وفا جن کی وراثت ہو۔۔۔(قسط2)سید شازل شاہ گیلانی

“بابا, بھائی کب تک آئیں گے کچھ بتایا انہوں نے ؟” نہیں بیٹا آج کال کر کے پوچھتا ہوں, خیر تو ہے تم لوگ کیوں بار بار پوچھ رہے ہو ؟”بابا نے رمشاء سے پوچھا۔

” بابا ! آپکو پتا ہے نا وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں اب عید آرہی ہے اور بھائی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ڈھیر ساری شاپنگ کروائیں گے”
بابا ہنسے کہ تم صرف اپنی شاپنگ کے لیے بھائی کو مس کر رہی ہو؟ “نہیں نہیں بابا ،میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا، بس وہ خیر سے آ جائیں
ان کے ساتھ تو ہر دن عید ہوتا ہے”
“جی میری جان دعا کیا کرو اپنے بھائی کے لیے۔ بابا یہ کہہ کر مسجد کی طرف چل دیے جہاں موذن ربِ کبریا کی بڑائی بیان کر رہا تھا

سر علیم نے میس پہ آتے ہی پوچھا۔ “ارے بھئ کہاں ہے ہمارا نیا شہزادہ کوئی خدمت سیوا بھی کی ہے یا نہیں ؟؟
زین کیسے ہو کورس کیسا رہا اور یہاں کا ماحول اور سٹاف کیسا لگا ؟”
” جی سر سب کچھ بہت اچھا ہے آپکی بہت تعریف سنی ہے ماشاء اللہ” زین نے جواب دیا۔

“چلو بھئ اگر ٹی بریک کر لی ہو تو چلیں ،ابھی کچھ دیر میں نکلنا ہے ہم نے ، تو کچھ چیزیں ڈسکس کر لیں۔ ۔ ۔ عامر صاحب آپ زین, حوالدار طارق ,نائیک اسماعیل اور باقی لڑکوں کو لے کر کانفرنس روم میں آ جائیں ” وہ اتنا کہہ کر باہر نکل گئے۔

کچھ دیر میں سب کانفرنس روم میں جمع تھے, سر علیم نے تفصیل بتانا شروع کی۔ ۔ ۔ “جوانو، جیسا کہ تم سب جانتے ہو کہ اس ایریا میں ہمارا کام کیا ہے بہت بھاری ذمہ داری ہم سب پہ ڈالی گئی ہے یہاں سے چالیس کلومیٹر دور بارڈر کے بالکل پاس تورا توغہ کے پہاڑی علاقے میں موومنٹ دیکھی گئی ہے۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ انکی تعداد کافی زیادہ ہے اور ہتھیاروں کی مسلسل سپلائی جاری ہے, ہمیں انکی تعداد یا ہتھیاروں کی کوئی پرواہ نہیں , ہم اس وطن کے محافظ ہیں اور یہ وطن ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے ۔

ہم 13لوگ ہوں گے، 6 لوگوں کی ایک ٹُکری جس میں نائب صوبیدار عصمت حوالدار طارق, لانس نائیک بابر, لانس نائیک وقار اور سپاہی ارشد ہونگے ا ن کو لیڈ لیفٹیننٹ زین کریں گے ، جبکہ میرے ساتھ صوبیدار عامر, حوالدار اللہ بخش, نائیک اسماعیل, لانس نائیک سلطان اور سپاہی توقیر ہونگے, حوالدار شوکت ہمیں وائرلیس کمیونیکیشن بیک اپ دیں گے, عامر صاحب فٹافٹ تمام ہتھیار ایمونیشن گاڑیاں اور باقی سامان چیک کروالیں, تمام لوگ سٹینڈ بائی ہونگے اور موو کا آرڈر ملتے ہی ایک منٹ میں نکلنا ہوگا۔۔۔ کوئ شک ؟” ” نو سر” کی فلک شگاف آواز سے کانفرنس روم گونج اٹھا۔۔

“چلیں اللہ کا نام لیکر اپنا اپنا سامان دیکھ لیں اور اپنا آووِر سِک ( راستے کا کھانا ) پیک کروا لیں, اللہ پاک ہم سب کو اپنی عافیت میں پناہ دے ” انہی الفاظ کے ساتھ سر علیم نے بریفنگ کا اختتام کیا اور زین کو باہر آنے کا اشارہ کیا, وہ انکے ساتھ چلتا ہوا روم سے باہر آگیا, سر علیم اسے لیکر اپنے آفس میں آ بیٹھے۔۔ ” یار زین ،سوری کہ میں تمہیں اچھی طرح ویلکم نہیں کر سکا ،حالات و واقعات تمہارے سامنے ہی ہیں، دل میں مت رکھنا”
” نہیں نہیں سر کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔”

اچھا بتاؤ تمہارے بابا کیسے ہیں؟ He is Such a Great Person یار, اکیڈمی میں وہ میرے انسٹرکٹر رہ چکے ہیں, بہت کچھ سیکھا ہے میں نے ان سے ”

” جی سر ماشاء اللہ بہت بہتر ہیں، آپکی بہت تعریف کرتے ہیں زین نے جواب دیا , ابھی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ انٹرکام بج اٹھا, سر علیم نے کال ریسیو کی اور کچھ دیر بات کرنے کے بعد ریسیور رکھ دیا اور بولے, “زین چلو بھئی کام کا وقت آ پہنچا ہے تم اپنے ساتھ PSR-90 رکھو گے آج دیکھتے ہیں کہ ٹاپر کا نشانہ کیسا ہے؟” انہوں نے خوشگوار لہجے میں کہا
“جی سر، آپ انشاء اللہ نا امید نہیں ہوں گے” اس نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا

سر علیم اور وہ پارکنگ کی جانب نکلے تو عامر صاحب تمام جوانوں اور ہتھیاروں کے ساتھ وہاں موجود تھے, موو کا آرڈر ملتے ہی سب گاڑیوں کی طرف لپکے اور سوار ہوتے ہی گاڑیاں اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگیں۔۔

زین تم درّے کے سامنے ٹاپ پہ اپنی پوزیشن سنبھال لو۔ عصمت صاحب تمہیں اسسٹ کریں گے اور باقی تم دونوں کو کور بیک اپ دیں گے, ایسی جگہ منتخب کرنا جہاں تمہیں ڈھونڈنا ناممکن ہو, شوکت تمہیں کمیونیکیشن دے گا کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے تو تمہیں اختیار ہے کہ سچویشن کے مطابق فیصلہ لے لو اور یاد رہے اس ایریا میں جا بجا آئی ای ڈیز بکھری پڑی ہیں ان سے بچ کر رہنا, میں یہاں نیچے رہوں گا اور گراؤنڈ پہ ٹارگٹ اِنگیج کروں گا اور جب تک میں تمہیں سگنل نہ دوں تم فائر نہیں  کرو گے, یاد رہے کسی بھی حالت میں تم اپنی پوزیشن نہیں  چھوڑو گے چاہے یہاں سب کے سب کیوں نہ مارے جائیں , کوئی شک؟”

“نو سر ” کہتے ہوئے زین نے اپنا ہتھیار اٹھایا اور باقی لوگوں کے ساتھ ٹاپ کی طرف چل پڑا ۔

سر علیم نے اپنے گروپ کو آدھے چاند کی شکل میں کور لینے کو کہا اور ٹیلی سکوپ آنکھوں پہ لگائے اس پہاڑی درّے پہ نگاہیں جما لیں جو دونوں سرحدوں کو جوڑتا تھا , اس تنگ و تاریک درّے سے ہی دہشت گرد وطن عزیز میں داخل ہو کر بزدلانہ کاروائیاں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ آج اس گروپ کو یہ مشن دیا گیا کہ کچھ بھی کر کے آج داخل ہونے والے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے اور اس کے بعد اس جگہ کو پاٹ دیا جائے تاکہ یہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکے ۔۔

آہستہ آہستہ اندھیرے نے روشنی کو نگلنا شروع کر دیا, گہرا گھپ اندھیرا ہر سو پھیلتا چلا گیا۔ تمام لوگ دم سادھے اپنی اپنی پوزیشن سنبھالے دشمن کے آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ یکایک فضا ٹریسر راؤنڈ کی روشنی سے منور ہو گئی۔ سر علیم نے فوری سب سے زمین لیٹ جانے کو کہا “عامر صاحب لگتا ہے بھائی لوگ آ رہے ہیں ؟؟

جی سر راؤنڈ شاید اسی لیے فائر کیا گیا ہے کہ وہ درہ پار کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ یہاں کوئی خطرہ تو نہیں۔ عامر صاحب گویا ہوئے۔

وائر لیس پہ سرگوشی گونجی۔ تمام لوگ تیار رہیں کسی بھی وقت وہ لوگ درہ پار کر اس طرف آ نکلیں گے کوئی  آواز یا شور نہیں ہونا چاہیے۔ ہم کسی بھی صورت انکو واپس نہیں  جانے دے سکتے, انہوں نے سوچا ہوگا کہ شاید پاسبانِ وطن سو رہے ہیں مگر آج انکو کوئی  موقع  نہیں دیا جائے گا۔

تمام لوگ فائر پوزیشن پہ آ جائیں اور ہتھیاروں پہ سائلنسرز فِٹ کر لیں۔ ہر فائرر پوزیشن بدل کر فائر کرے گا تاکہ ہم کہاں ہیں یہ انکو واضح نا ہو۔ زین تم اپنا فوکس درے پہ رکھو گے ہم انکو یہاں انگیج کریں گے کوئی  بھی آدمی زندہ سلامت درے کے پار نہیں جانا چاہیے۔ میرے شیرو اس امتحان میں اللہ تبارک و تعالی ہمیں سرخرو فرمائے ۔۔

ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺩﺭّﮮ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺁﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ گئیں , کچھ لوگ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺴﯽ ﻣﺬﺍﻕ کر رہے تھے جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ لوگ تعداد میں زیادہ ہیں، ان کے ﻗﮩﻘﮩﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺩﻭﺵ ﭘﮧ ﺑﮑﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ, ﺍِﺩﮬﺮ ﺗﻤﺎﻡ لوگوں نے ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﻓﺎﺋﺮ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ تھے,ان کی انگلیاں ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﯿﻘﺮﺍﺭ , ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻥ ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ تھے ﮐﮧ ﮐﺐ مخصوص ﺳﮕﻨﻞ ﺩﯾﺎ جاﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺩﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﮐﻤﺮ ﭘﮧ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺑﯿﮓ , ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺷﻨﮑﻮﻑ ﺍﻭﺭ ﺁﺭ ﭘﯽﺟﯽ ﺳﯿﻮﻥ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺩﺭﮮ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺁﮔﮯ۔۔۔ﮐﮭﻠﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ۔

ﺍن لوگوں کی ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺍﺏ بالکل ﺻﺎﻑ سنائی دےﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﮔﻼ ﭘﻼﻥ ﻓﺎﺋﻨﻞ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮎ ﮐﺮ آﺭﺍﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻋﻠﯽ الصبح ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ, ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ کاندھوﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺟﮭﯿﻨﮕﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎئی ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻟﺪﻭﺯ ﭼﯿﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﻨﺎﭨﮯ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﭼﯿﺮ ﺩﯾﺎ, ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﻔﻞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮔﻮﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ہم نے انہیں سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ان پر یلغار کردی تھی۔
ﺍﺱ کے ﺳﺎﺗﮫ  ﮨﯽ خون و ﺁﺗﺶ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔

ﭘﮩﻼ ﻓﺎﺋﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﮯ, ﻭﮦ جگہ ﺟﮩﺎﮞ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﻮﺕ کا ﺳﺎ ﺳﻨﺎﭨﺎ چھایا ﺗﮭﺎ، ﺍﺏ وہاں ﮔﻮﻟﯿﻮﮞ ﮐﯽ  ﺗﮍﺗﮍﺍﮨﭧ کی گونج ﺗﮭﯽ, ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﭨﺮﯾﺴﺮ ﺭﺍﺅﻧڈ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﻈﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ, ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮕﮧ ﻣﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺳﻨﺒﮭﺎل ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ” ﻋﺼﻤﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﮨﻮﺍ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺍﻭﺭ ﺳﭙﯿڈ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺩﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ” ﺯﯾﻦ ﻧﮯ ﻋﺼﻤﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﯿﺎ “ﺟﯽ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﺎ ﺩﺑﺎﺅ بالکل ﻧﺎﺭﻣﻞ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺷﻤﺎﻻً ﺟﻨﻮﺑﺎً ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﻣﺪﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺳﻤﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮕﯿﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﻮﮔﯽ, ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﺭﮔﭧ ﺳﻠﯿﮑﭧ ﮐﺮﯾﮟ”

جاری ہے۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وفا جن کی وراثت ہو۔۔(قسط1)سید شازل شاہ گیلانی

Facebook Comments

سید شازل شاہ گیلانی
پاسبان وطن سے تعلق , وطن سے محبت کا جذبہ اور شہادت کی تڑپ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply