آنسوؤں کی شہزادی۔۔۔۔۔ڈاکٹر ظہور احمد اعوان

  ایڈیٹرز نوٹ:

ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ، سفر نامہ نگار، خاکہ نگار ، محقق، کالم نگار اور معروف نقاد تھے. ان کی ساٹھ سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں اور ہزاروں کالم اخباروں کی زینت بنے  . وہ ۳۵ برس تک درس و تدریس سے وابستہ رہے.زیر اشاعت خاکہ ان کی کتاب” سر دلبراں” سے لیا گیا ہے جو انہوں نے اپنی کولیگ روبینہ شاہین پر لکھا تھا.ظہوراحمداعوان نے ہر خاکہ کے لیے ایک عنوان بنایا جو خاکہ کی شخصیت کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے اس عنوان کو پڑھ کر ہی قاری شخصیت کے بارے میں اک رائے قائم کرلیتا ہے ۔  ان خاکوں میں اک پورے عہد کے چیدہ چیدہ لوگوں کی تاریخ محفوظ ہے ۔ جسے جب بھی پڑھا جائے گا ،لطف سے خالی نہ ہوگا۔ ڈاکٹر روبینہ شاہین پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر ہیں۔
ان کے تعارف میں بس اتنا لکھ دینا ہی کافی ہوگا کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی آخری کتاب” شام شعر یاراں”میں” قصہ خوانی بازار سے کوچہ ماضی گیراں تک” میں ڈاکٹر روبینہ شاہین پر تقریباََ ستر صفحات سے زائد کا مضمون لکھا۔جن احباب کی نظر سے یہ مضمون گزرا ہے ،وہ جان گئے ہوں گے کہ ڈاکٹر روبینہ شاہین کس پائے کی استاد اور ادبی شخصیت ہیں۔ یوسفی صاحب کے  اسی مضمون کی بدولت “سر دلبراں” کے اس خاکے” آنسوؤں کی شہزادی “کا علم ہوا۔ اس خاکے کی اشاعت کا مقصد ڈاکٹر ظہور اعوان اور ڈاکٹر روبینہ شاہین کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے ۔ احمد رضوان

Advertisements
julia rana solicitors london

روبینہ سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو وہ رو رہی تھی. اس کے بعد اس کا چہرہ جب بھی سامنے آتا ہے موٹی موٹی خوبصورت آنکھوں میں ڈل ڈل کرتے آنسو ہی نظر آتے ہیں. اسے ویسے بھی رونا بہت زیادہ آتا ہے. اس لیے نہیں کہ وہ عورت ہے بلکہ اس لیے کہ وہ روبینہ ہے جو باہر سے صحیح سلامت مگر اندر سے کرچی کرچی ہے. خوش خصال مگر زخمی زخمی.
روبینہ کے لیے جب میں نے گڑیا کا لفظ سنا تو دل نے کہا واقعی یہی نام اس پر جچتا ہے. وہ گڑیا کی طرح ہی خوب صورت کامنی اور سجی سجائی معصوم اور بے ضرر ہے. مجھے یہ سن کر خوشی ہو رہی ہے کہ اسے گڑیا کہا جا رہا ہے اور وہ اس پر خفا بھی نہیں ہوئی. میں نے اسے دیکھ کر اپنے پشاوری محاورے کے مطابق گجری کا لفظ کہا تھا مگر اسے گڑیا کے حق میں دستبردار کروا دیا. میں خود اسے گڑیا کہہ کر نہیں پکارتا مگر جب کوئی دوسرا پکارتا ہے تو اچھا لگتا ہے.
روبینہ پشاور اور مانسہرہ کا خوب صورت امتزاجی عکس ہے. والد خاص پشاوری تو والدہ خاص ہزارے وال. اس ملاپ سے اتنے خوب صورت بچے اللہ تعالٰی نے اس دھرتی پر اتارے کہ ہر بچہ انگریز نظر آتا ہے. روبینہ قد کی وجہ سے مار کھا گئی ورنہ کسی میم سے کم نہ تھی. ویسے اتنے قد کی میمیں بھی میں نے بے شمار دیکھی ہیں. ویسی ہی گوری چمکدار بل بل کرتی رنگت اور جلد، روشن روشن آنکھیں، چہرہ کھلی کتاب، حد درجہ حسّاس اور ہر جذبے کی جلی تحریر کا آئینہ دار. پل پل میں رنگ بدلتا، گلابی سے عنابی تک منزلیں طے کرتا. اللہ تعالٰی نے حُسن صورت کے ساتھ اسے حُسن سیرت بھی عطا کر رکھا ہے. اور یہی انسان کی سب سے بڑی فضیلت اور روبینہ کی سب سے بڑی خصوصیت ہے. وہ بُری ہے نا اسے برا ہونا آتا ہے. اسے دیکھ کر نسوانیت سے زیادہ ملکوتی تقدس کا تصور جاگتا ہے. اسے دیکھتے ہی ایک اچھے انسان کا خیال آتا ہے. جنس و جسم، ذات و شخصیت سے بلند و ارفع، اسے دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ میں کسی بھلائی اور نیکی کو مجسم دیکھ رہا ہوں. اور یہ تاثر پہلی ملاقات سے قائم ہے.
شعبہ میں آنے کے بعد میں نے اس کے بارے میں بہت سی باتیں سنیں، شعبے کی خاتون چئیر پرسن جو بظاہر اچھی خاتون تھیں مگر روبینہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی. مجھے وجہ معلوم نہ تھی. میں شعبے ہی میں تھا کہ روبینہ کی شجی سے شادی ہوئی مجھے نہیں بلایا کہ روبینہ مجھے نہیں جانتی تھی. بہت سے لوگ اس سلسلے میں مانسہرہ گئے. پھر ایک دن وہ شعبے میں آ گئی. اس وقت وہ خاتون چئیر پرسن جا چکی تھیں. روبینہ میرے کمرے میں بیٹھی بلا وجہ رو رہی تھی. مجھے بھی رونا آ گیا. پھر کہانی سنی. مختلف تفصیلات اور کردار میرے سامنے کھل کر لائے گئے. مجھے افسوس ہوا کہ اتنی پیاری معصوم لڑکی پر اس شعبے میں ایک خاتون سربراہِ ادارہ کی طرف سے ایسے ناروا الزامات لگائے گئے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسے شعبے سے باہر رکھنے کا اہتمام کیا گیا. خاتون سربراہ ایک اچھی خاتون تھیں. میری محسنہ تھیں. شعبے میں لے کر مجھے وہی آئی تھیں. میں شاید زیادہ سیدھا آدمی ہوں. کومپلیکس انسانی فطرت کی سمجھ مجھے کبھی نہیں آئی ہے. یہ لاگ لگاوٹ لالچ حسد کی چنگاریاں کیا کیا گل کھلاتی ہیں یہ باتیں دل و دماغ ہلا دیتی ہیں اور انسان کا انسان کی فطری بھلمنساہٹ پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے.
پھر دیکھتے ہی دیکھتے روبینہ دوبارہ ملازمت میں آ گئی اور آتے ہی شعبے کی ایک مقبول اور پسندیدہ ماہر ٹیچر بن گئی. مجھے خوشی تھی کہ شعبے کو ایک اچھی استاد اور اچھی انسان میسر آ گئی ہے. اس لیے چھے ماہ بعد جب اس کی ایڈہاک ملازمت میں توسیع کے کاغذات سامنے آئے تو میں نے آنکھیں بند کر کے ان پر دستخط کر دیے. تب مجھے اُس خاتون سربراہ نے فون کر کے کہا کہ یہ اس نے کیا کیا؟ یہ بات مجھے بری لگی. میں نے انہیں کہا کہ محترمہ! میں آپ کا احسان چکانے کے لیے آپ کی کوئی ذاتی خدمت تو سر انجام دے سکتا ہوں مگر کسی دوسرے اہل مستحق اور نیک انسان کا حق مار سکتا ہوں نہ اس کی راہ روک سکتا ہوں. یہ اُس خاتون سے میری آخری گفتگو تھی. چھے سال گزر گئے انہوں نے مجھ سے فون پر باتیں کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی. اس دوران روبینہ منزلوں پر منزلیں مارتی آگے بڑھتی جا رہی ہے. ایم فل اس نے کر لیا ہے. پی ایچ ڈی کا کورس مکمل ہے. مستقل اور کنفرمڈ لیکچرر وہ بن چکی ہے. اسے ایک الگ کمرہ مل گیا ہے. شعبے میں اس کا ایک مرتبہ و مقام بن چکا ہے. مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ اعزازات مجھے مل رہے ہیں.
روبینہ دل و دماغ اور جیب کی کھلی انسان ہے. پیسے کو ہاتھ کا میل کہتی ہے اور دل کھول کر خرچ کرتی ہے. بلکہ خرچ کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے. چیزیں بنا بنا کر لاتی ہے. رفقائے کار کو بات بے بات کیک پیسٹریاں تو کھلاتی ہی ہے طلبا بلکہ پوری پوری کلاس کو بھی کوک پلانے سے دریغ نہیں کرتی. کوک پیپسی اس کے مرغوب ٹھنڈے مشروبات ہیں. اس کے کمرے سے کوئی بندہ بشر کوک پیپسی پیئے بغیر نہیں جاتا. شاید خاندانی اور وراثتی دھن اس کے پاس بہت ہے اس لیے وہ اپنی آدھی تنخواہ امریکی مشروبات پر تو آدھی رکشہ کے کرایے میں صرف کر دیتی ہے. سو دو سو روپے کے حساب سے رکشہ کر کے آتی اور ماما رکشے والے کو دو بجے تک بٹھائے on hold رکھتی ہے.
اس نے ماما کو بھی اس قدر خوش رکھا ہے کہ وہ شام تک بھی بیٹھنے دل میلا نہیں کرتا. وہ ہر ملازم چوکیدار چپراسی کی چپکے چپکے مدد کرتی رہتی ہے. اس کو ہتھیلی میں ہی نہیں پورے بٹوے میں گہری سوراخیں ہیں. خوش لباس، خوش اطوار، خوش گفتار، میٹھی، مدھر ملنسار، ہنس مکھ پتا نہیں کیا کچھ ہے. بس صرف ایک حوالے سے بد نصیب ہے. اس کی کوئی اولاد نہیں ہوئی. حالانکہ اسے بچوں سے بے پناہ محبت ہے مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال اور مٹا سکتا ہے. اس کی گود خالی رہے گی تو آنکھیں تا قیامت آنسوؤں سے بھری رہیں گی. اس کی ایک یہ آرزو پوری ہو جاتی تو میں اسے دنیا کی خوش قسمت ترین عورت قرار دیتا. پیار کرنے والا شوہر ملا ہے. گھر کا سکون میسر ہے. تعلیم دوست، عزت احترام، دل و دماغ ضمیر کی سب نعمتیں میسر ہیں. روبینہ حد درجہ ہمدرد و غمگسار خاتون ہے. کسی کے پاؤں میں درد ہو تو اس کے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے اور اس کوشش میں رہتی ہے کہ اس کا درد بانٹ سکے.
کلاس روم میں اس کا رویہ دیدنی ہوتا ہے. وہ اپنی عمر سے بڑے لڑکوں لڑکیوں کو بچہ کہتی ہے. بچو تم ادھر آؤ، بچے آج نہیں آئے، بچے بڑے شریر ہوتے ہیں، وہ ایسی باتیں کرتی ہے تو اور اچھی لگتی ہے. شاید اس کے اندر کی پیاسی ممتا بچہ بچہ کہہ کر اپنی تسکین کرتی ہے. وہ بہت اچھی استاد اور انسان ہے. وہ کہتی ہے استاد شاگرد کا صرف یہی تو رشتہ ہوتا ہے. طالب علم بھی اس پر جان چھڑکتے ہیں. وہ شعبے کی سب سے زیادہ مقبول ٹیچر ہے. جس سے پوچھو بس روبینہ کے نام کی مالا جپتا ہے. بہترین استاد پر جب خفیہ مضمون لکھنے کو دیا جاتا ہے تو 90 فی صد طلبا روبینہ کا نام لکھیں گے. بہت اچھا پڑھاتی ہے، پوری تیاری کر کے آتی ہے. اس کے پرچے میں بچے ستّر اسّی فی صد نمبر لے کر پاس ہوتے ہیں. نتیجے کے بعد وہ انفرادی پرچوں کے نمبر نکلوا کر اس کا ریکارڈ بھی رکھتی ہے اور دوسرے لوگوں کو دکھاتی بھی ہے. مجھے اس کی کامیابیاں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے.
روبینہ کے ادبی مراسم ملک کے بڑے بڑے ادیبوں سے قائم ہیں. مشفق خواجہ، مشتاق احمد یوسفی اور ممتاز مفتی سے باقاعدہ خط و کتابت رہی. ممتاز مفتی کے کوئی اسّی سے زیادہ خطوط اس کے پاس موجود ہیں. اسی طرح یوسفی صاحب اور مشفق خواجہ کے بھی ہیں. وہ ان سے ملاقاتیں کرتی ہیں. ان سے فون پر رابطے رکھتی ہے. روبینہ میں دوسروں سے خاص طور پر مشہور ادیبوں سے متاثر ہی نہیں مرعوب ہو جانے کی ایک انتہا پسندانہ خصوصیت بھی موجود ہے. وہ عقیدت کی حد تک ان کو چاہنے لگتی ہے. میں جانتا ہوں کہ بزرگ ادیب اور مشہور لوگ بھی خواتین سے خط و کتابت اور رابطہ رکھنا پسند کرتے ہیں. مگر یہ بات روبینہ کو نہیں بتا سکتا. میں ذاتی طور پر غالب کا مقلد ہونے کے ناطے مکتوب نویسی کو حرز جاں بنائے ہوئے ہوں. روزانہ دس بیس خط لکھتا اور وصول کرتا ہوں. مگر میرے کسی خط کا جواب ممتاز مفتی نے نہیں دیا. اور یوسفی صاحب کے ہاں تو عام آدمی کے خط وصول ہی نہیں کیے جاتے. بہر کیف روبینہ کے پاس پاکستان کے نامور ادیبوں کے خطوط کا اتنا ذخیرہ موجود ہے کہ وہ اس سے ایک پوری کتاب تیار کر سکتی ہے. مگر اسے کتابیں چھپوانے کا فی الحال کوئی شوق نہیں. رسالوں میں چھپنے والے اس کے اپنے مضامین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے. اس کا ڈاکٹر احسن فاروقی کی ناول نگاری پر لکھا گیا ایم فل کا مقالہ بہت عمدہ تحقیقی کاوش ہے. وہ چاہے تو اسے یہی کتاب کی صورت میں چھاپ سکتی ہے. مگر وہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے. کسی کاغذ کتاب کو اپنے راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیتی. وہ اچھی نثر لکھ لیتی ہے. صاف صاف واضح واضح. با مقصد با معنی مہکی وہ مضمون و مقالہ پینسل سے لکھتی ہے. خط اس کا بہت خوب صورت ہے. اس کا دانہ دانہ لکھا سمجھ میں بھی آتا ہے اور تیر بہدف To the point بھی ہوتا ہے. حشو و زوائد، جذباتیت، مشکل پسندی یا تصنع و بناوٹ سے پاک.
روبینہ اپنے طلبا سے حد درجہ پیار کے باوجود ان کی غیر نصابی سرگرمیوں میں قطعاً حصہ نہیں لیتی. کسی پارٹی میں شریک ہوتی ہے نہ پکنک اور تفریحی دوروں پر ان کے ساتھ جاتی ہے. اس کا کوئی گھریلو مسئلہ ہے یا اس کو شاید مناہی ہے. اس لیے اس نے دل پر پتھر رکھ لیا ہے. ان سرگرمیوں میں حصہ لینا اس کے سرکاری فرائض میں بھی شامل ہے. اور وہ بہت تابعدار قسم کی ملازم بھی ہے. قانون قاعدے کی پابند مگر اس معاملے میں وہ بغاوت سے بھی گریزاں نہیں ہوتی. صرف اس معاملے میں میں نے اسے منطق کی پٹری سے اترتے دیکھا ہے. اس کی صنفی اور نجی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے اس کی اس ادا یا کج ادائی سے سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے.
روبینہ کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اس کے باوجود اس میں پر اسرار طریقوں سے دولت حاصل کرنے کی تمنا ہر دم موجود رہتی ہے. بانڈ وانڈ تو وہ خریدتی بھی ہے. خوش نصیب اتنی ہے کہ اب تک لاکھوں روپے کے انعامات جیت چکی ہے. اس کے علاوہ امریکن قسم کی دھوکے باز لاٹری سسٹم میں بھی پورے جذبے کے ساتھ شریک ہوتی ہے. خود بھی غرق ہوتی ہے اور دوستوں اور شاگردوں کو بھی غرق کرتی ہے. ذاتی رسوخ و تعلق کی بنا پر ان نوسر باز کمپنیوں کو سیکڑوں ڈالر دے چکی ہے تا کہ اسے ہزاروں ڈالر کا انعام مل جائے. مجھے یہ دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور تعجب بھی ہوتا ہے جس شخص کی لاٹری اپنے گھر اور جیب میں موجود ہے اسے باہر کی لاٹریوں کی کیا پروا ہو سکتی ہے. مگر روبینہ اِز روبینہ، وہ اتنی اچھی اور بی با خاتون ہے کہ اس کی عجیب باتوں کو بھی اچھے نام دینے پڑتے ہیں.
روبینہ کی ایک اور ادا بڑی معصومانہ ہے. چھٹی کا سنتے ہی اس کے دل میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں. چھٹی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی. میں اتنی فرض شناس خاتون کو اس قدر تعطیل نواز دیکھتا ہوں تو دھچکا سا لگتا ہے. محسوس ہوتا ہے کہ شعبے میں اس کا جی نہیں لگتا اور وہ اُڑ کر اپنے گھر پہنچنا چاہتی ہے. شاید گھر میں اکیلے بیٹھ کر کیبل پر اچھی اچھی فلمیں دیکھنے کا شوق ہو. وہ دوسرے دن ان فلموں کی کہانیاں بڑے مزے لے لے کر سناتی ہے.
میں کہہ سکتا ہوں کہ روبینہ جیسی خاتون شعبہ تعلیم و تدریس کے لیے قدرت کا ایک انعام ہے. ایسی ہی ہستیوں کی وجہ سے انسانیت کا بھرم قائم رہتا ہے اور دنیا میں رہنے کو جی کرتا ہے.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply