تماشا

گھڑی کی سوئیاں رات کا ایک بجانے کیلئے آگے رینگ رہی تھیں۔ زیرو پاور بلب کی سبز روشنی میں ڈوبا ہوا کمرا، کمرے میں موجود سازوسامان، گھڑی کی ٹک ٹک، یہی ایک مدھم مگر تیکھی سرگوشی کمرے کے سکوت میں اضطراب پیدا کر رہی تھی۔ میز پر پانی کے گلاس کے ساتھ پڑی ٹوٹی پیالی میں سے دھویں کی باریک سیدھی لائن چھت کی طرف مسلسل اٹھتی، ڈیڑھ دو فٹ پر جا کر اپنا توازن کھوتی، لڑکھڑاتی اور ریشہ ریشہ بن کر بکھرتی جا رہی تھی۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا۔ تسلسل، توازن، لڑکھڑانے، بکھرنے کا ایک تماشا جاری تھا جو زندگی میں تو بدرجہ اتم موجود ہے ہی، فی الوقت دھویں کو بھی اس کا سامنا تھا۔
لحاف سے منہ نکالے، بغیر آنکھیں جھپکے، میں سب دیکھ رہا تھا، آنکھ کب کھلی اور کب میں نے یہ ماحول دریافت کیا، کب اسکا مشاہدہ کرنے لگا، کب اسے وقت اور زندگی سے مطابقت دینے لگا، کچھ یاد نہیں۔ ابو شاید سگریٹ کے کش لگاتے لگاتے سو گئے تھے اور آدھا سگریٹ پیالی میں پڑا سلگ رہا تھا۔ بیچاری بے جان آدھی سگریٹ، اپنا وجود کھونے سے پہلے یہ کرتب دکھانا چاہ رہی تھی، اچھی کوشش تھی۔
باہر گلی میں شائد خان چوکیدار، گشت کے بعد تھڑے پر آن بیٹھا تھا، جس کے موبائل پر لگا پشتو گانا، جاگتے رہنا، جاگتے رہنا یا سیٹی کی آواز کا جدید متبادل سمجھا جا سکتا تھا۔ میں کمرے سے صحن میں نکل آیا تھا، سرد تیز ہوا نے چھت کی منڈیر پر سوکھنے کیلئے ڈالے ہوئے کپڑے شیڈ پر گرا دیئے تھے۔ چھت پر ہوا خوری کرنا تھی مگر باد صرصر کی کرامات
باد صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا
یہ نہ پوچھو کہ یہاں رات سے پہلے کیا تھا
شیڈ پر پہنچ کر یک بیک میری نظر روشندان سے اندر کمرے میں پڑی جہاں میرا بستر تھا۔ اصولا وہاں کوئی نہیں ہونا چاہئیے تھا مگر وہاں کوئی صاحب گہری نیند سو رہے تھے۔ کون ہے وہ؟ بینائی پر زور دے کر بغور چہرہ پہچاننے کی کوشش کی، مگر مگر یہ کیا، میرا پتلا !!!!
میرا ہمزاد!!!
میرا بدن نرم ربڑ کی طرح کانپا، چیخ حلق میں گھٹ گئی، ہڑ بڑا کر دوڑنے کی کوشش کی تو اعضاء ناکارہ، بصارت گل کرنے کیلئے آنکھیں بند کر کے سر دائیں بائیں مارنے لگا، آنکھیں کھولی تو خود کو اپنے بستر پر ہی پایا۔
خدایا یہ کیا ماجرا ہوا؟
یہ کیا خواب تھا؟
تیز دھڑکن، کانپتے ہاتھ پیر، ہکلاتی ہوئی زبان، جتنی آیات یاد تھیں سب دو چار بار دہرا ڈالیں۔ اعصاب قابو ہوئے تو پانی کا گلاس اٹھانے کیلئے میز کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
میز پر پانی کے گلاس کے ساتھ پڑی ٹوٹی پیالی میں وہی سگریٹ سلگ رہا تھا۔ ایک لمحے کیلئے کمرے کے ماحول کا جائزہ لیا جو من و عن وہی تھا، جو خواب میں میرے محسوسات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر چکا تھا۔
سراسیمگی بڑھی، گھڑی کی طرف نظر ڈالی، ایک کے تعاقب میں رینگتی سوئیاں اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ میرے لئے بے معنی پشتو گانے کے بول، سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے۔ خان چوکیدار، جو گشت کے بعد باہر تھڑے پہ آ بیٹھا تھا، جس کے موبائل سے نکلتی دھن میرے لئے نئی نہ تھی۔ حقیقت اور خواب کی کشاکش میں میرا وجود منجمد ہو رہا تھا، قدرت کی طرف سے عجیب تماشا دکھایا جا چکا تھا جس کے بعد کمرے کی تمام بے جان اشیاء مجھ جاندار پہ ہنستی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply