پندرہ صدی پرانا اہل عرب کا تاریخی “عکاظ میلہ” ۔۔منصور ندیم

اہل عرب کا عکاظ میلہ اسلام کی آمد سے قبل عربوں کا سب سے بڑا میلہ تھا۔ یہ اہل عرب کا سب سے مشہور اور منفرد میلہ ہوا کرتا تھا۔ اس میلے کا آغاز حجاز میں اسلام سے پہلے سنہ عیسوی 501 میں شروع ہوا تھا، عرب قبائل ہر سال چاند کے گیارہویں مہینے یعنی ذیقعدہ کی پہلی تاریخ کو یہاں آتے تھے، اپنا تجارتی سامان فروخت کرتے اور یہ میلہ بیس روز تک جاری رہتا تھا، اہل حجاز کی روایت تھی کہ وہ ایک مقام پر جمع ہو کر دیگر قبائل کو اپنی شہسواری، فن حرب و ضرب اور شعرو شاعری سے مرغوب کیا کرتے تھے اس حوالے سے یہ میلہ منعقد کیا جاتا تھا، اس وقت کے فنکار و شعراء اس میلے کے ہر سال منتظر رہتے تھے، ان بیس دنوں کے میلے میں اہل حجاز عکاظ میلے میں خوب شغل اور موج مستی کیا کرتے تھے۔ عرب تاریخ کے مطابق ’سوق عکاظ‘ اہل عرب میں بے حد مقبول تھا اور حجاز کا سب سے بڑا سالانہ میلہ ہوتا تھا۔ بیس دن جاری رہنے والے اس میلے کے شرکاء و تاجران ایک دوسرے بازار جسے “سوق مجنہ” کہا جاتا تھا وہاں کا رخ کرتے تھے جہاں یہ بازار مزید دس دنوں کے لئے لگایا جاتا تھا۔

شعراء کے مشہور کلام “سبعہ معلقات” کا فیصلہ بھی یہیں پر ہوتا تھا، اور تمام اہل فنون و اس عہد کے علماء بھی اس میلے میں شرکت کرتے تھے، قبل از نبوت عزت مآب رسول  ﷺ نے بھی اس میلے میں شرکت کی تھی، زمانہ قبل از اسلام سے پہلے شروع ہونے والا یہ عکاظ میلہ بعد از ظہور اسلام بھی ایک اہم تجارتی اور تفریحی حیثیت سے جاری رہا تھا۔ یعنی رسولﷺ کی نبوت کے بعد سے لے کے تمام خلفاء کے ادوار کے بعد بنو امیہ کے دور تک عکاظ بازار اسی طرح ہر برس منعقد ہوتا رہا تھا۔ تاریخی کتب کے مطابق اسلامی دارالخلافہ دمشق منتقل ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اس خطے کی تجارتی مرکزیت کم ہوگئی اور بالآخر بنو امیہ کے دور میں سوق عکاظ ختم ہو گیا۔

لیکن سعودی عرب کے سابق شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے عکاظ بازار کے ختم ہوجانے کے تقریباً ۱۳ صدیاں گزر جانے کے بعد ایک بار پھر اسے زندہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، سابق شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے اپنی حکمرانی کے عہد میں ماہرین کی ایک ٹیم مختص کی تھی جس کی ذمہ داری تاریخی “سوق عکاظ” کا محل وقوع معلوم کرنا تھا، ماہرین تاریخ اور جغرافیہ دانوں پر مشتمل ٹیم نے تاریخی سوق عکاظ کا محل وقوع معلوم کرنے پر خاصا وقت لیا اور بالآخر نشاندہی ہونے تک شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود دنیا سے جاچکے تھے، ان کے بعد سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دورمیں تاریخی سوق عکاظ کو بالآخر سنہء2007 یعنی سنہ ہجری ۱۴۲۸ میں اس میلے کا دوبارہ سے آغاز کیا گیا۔ سوق عکاظ یا عکاظ میلے کا مقام طائف شہر سے تقریبا ۳۵ کلو میٹر ریاض ہائی وے کی جانب ہے، اور گزشتہ پندرہ برسوں سے ہر سال عرب کی صدیوں قدیم روایت کے مطابق منعقد کیا جارہا تھا، موجودہ سوق عکاظ اسی مقام پر منعقد کیا جاتا ہے، جو پندرہ صدی پہلے شروع ہوا اور آج سے تیرہ سو برس قبل تک آخری دفعہ بنو امیہ کے عہد میں منعقد کیا جاتا تھا کہ سنہء 2019 کے بعد سے کرونا کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگیا۔

سنہء 2019 میں آخری بار یہ پر فضا مقام طائف کے مقام پر ’طائف سیزن‘ کے عنوان سے منعقد ہوا تھا، سنہء 2019 میں عکاظ میلے کا آغاز یکم اگست کو ہوا تھا جو اکتیس اگست تک جاری رہا تھا، سنہء 2019 کے عکاظ میلے میں ۳۰ سے زائد شعری نشستیں اور نغموں کی محفلیں منعقد ہوئی تھیں، ۱۱ سٹیج ڈراموں کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ مایہ ناز مقامی عرب شعرا نے میلے میں اپنا کلام پیش کیا تھا، یہاں تاریخی بازار بھی لگائے گئے تھے جس میں مٹی کے برتن، دستی مصنوعات اور قدیم دور کی تاریخی مصنوعات رکھی کی گئی تھیں۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والے میلے میں خدمات انجام دینے والے دو ہزار کے قریب افراد کی تنخواہوں کی مد میں ایک کروڑ ریال سے زائد کے اخراجات ہوئے تھے، خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں ادا کیا جانا اس امر کی بھی دلیل ہے کہ یہ میلہ معاشی اعتبار سے بھی کامیاب رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میلے میں فنکار، ہدایت کار، شعراء، شتر بان اور گھڑ سوار بھی شامل تھے جن کی خدمات عکاظ میلے کے لئے فراہم کی گئی تھیں۔ بیرون ملک سے بھی فنکاروں نے عکاظ میلے میں شرکت کی تھی جن کے جملہ اخراجات میلے کی انتظامیہ کی جانب سے ادا کئے گئے تھے۔ امید ہے کہ کرونا کی پابندی اب ختم ہو چکی ہے، اگلے سال یہ تاریخی میلہ جس کی نسبت قبل از اسلام سے رہی پندرہ صدی کے بعد پھر ویسے ہی جاری رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply