تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
(دانیال طریر)
دسمبر کے آتے ہی شاعری کی دنیا کے موسمی مینڈک کسی نہ کسی جگہ سے بر آمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کی پہلی کوشش کسی سابقہ مشہور ِ عالم شاعر کے کسی شعر پر ہاتھ صاف کرنا ہوتی ہے اس میں لفظی ردّو بدل کر کے اس کو دسمبر کی مناسبت سے بنا لیا جاتا ہےیا پھر اپنے بے وزن شعر تخلیق کیے جاتے ہیں ۔ اس کوشش میں ان کے شعر منچلے اور دل پھینک نوجوانوں کے جذبات کو مزید انگیخت کرنے کا کام دیتے ہیں اور پھرسردیوں کے موسم سے وہ ان شعروں سے ہر دو طرح لطف اندوز ہوتے ہیں یعنی ایک یہ کہ کچی عمر کے کچے رشتوں کی محبت جسے عشقِ حقیقی سمجھ بیٹھے ہیں ان کے نارسائی کے غم کو بھی مٹانے کا کام کرتے ہیں اور اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال لیتے ہیں اور حسبِ سابق یہ سلسلہ امسال بھی نومبر کے آخرد نوں سے شروع ہو کر نئے سال تک چلے گا۔ اور دسمبر ان کو جی بھر کر رلانے کے بعد بئے سال کی خوشیوں میں دھکیل کر ان کے سارے مجازی اور حقیقی غموں کو اپنے اندر سمو لینے کے بعد اپنی عمر پوری کرے گا۔ دسمبر کے مہینہ میں کیا کیا ہوا یہ آپ گوگل کر لیں ویسے بھی شاعری کے لحاظ سے دسمبر گوگل پر ٹاپ سرچ ہے۔ یہ Whatsappکے Status کا زمانہ ہے۔ کچھ سرچ نہ بھی کریں تو آپ کو Statusسے سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔
10 دسمبر 1979ء :
یہ پاکستان کے لئے خوشیوں بھرا دن ہے جب پاکستان کے پہلے سائنسدان ڈاکٹر محمد عبد السلام کو طبیعات(Physics) کے شعبہ میں نوبیل انعام دیا گیا۔ وہ سائنس کے میدان میں پاکستان اور کسی بھی اسلامی ملک سے تعلق رکھنے والے پہلے فرد اور یہ انعام حاصل کرنے والے پہلے سائنسدان ہیں۔
16 دسمبر 2014ء:
یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ اندوہناک دن ہے جب آرمی پبلک سکول پشاور پر ایک دہشت گردانہ کارروائی میں 150 کے قریب طلباء کو شہید کیا گیا۔ گزشتہ 5 سالوں سے 23 مارچ، 14 اگست اور 6 ستمبر کے بعد 16 دسمبر ایسا دن آتاہے جب پوری قوم اس سانحہ کی یاد میں اشکبار ہوتی ہے اور ہر مردو زن اس واقعہ کو چشمِ تر سے بیان کرتا ہے۔
اس واقعہ کے بعد دنیا کی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا ختم ہوا۔ جو اسلام آباد میں موجودہ برسرِ اقتدار پارٹیPTI نے سابقہ حکومت کے خلاف دے رکھا تھا۔
تیسرا عشرہ
تیسرا عشرہ بچوں میں خوشیاں لے کر آتا ہے اور وہ موسمِ سرما کی تعطیلات کی خوشی کی وجہ سے ہی دسمبر کو بہت پسند کرتے ہیں گو ایک عشرہ پر مشتمل یہ چھٹیاں اور پھر نئے سال کی مبارک بار دیتے ہوئے وہ دوبارہ سکول کی جانب خوش باش روانہ ہوتے ہیں۔
25دسمبر :
آخری عشرہ میں 25 دسمبر کی پہلے تو دو وجوہات سے مشہور تھا۔ جس میں سے پہلی قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ علیہ کی پیدائش کا دن ہے اور دوسرا عیسائی برادری حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کا دن کرسمس ڈے یا بڑا دن کے نام سے مناتی ہے۔ اس خوشی کی تیاری بھی سارا مہینہ جاری رہتی ہے۔
تیسری نو دریافت شدہ وجہ چند سال قبل ہی دریافت ہوئی ہے کہ اسی دن پاکستان کی ایک سب سے اہم متنازعہ خبروں میں گھری شخصیت سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب، سابق وزیرِ اعظم پاکستان ، سابق صدر مسلم لیگ مسلم لیگ (ن) جناب محمد نواز شریف صاحب ہیں جو 25 دسمبر 1949ء کو دنیا میں وارد ہوئے۔ ان کے متوالے اس دن کو بھر پور طور پر مناتے ہیں ۔ اور قائد اعظم کی جگہ سابقہ نااہل قائد کی سالگرہ کے کیک کاٹے جاتے ہیں اور پاکستان کی سلامتی اور قائم دائم رہنے کے بجائے میاں صاحب کی سلامتی اور عافیت کی دعاؤں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پچھلی بار 10 دسمبر 2000ء کو میاں صاحب ملک سے باہر بھیجے گئے تھے اور میاں صاحب اس بار دسمبر کو دغا دے گئے۔
27 دسمبر 2008ء
یہ سندھ کا ایک سیاہ دن ہے جب دخترِ مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ مرحومہ کی برسی کے موقع پر سندھ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے اور میڈیا فجر سے عشاء تک اس کو کوریج دینے میں گزارتا ہے۔
دسمبر اور PPPP:
جملہ معترضہ یہ کہ PPP کے لئے دسمبر بڑا ہی خوش کن ہے۔ 2دسمبر 1988ء کو بے نظیر بھٹو صاحبہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں اور وہ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم تھیں۔ 18 دسمبر 1987ء کو ان کی شادی سابق صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری سے ہوئی۔ 30 دسمبر 1966ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے PPP کی بنیاد رکھی اور 30 دسمبر 2008ء کو ’’بلاول زرداری‘‘ کی دوسری ولادت با سعادت ہوئی اور ان کا نیا نام ’’بلاول بھٹو زرداری‘‘ رکھا گیا۔
وفات شدگان:
دسمبر نے پاکستان سے کئی نامور شخصیات کو اگلے سال کا سورج نہ دیکھنے دیا۔ جن میں پطرس بخاری، حفیظ جالندھری، پروین شاکر، عزیز میاں قوال، میجر شبیر شریف شہید (نشانِ حیدر)، ملکہ ترنم نور جہاں، جنید جمشید شامل ہیں۔
بہر حال دسمبر ہر سال آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ کچھ دوست احباب اور دیگر لوگ یہاں داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اور ہم دسمبر کی خاموش سرد راتو ں میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے گرم بستروں میں نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
(امجد سلام امجد)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں