‘پرکھ ’لمبے سفر کا پہلا قدم/تبصرہ-قمر رحیم خان

ابھی ہمارے بھتیجے کی جرمن شیفرڈ ‘‘سُوزی’’ کو فیس بک یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لیے چند ہی ماہ گزرے تھے کہ ہمارا بلّا ‘‘چارلس’’بھی ایک دن ہمیں ‘‘چلَٹ ’’ کے پاس سکّہ بند دانشور کے حلیے میں خود کلامی کرتے ہوئے، آگ سینکتا ملا۔ہم یہ سب دیکھ کر فخریہ انداز میں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر ہی رہے تھے کہ دانشور صاحب ایک دم زور سے اُچھلے اور واپسی پر ‘‘کڑی’’ کی دیگچی میں جا گرے۔پھر وہاں سے اچھلے اور چولہے کے ساتھ پڑی کیکر کی سوکھی کانٹے دارٹہنیوں پر جالگے۔ بچوں کی سانسیں رک گئیں اور منہ کھلے رہ گئے۔ ہم دم بخود بیگم کو اور بیگم اپنی ‘‘کڑی’’ کو دیکھتی رہ گئیں۔ ابھی ہم اس حادثہ جانکاہ سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ چارلس صاحب نے گلا پھاڑ چیخوں کے ساتھ ایک اور چھلانگ لگائی اور ‘‘اوٹی’’ پر رکھی دودھ کی بالٹی سے جا ٹکرائے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے گھر میں دودھ کی نہریں جاری ہو گئیں۔ بیگم نے ڈنڈا اٹھایا مگر دوسرے ہی لمحے ‘دودھ میں دھلے’ چارلس صاحب گھر کا صحن پار کر چکے تھے۔ چارلس صاحب دو ہفتے کون سے ہسپتال میں رہے، یہ تو معلوم نہیں مگر لوٹے تورو بہ صحت تھے۔ البتہ جلی ہوئی دُم سے اب بھی دھواں اٹھتا محسوس ہورہاتھا۔ اعلیٰ تعلیم کے اس ٹرینڈ کو دیکھ کر ہمارے ہمدم دیرینہ ، محترمی و مکرمی ، سردار انور خان کوہماری فکر لاحق ہو گئی۔ سوچ بچار کے بعد سردار صاحب نے ہمیں اپنے پلّے سے بلکہ یوں کہیے کہ اپنی جیب سے ‘دانشور’ کا خطاب دے ڈالا۔ تب ہمیں اس عنایت کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوا۔بلکہ ایک مرتبہ تو ہم نے ان سے شکوہ کیا کہ موصوف نے ہمیں ‘چارلس’ بنا دیا ہے۔ وہ اس پر بہت چیں بہ جبیں ہوئے اور ہماری تعریف میں شارجہ کورنش (ساحل) پر ایک پل بنا دیا۔ہم اس پل پر کھڑے ہو کر ‘ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ’ پر غورو فکر فرمانے لگے۔ اس غورو فکر کی کہانی ہماری زبانی سننے سے پہلے سردار صاحب امریکہ روانہ ہو گئے ۔ ان کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ اس پل سے پرواز کر کہ ہم اقبال سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ یوں ہم ان حضرات گرامی میں شامل ہو گئے ہیں جودیگر سیاروں ، ستاروں کے بارے میں وقتاً فوقتاًاپنی آرا کا اظہار کر تے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زمین پر ہونے والی کوششوں پر اظہار رائے کے لیے کبھی کسی نے ہمیں گھاس نہیں ڈالی۔ سوائے ڈاکٹر صغیر صاحب کے۔ہم ایک عرصے سے ڈانگ اٹھائے ان کی کتابوں پر مشق ِ بے ادبی کر رہے ہیں۔ ادب سے ہمارا اب تک کا اتنا ہی تعلق ہے۔ڈاکٹر صاحب کے کام پر اہل نقد و نظر کی نظر کب کی پڑ چکی، اہل وطن کی البتہ اب تک نہیں پڑی۔ جبکہ اہل وطن کا وہ طبقہ جووطن کی محبت کا سب سے بڑا دعوے دار ہے ، اس نے تو ڈاکٹر صاحب کے کام کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا۔ گویا ڈاکٹر صاحب کے لیے‘ عشق کے امتحاں اور بھی ہیں’کی کسک ابھی تک باقی ہے۔لگتا یہی ہے کہ ہم گزر جائیں گے ، یہ بقایا جات ادا نہیں ہو پائیں گے۔ان ادائیگیوں کی حالیہ قسط جو ڈاکٹر صاحب نے ادا کی ہے وہ ‘‘پرکھ’’ کے نام نامی سے سامنے آئی ہے۔‘پرکھ’ ذیل کے چھ تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔
1۔ پہاڑی لوک گیتوں میں موضوعاتی تنوع
2۔آزاد کشمیر میں اردو غزل
3۔ جموں کشمیر میں کہانی
4۔ جموں کشمیر کی مادری زبانیں اور اسلام
5۔ جموں کشمیر اور اقبال
6۔ تخلیقاتِ ابراہیم ……مدعا و مفاہیم
پہلے مضمون میں پہاڑی زبان کے شجرے، علاقوں اور ارتقا کے مختصر ذکر کے بعد پہاڑی لوک گیتوں میں جن موضوعات کو مشق سخن بنایا گیا ہے، ان پر بات کی گئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے تقریباً پچیس سال قبل آزاد کشمیر کی حد تک رائج پہاڑی لوک گیتوں کو جمع کیا تھا۔ یہ لوک گیت اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔سینہ بہ سینہ چلنے والے ان گیتوں کے گائک اب معدوم ہو چکے ہیں۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر صاحب کی متذکرہ تالیف اہمیت کی حامل ہے۔گو کہ اس کے باوجو د پہاڑی لوک گیتوں کی ایک بڑی تعداد کا ہمارے پا س کوئی تحریری یا صوتی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ریاست کے دوسرے حصے میں البتہ پہاڑی پر قابل ذکر کام ہوا ہے۔ لیکن وہ ہماری دسترس سے باہر ہے۔اس مضمون میں بھی ، میری دانست میں وہی موضوعات زیر بحث آئے ہیں جن تک مصنف کی رسائی ممکن تھی۔کل موضوعات کی تعداد شاید اس سے زیادہ ہو ۔ درپیش حالات میں پہاڑی زبان کی کسی بھی صنف پر مکمل کام کسی ایک آدمی کے بس میں نہیں ہے۔یہ تکمیل کب ممکن ہو گی ، ہم اس دن کے انتظار میں جی رہے ہیں۔
‘آزاد کشمیر میں اردو غزل’ پر مضمون ایک سیر حاصل تبصرہ ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے کم و بیش 26شعرائے کرام اور ان کے منتخب اشعار کو چنا ہے۔فی مربع کلو میٹر کے حساب سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر شعرا کے میدان میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ سرپلس میں ہے۔یہ وہ شعرا ہیں جنہوں نے دیگر اصناف سمیت غزل بھی کہی ہے۔ اگر تمام شعرا کو جمع کیا جائے ،اور خصوصاً ان شعرا کو بھی شامل کر لیا جائے جن کا یہاں تذکرہ نہیں ہوا تو ہمارے پاس سامعین کے لیے گنجائش کم رہ جائے گی۔ معیار کے حوالے سے اس مضمون میں شامل چند اشعار کو آپ بطور مصالحہ استعمال میں لا سکتے ہیں۔اور بلا شبہ چھاتی پھلا کر مہمانوں کو پیش کر سکتے ہیں۔
دل اگر رنگینی اصنام پر مائل نہیں
یہ سمجھ لو زندہ رہنے کا کوئی حاصل نہیں
(آذر عسکری)
ایک ہنگامہ سر کون ومکاں ہے ساقی
زندگی اہل محبت پہ گراں ہے ساقی
وسعت دہر ہے تشریح کتاب ہستی
کہیں نغمہ کہیں فریاد و فغاں ہے ساقی
(چراغ حسن حسرت)
دشت جب راس نہ آیا تو چمن یاد آیا
اک آوارہ غربت کو وطن یا د آیا
سرزمین گل و لالہ پہ نظر جا کہ پڑی
جب شہیدان محبت کا کفن یاد آیا
(امین طارق قاسمی)
لائی ہے خبر صبا اور طرح کی
مشرق کے افق پر ہے ضیا اور طرح کی
بیمار شفا پائے گا اے چارہ گرو کیا
دکھ اور طرح کا ہے دوا اور طرح کی
(عبدالعلیم صدیقی)
پھر چلے آئیں سر بام کہ دنیا دیکھے
مدتیں بیت گئیں آپ کا جلوہ دیکھے
تختہ دار کا اوج ا س کا صلہ ہے صابر
آج کے دور میں شخص بھی اونچا دیکھے
(صابر آفاقی)
نہ تو جینا ہی مجھے آیا، نہ مرنا آیا
کوئی بھی کام نہ سلیقے سے کرنا آیا
(اکرم طاہر)
کچھ ایسے گزری ہے بے چہرگی میں عمر اپنی
کہ اپنے آپ سے بے طرح شرمسار ہیں ہم
(نذیر انجم)
یہ دیکھ کر ، میری حیرت کی انتہا نہ رہی
کہ میں نے ہاتھ بھی پھیلا دیا، مرا بھی نہیں
(افتخار مغل)
زباں تک لا نہیں سکتے کچھ ایسے حادثے دیکھے
ہمیں زندہ رہے، کوئی ہمارے حوصلے دیکھے
(مخلص وجدانی)
بھرے ہوئے ہیں کسی کے خیال و خواب کے پھول
ہمارے دل کا بھی موسم بہار سا ہی تو ہے
(اسرار ایوب)
اک جان غزل کا خط آیا،اک سروچمن کی یاد آئی
اک رشک چمن کا ذکر چھڑا،اک شعلہ بدن کی یاد آئی
(صابر حسین صابر)
‘جموں کشمیر میں کہانی’ جموں کشمیر میں اردو کہانی کی روداد ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں‘‘ کشمیر میں اردو کہانی کی ابتدا کو کھوجنے کے سفر پر نکلا جائے توتاریخ ہمیں منشی محمد دین فوق تک لے جاتی ہے۔اس حوالے سے معروف ریاستی محقق ڈاکٹر برج پریمی کا کہنا ہے کہ ریاست میں اردو افسانے کی طرف سب سے پہلے مورخ، ادیب، شاعر اور صحافی منشی محمد دین فوق نے توجہ دی۔فوق نے روش زمانہ کے مطابق کئی تاریخی اور نیم تاریخی قصے قلم بند کیے’’۔ ڈاکٹر صاحب نے چراغ حسن حسرت، کرشن چندر اور منٹو کا ذکر کرنے کے بعد ریاست کے ایسے کہانی نویسوں کا تعارف کروایا ہے جن کے نام اور کام سے ، اگر یہ کہا جائے کہ پورا آزاد کشمیر تقریباً ناواقف ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان میں پریم ناتھ پردیسی، پریم ناتھ در، دینا ناتھ، تیرتھ کاشمیری، شیام لال آئمہ، نند لال بے غرض، دینا ناتھ دلگیر، اسیر کاشمیری، کوثر سیمابی، کیف اسرائیلی، محمود ہاشمی، کرشن گردش، حنیف ہاشمی، عزیز کاش، محبوب یاسمین، صاحب زار عمرو غیرہم شامل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘‘اسی عہد کے لکھنے والوں میں راما نند ساگر کا نام بھی اہم ہے۔ ساگر اگرچہ کشمیر سے بمبئی جا بسے لیکن انہوں نے افسانوی ادب میں خاص مقام ضرور پایا۔کشمیری لال ذاکر کا نام اردو افسانوی ادب میں کوئی نیا نہیں۔ان کے افسانے ہر جا اور ہر سطح پر مقبول ہوئے’’۔اسی طرح نرسنگھ داس نرگس، قدرت اللہ شہاب، ٹھاکر پونچھی، اختر محی الدین، پشکر ناتھ کے علاوہ نئے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعدادہے جنہوں نے افسانہ نگاری کے باب میں بہت اچھا کام کیا ہے۔
‘جموں کشمیر کی مادری زبانیں اور اسلام’ میں ڈاکٹرصاحب نے یہ واضع کیا ہے کہ جموں کشمیر میں مختلف ادوار میں سنسکرت اور فارسی سرکاری زبانیں رہی ہیں۔ سنسکرت کے بارے میں ان کی تحقیق ہے کہ حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے لے کر ایک ہزار سال تک کشمیر میں سنسکرت کی حکمرانی رہی ہے۔لیکن سرکاری زبانوں کا اثر و نفوذ ہمیشہ محدود تر رہااور یہاں کے عوام سماجی و مذہبی ضرورتوں کے لیے اپنی ماں بولیوں کو ہی اختیار کیے رہے۔اس کے بعد انہوں نے ریاست کی مادری زبانوں کے مختصر تعارف کے ساتھ اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں مادری زبانوں کا اہم کرداررہا ہے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے ، جس کا احاطہ اس مضمون میں تعارف کی حد تک ہواہے۔ ورنہ فقط کشمیری زبان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا جو کام ہوا ہے اسے ایک آدھ جلد میں سمیٹنا مشکل نظر آتا ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہی حال دیگر مادری زبانوں کا بھی ہے۔ کشمیر ی زبان کو اس ضمن میں فوقیت اس لیے حاصل ہے کہ اس کا صوفیانہ کلام پورے برصغیر کے صوفیانہ کلام سے معیار اور مقدار کے اعتبار سے اگر آگے نہیں ہے تو اس سے پیچھے بھی نہیں ہے۔وادی کشمیر کا کلچر پچھلے چارسو سال سے زاید عرصہ کی غلامی کے باوجود نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ کشمیری زبان کی شاعری بھی ہے جو وہاں کے معاشرتی وجود میں خون کی طرح رواں دواں ہے۔ جبکہ پہاڑی زبان اس اوج کو نہیں پہنچ سکی۔ پہاڑی کلچر میں زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
‘جموں کشمیر اور اقبال ’ میں ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے خاندان کے بارے میں مستند حوالوں کے ذریعے تذکرہ کے ساتھ ان کے خاندان کا صوفیا کے ساتھ تعلق بھی ظاہر کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کشمیر پر اقبال کی شاعری اور اس کی اہمیت کو بیان کیاہے۔ ‘تخلیقات ابراہیم……مدعا و مفاہیم’ کے بارے میں ہم اپنے حلقہ مولویاں یا کسی دنیاوی مجلس میں ہرگز یہ اشارہ نہیں کریں گے کہ مضمون کے عنوان سے ایک لفظ غائب ہے۔یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی غیر جانبداری اور دیانت کا بین ثبوت ہے۔اس مضمون میں یہ پیغام واضح ہے کہ صاحب قلم کواعلیٰ ظرف اور فراخ دل ہونا چاہیے۔ عمومی طور پر ڈاکٹر صاحب کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے، جسے انہوں نے غلط ثابت کیا ہے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ‘پرکھ’ کے زیادہ تر مضامین اور اس طرح کا جو بھی کام ہمارے ہاں ہورہا ہے جس میں ‘ارقم’ کے ادب پرلکھے گئے تحقیقی مضامین بھی شامل ہیں ،ہمارے ادبی وجود کی پیوند کاری اور رفو کر رہے ہیں۔اس پیوند کاری کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر کام ہماری پہنچ سے دور ہے اور وہ لوگ بھی ہمارے لیے اجنبی ہیں۔میری نظر میں ‘پرکھ ’ ایک لمبے سفر کا پہلا قدم ہے، جس کی سمت واضح مگر راستہ دشوار ہے۔ہماری دعا ہے ڈاکٹر صاحب کا یہ سفر آسان ہو اور وہ اپنی منزل کو دیکھ پائیں۔مگر اس سفر میں انہیں ایسے لوگ چاہییں جو ان کے کسی کام آسکیں۔ چارلس ‘کڑی’ کے ساتھ دودھمکی بالٹی بھی الٹا دے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply