کے اعتراضات کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور جسٹس افغان اپنے آپ کو کونسل سے علیحدہ کر لیتے تو ان کے ہم خیال ججز کے کونسل کا ممبر بننے کے امکانات تھے۔ اسی طرح انہوں نے کونسل کی کاروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے بنچ پر بھی اعتراضات کئے تھے جن کا مقصد بھی اپنے لئے آسانی پیدا کرنے والے ججز کی امید تھا۔

جب ان کے خلاف یہ کاروائی شروع ہوئی تو اس وقت جسٹس عمر عطاء بندیال چیف جسٹس تھے جن کو ان کا ہم خیال کہا جاتا تھا جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف کاروائی کو کونسل کا اجلاس نہ بلا کر روکے رکھا بلکہ ان کو اپنے ساتھ بنچ میں بٹھا کر کسی کو پیغام بھی دیا تھا کہ ان کے خلاف کاروائی کو عمل میں نہیں لایا جاسکتا اور جب ان پر سپریم کورٹ کے فاضل ججز کی طرف سے خطوط کے ذریعے سے یہ دباؤ بڑھا کہ کاروائی کو شروع کیا جائے تو انہوں نے رائے کے لئے فائل جسٹس طارق مسعود کو بھیجی اور جس پر ان کو بعد میں فون کرکے مبینہ طور پر یہ آفر بھی دی گئی کہ اگر وہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف درخواست پر اپنی رائے سے مستفید کرتے ہیں تو جسٹس طارق مسعود کے خلاف درخواستوں کو بھی ختم کر دیا جائے گا جس پر انہوں نے تحریری طور پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو خط لکھا تھا کہ ان کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا جائے وہ اس طرح سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ڈیل کے ذریعے سے ختم کروا کر اپنی ساکھ کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔

اور پھر یوں جسٹس طارق مسعود کے خلاف کونسل میں درخواستوں پر کاروائی کا آغاز بھی جسٹس مظاہراکبر نقوی کے ساتھ ہی ہوا اور انہوں نے درخواست گزار کی موجودگی میں اپنے خلاف الزامات کے جھوٹے ہونے کے شواہد دیے جس پر درخواست گزار نے بھی اطمینان کا اظہار کیا اور جسٹس طارق مسعود کے خلاف الزامات کو مسترد کرکے ان کے خلاف درخواستوں کو خارج کر دیا گیا۔ اگر جسٹس مظاہر اکبر نقوی بھی سمجھتے تھے کہ ان کے خلاف درخواستیں بے بنیاد ہیں تو ان کو بھی اپنے خلاف درخواستوں کے ساتھ دیے گئے شواہد کو جھوٹا ثابت کرکے انکو خارج کروا لینا چاہیے تھا۔

یوں اب تک کے حالات سے مجموعی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان کے خلاف یہ کاروائی جو اکتوبر 2022 میں شروع ہوئی تھی، میں وہ اپنے آپ کو بچانے کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہیں اور جب یہ محسوس کیا کہ بچنے کا کوئی حل باقی نہیں رہا تو انہوں نے اپنی مراعات اور پنشن کو بچانے کے لئے یہ آخری استعفے والا حربہ استعمال کیا ہے۔

لہذا اگر اب ان کی درخواستوں پر کونسل، اپنے طور پر یا جسٹس مظاہر اکبر نقوی کی طرف سے اس درخواست پر کہ انہوں نے استعفیٰ دے کر ریٹائر منٹ لے لی ہے اس لئے ان درخواستوں کو غیر موثر قرار دے دیا جائے، کاروائی کو روکتی ہے تو اس سے جسٹس مظاہر اکبر تقوی بارے بدنیتی کے تاثرات کو بھی تقویت ملے گی اور عدلیہ اور کونسل بارے عوامی رائے بھی مزید خراب ہونے کی خدشات ہیں۔

اس بارے ماضی کی ججز کے احتساب اور جوابدہی کی پریکٹس کو دیکھ کر پہلے ہی عوام اور قانونی برادری کے حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ بدعنوانی کے ختم نہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ججز کے خلاف بدعنوانی اور مس کنڈکٹ کی درخواستوں کے آجانے کے بعد ان کو استعفیٰ کے بعد انکی تمام مراعات اور پنشن کو محفوظ بنانے کے لئے اس آئین کے آرٹیکل 209 تشریح کا سہارا لیا جاتا ہے جو ان کے خلاف جوابدہی اور احتساب کے نظام کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو کبھی کسی جج کے احتساب کو ممکن ہی نہیں بنایا جاسکے گا اور نہ ہی ایسے حالات میں ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں عدلیہ کے غیر جانبدارانہ اور شفاف کردار کی امید کی جاسکتی۔

عوام اور قانونی حلقوں میں پائے جانے والی اسی تشویش کے پیش نظر حنا جیلانی کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر ہو چکی ہے جو شنوائی کے لئے اپنی باری کی انتظار میں ہے جس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ ججز کی ریٹائرمنٹ اور استعفے کو ان کے خلاف مس کنڈکٹ کی کاروائی کے ساتھ مشروط کرنے کی روش کو ختم کیا جانا چاہیے اور ججز کے خلاف کاروائی کو ریٹائرمنٹ اور استفے کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف درخواست گزار نے بھی استعفے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کو چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے لہذا کونسل کو عجلت میں اس کاروائی پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس سے کونسل پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ انکے استعفیٰ کے الفاظ سے ابھرنے والے تاثرات، استعفے کا وقت ، الزامات کی نوعیت اور اصولی انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ نے جہاں قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کئی فیصلے جن میں عدلیہ کے اختیارات میں شفافیت، پارلیمان اور آئین کی بالاستی کے متعلق فیصلے صادر فرمائے ہیں وہاں ان کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے احتساب کے عمل کو فعال بنانے کے متعلق دیرینہ عوامی مطالبے کے اس موقعے کو بھی ضائع نہیں جانے دے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply