سرجی۔۔امر جلیل

براہ مہربانی مجھ سے مت پوچھئے گا کہ یہ سر جی کون ہیں …ہم سب جانتے ہیں کہ سرجی کون ہوتے ہیں اور عام طور پر ہم سرجی کس کو کہتے ہیں، روزی، روٹی کمانے کیلئے آپ ملازمت کرتے ہوں گے۔ چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہونگے۔میری طرح ریڑھی چلاتے ہونگے۔ جب آپ ریڑھی چلاتے ہیں تب گلی کوچوں میں رک کر آپ پھل، سبزیاں،گنڈیریاں، بیچتے ہوں گے۔ لامحالہ آپ کسی نہ کسی کو دیہاڑی دیتے ہونگے۔
دیہاڑی دیئے بغیر آپ گلی کوچے کے نکڑ پر رک کر پھل،سبزیاں، اور گنڈیریاں نہیں بیچ سکتے۔ دھر لئے جائیں گے۔ ہم ریڑھی والوں سے جو لوگ دیہاڑی وصول کرتے ہیں، انکا ایک Bossہوتا ہے۔ وہ اپنے باس کو مائی باپ کہتے ہیں۔ اس نوعیت کے مائی باپ کو ہم سر جی کہتے ہیں،آپ جس دفتر میں کام کرتے ہیں اس دفتر میں ایک صاحب ایسے بھی ہوتے ہیں جس سے سب ڈرتے ہیں۔

ڈر کے مارے آپ اس کے ہر حکم کی بجا آوری کرتے ہیں۔ ہم جس ہستی سے ڈرتے ہیں، اس کی دل سےعزت نہیں کرتے۔ ہم ایسے شخص سے محبت نہیں کر سکتے۔ محبت اور ڈر ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتے۔ مگر وہ شخص آپ کیلئے سر جی ہوتا ہے۔ آپ کاروبار کرتے ہیں۔سرکاری واجبات ادا کرتے ہیں۔
آمدنی چھپانے کیلئے دو دو لیجر نہیں رکھتے۔ آپ صاف ستھرا کام کرتے ہیں۔ اس لئے ہاتھوں پر دستانے نہیں چڑھاتے۔ مگر پھر بھی کسی نہ کسی لین دین والے دفتر میں ایک سر جی ہوتا ہے، جس سے آپ ڈرتے ہیں۔ وہ آپ کے صاف ستھرے کاروبار کا بھٹہ بٹھا سکتا ہے۔ آپ سرجی سے جھگڑا مول لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
وہ اس لئے کہ آپ اپنی باقی ماندہ زندگی عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے ہوئے گزارنا نہیں چاہتے۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم سب کی زندگی میں بچپن سے بڑھاپے تک ہمارا پالا کسی نہ کسی سر جی سے پڑتا رہتا ہے۔ وہ سر جی مونث بھی ہو سکتا ہے، مگر وہ کہلانے میں سر جی ہی آئے گا۔

آج میں آپ سے نہیں، اپنے سر جی سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ وہ صرف میرے نہیں۔ بیشمار لوگوں کے سر جی ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ آپ کے بھی سر جی ہیں۔ تو پھر آج باتیں ہوں گی، ہم سب کے سر جی سے…
سر جی، آپ کی رعیت کا ایک بندہ، معاشرے میں جس کی رتی برابر اہمیت نہیں ہے، آپ سے بات کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ سر جی آپ سے آج ایک ہی بات ہوگی، معمولی سی بات ہے، گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے آپ نے چھوٹی بات کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھا اور نظر انداز کر دیا۔
وہ چھوٹی سی عام بات یوں ہے کہ ہم بشمول آپ کے اور آپ کے نٹ کھٹ مشیر کے ایک وقت میں دو مختلف نوعیت کے کام ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔ آپ پتنگ اڑاتے ہوئے، دوسرے کسی کی کٹی ہوئی پتنگ لوٹ نہیں سکتے۔ آپکا یہ عمل امکان سے باہر ہے۔
آپ اپنی پتنگ اڑائیں۔ اگر آپ دوسرے کسی کی کٹی ہوئی پتنگ لوٹنا چاہتے ہیں، یا کٹی ہوئی کسی اور کی پتنگ لوٹنے کے درپے ہیں، تو پھر لازماً آپ کو پتنگ اڑانے کے شوق سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
اس نوعیت کے دو کام آپ ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔ اس نوعیت کے دو کام ہم ایک ساتھ کیوں نہیں کر سکتے۔ اس معاملے پر آج ہم چھان بین کریں گے۔ مگر چھان بین سے پہلے ایک چھوٹی سی بات آپ کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی ہار کے دو بڑے اسباب تھے۔ ایک یہ کہ محاذ آرائی کے جنون میں وہ ایک کے بعد ایک محاذ کھڑا کرتا جا رہا تھا۔ ایک وقت میں بے شمار محاذوں پر جنگ جیتنے کیلئے ہٹلر کے پاس وسائل نہیں تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روس فتح کرنے کیلئے پیش قدمی کرنا ہٹلر کی دوسری اور سب سے بڑی غلطی تھی۔ اگر ہٹلر سے دو بڑی غلطیاں سر زد نہ ہوتیں۔ تو آج ہٹلر یورپ پر حکومت کر رہا ہوتا۔ ہم سب کے لئے تاریخ سے بڑا اور معتبر رہبر اور رہنما کوئی نہیں ہو سکتا۔سر جی، آپ فقیر کی بات سن رہے ہیں نا؟
تاریخ سے ایک سبق ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جو عمل ہم کرچکے ہوتے ہیں، اس عمل اور عمل کے نتائج کو ہم الٹ نہیں سکتے، ہم پھیر نہیں سکتے، جو دور گزر چکا ہے، اس دور کو ہم واپس نہیں لا سکتے، آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا، سر جی ؟ میں جانتا ہوں، میں مانتا ہوں سر جی کہ آپ بہت سمجھدار ہیں بس آپ نٹ کھٹ مشیروں، صدا کاروں، میں گھرے ہوئے ہیں۔ اپنوں نے آپ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔
آخر میں چند باتیں ایسے دو کاموں کے بارے میں جو کوئی نہیں کر سکتا۔ سر جی، آپ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ ایک ہاتھ سے تالی اور دوسرے ہاتھ سے اپنا سر کھجا نہیں سکتے۔ آپ ایک وقت میں سر کھجائیں، یا پھر تالی بجائیں، یہ دونوں کام آپ ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔
آپ دو پہلوانوں کے درمیان ہونے والی کشتی دیکھتے ہوئے کتاب یا اخبار نہیں پڑھ سکتے۔ آپ ایک ہی وقت میں کشتی دیکھیں یا پھر کتاب پڑھیں۔ آپ ایک ہی وقت میں کتاب پڑھتے ہوئے کشتی نہیں دیکھ سکتے۔ اور اسی طرح کشتی دیکھتے ہوئے آپ کتاب نہیں پڑھ سکتے۔
آپ خبریں سنیں، یا اسکرین پر لگاتار نمودار ہونے والی تحریریں پڑھیں۔ اسی طرح سر جی، اہم معاملات پر میٹنگ میں نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے آپ ہاتھ میں تسبیح رکھ تو سکتے ہیں، مگر خیر و برکت کی خاطر اسم اعظم کا ورد نہیں کر سکتے۔ آپ میٹنگ کا کاروبار چلائیں، یا تسبیح کے دانوں پر اسم اعظم کا وردکرتے رہیں۔ یہ دو کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply