ہمارا اردو ادب دوسری زبانوں میں کیوں مقبول نہیں ہے؟-منصور ندیم

آج سے سو برس پہلے، سنہء 1923 میں جبران خلیل جبران نے اپنی تصنیف “The Prophet” (النبی) کا مخطوطہ چھاپنے کے لیے پبلشر Alfred Knoph کو بھیجا تھا، اس لمحے سے لے کر آج تک دنیا بھر کے اشاعتی ادارے اس کتاب کے نئے ایڈیشن تواتر سے چھاپ رہے ہیں، یہ کتاب پہلے انگریزی میں چھپی اور پھر آج تک اس کا انگریزی سے 100 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، اس کی 110 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں، اور یہ اب بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی  کتابوں میں تیسرے نمبر پر آنے والی کتاب ہے، ہے نا حیرت انگیز بات؟ ایک لبنانی عرب مسیحی مصنف جس کی صرف ایک کتاب آج دنیا کی تیسری بڑی بیسٹ سیلر کتاب ہے۔

صرف کتاب کو سو برس ہونے کی بات نہیں، بلکہ یہ بھی نہیں کہ سو برس ہونے کے باوجود اس کے ایڈیشن دنیا بھر میں آج بھی کئی زبانوں میں تواتر سے چھپ رہے ہیں، بلکہ اہمیت یہ ہے کہ سو برس کے بعد یہ کتاب ایک لیجنڈ بن چکی ہے، بلکہ اس موقع پر کئی عرب اور مغربی ممالک میں اس کتاب کی صدی کو منانے کے لیے سرگرمیاں ہو رہی ہیں، جو عموما نیویارک، بلغاریہ، شارجہ اور بیروت میں ادبی سیمینار یا کتاب میلوں میں چلتی ہیں، خلیل جبران کے “The Prophet” کا جشن صرف صد سالہ تک محدود نہیں ہے، یہ ایک فلسفہ بیان کرتی کتاب ہے اور فلسفہ تمام شعبوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اہل علم کی ایک بڑی تعداد کے لیے الہام کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

سنہء 1960 میں یہ کتاب عرب میں بے انتہا مقبول ہوئی، یہ کتاب “النبی” منظوم مضامین کا مجموعہ ہے، جو فلسفے، روحانیت اور زندگی کی معمولات سے بحث کرتے ہیں، جس میں محبت، شادی، بچے دنیا، کھانا پینا، کام، خوشی اور غم، مکان کپڑے، خرید و فروخت، جرم اور سزا، قوانین، آزادی، جذبے، درد، علم، تعلیم، دوستی، گفتگو، اچھائی اور برائی کا تصور، دعا کا تصور، خوبصورتی اور موت جیسے ہر موضوع کا احاطہ کرتی ہے، لبنان میں اس پر ڈرامے بنے، اس کے باب “محبت” کا پہلا ورژن سنہء 1969 میں   پیش کیا گیا، پھر لبنانی معروف گلوکارہ فیروز نے سنہء 1972 میں ڈرامے “کاغذی لوگ” کے موجودہ ورژن میں پہلی بار “محبت” گایا، جو امریکہ سے لے کر بیروت تک یہ گانا “محبت” لوگوں کے دلوں میں ایسے بسا کہ ان کی خوشیوں اور غموں کا ترانہ بن گیا۔

سنہء 2005 میں لبنانی بائیبلوس فیسٹیول میں دکھائے جانے والے ڈرامے “جبران اور پیغمبر” نے کمال کردیا، جس کے بعد تسلسل سے مختلف ترجموں میں اسے تھیٹر میں پیش کیا گیا، یہ ڈرامہ لبنان کی تھیٹر کی تاریخ کا سب سے معروف اور مختلف جہتوں سے پیش کئے جانے پر سب سے زیادہ مقبول رہا، بہت سے فنکار اپنے ڈراموں، گانوں اور رقص کی پینٹنگز میں خلیل جبران سے متاثر رہے۔ ان میں لبنانی نژاد میکسیکن اداکارہ سلمیٰ ہائیک بھی شامل ہیں، جنہوں نے سنہء 2014 میں ایک اینیمیٹڈ فلم تیار کی تھی، جس کی بنیاد “The Prophet ” تھی, اور یہی اس کا عنوان تھا۔ یہ فلم اس کے کرداروں “المصطفیٰ” اور چھوٹی بچی “المطرہ” کی کہانی بیان کرتی ہے، جو اپنے کاموں اور پینٹنگز کو فوج کے جبر سے بچاتی ہے۔ اس فلم کے واقعات کا پس منظر لبنان میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں پیش آتے ہیں۔

فنکاروں اور مشہور شخصیات میں وہ جو فنکارانہ طور پر “The Prohpet” سے متاثر تھے، ان لوگوں میں امریکی گلوکار ایلوس پریسلے بھی شامل ہیں، جنہوں نے درجنوں بار “The Prohpet” کو گایا، اس نے اسے حفظ کیا اور وہ دوستوں کو خصوصیاس کی کاپیاں دیتا تھا ان میں ایک اس کے ہاتھ کی لکھائی بھی ہے جو اس نے اپنے دوست اور ساتھی ایڈ پارکر کو تحفے میں دیے تھے۔ یہ دو سال قبل تقریباً 30 ہزار ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ (تصویر پوسٹ نیں موجود ہے)۔ مزید جن فنکاروں نے خلیل جبران سے متاثر ہوکر اس کے الفاظ کو گانے میں گایا ان میں بیٹلس کے گلوکار جان لینن بھی شامل تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : مجھے نہیں معلوم کہ ہمارا اردو ادب خصوصا ً سنہء 1960 کے بعد میں پاکستان سے کتنی اردو کی کتب کا بین الاقوامی تراجم ہوئے، یا وہ اس قابل بھی تھے یعنی اپنے کانٹینٹ میں وہ کسی کی توجہ لے سکتے تھے، جیسے اداس نسلیں، یا شہاب نامہ، الکھ نگری ہو یا زاوئیے، خصوصاً  قدرت اللہ شہاب کا “شہاب نامہ” جو ہمارے ہاں اولین ادب میں شمار کئے جاتے ہیں انگریزی زبان تو کیا کسی بھی زبان میں ترجمہ نہیں ہوسکا، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کتاب کی انتہا پسندانہ اپروچ رہی، جو کسی صورت کسی اور زبان اور تہذیب میں پذیرائی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی تھی یا کچھ اور وجہ ہے۔ میری معلومات میں امراو جان ادا، مرزا ھادی رسوا کی اردو کتاب کا ترجمہ خشونت سنگھ نے انگریزی میں کیا ہے، اس کے علاوہ قرتہ العین حیدر کا “آگ کا دریا’, راجیندر سنگھ بیدی کی ‘میلی چادر’ ، پریم چند کی ‘بازار حسن’ ، مگر یہ سب بھی سنہء 1960:سے پہلے کی کتب ہیں، ماسوائے عمیرہ احمد کی “پیر کامل” وہ بھی لوکل پبلشر نے انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا قاری بھی صرف ہمارے دیسی باہر ممالک کے رہنے والے لوگ ہی ہیں۔ جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ عرب کے تمام ممالک کے رائٹرز کی کتب لازمی تین یا چار زبانوں میں اشاعت ہوتی ہیں، اور انہیں ممالک کے غیرملکی پبلشرز ہی اسے شائع کرتے ہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ کچھ سیاستدانوں پرویز مشرف in the line of fire, عمران خان کی آپ بیتی، ہو یا ملالہ کی I am Malaa, کے علاوہ چند ایک سوشل ایشوز یا خطے کی صورتحال کے مسائل یا اسٹریٹجک بنیادوں پر لکھی جانے والی یا اعداد و شمار کی کچھ انگریزی کتب پاکستان میں ضرور پبلش ہوتی رہی ہیں۔ مگر ہمارا تخلیقی ادب کہاں ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply