• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداریِ مِلّت – قسط چہارم / مؤلف: علامہ نائینی/مترجم: اعجاز نقوی

بیداریِ مِلّت – قسط چہارم / مؤلف: علامہ نائینی/مترجم: اعجاز نقوی

جو کچھ ہم نے گزشتہ صفحات میں بیان کیا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت و سلطنت کی پہلی قسم جس میں حکمران اپنی عوام کا مکمل مالک ہوتا ہے اور اپنی من مانی کرتا ہے، اس کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔

1: قوم و ملت کا سلطان کے ارادے کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔
2: ملت کے بزرگان و چنیدہ افراد کا سلطان کے ساتھ ملکی معاملات میں برابر کا شریک نہ ہونا اور تمام حکومتی معاملات کا سلطان کے ارادے کےتابع ہونا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سلطان/حاکم اپنے اعمال کا ذمہ دار اور جوابدہ نہیں بنتا۔
اور اسی کا نتیجہ آج ملکِ ایران کی بربادی اور حکومت کی ویرانی اور ملت کی تباہی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اور یہ تباہی کسی مقام پر رکنے میں نہیں آرہی اور دین، ملت اور حکومت تینوں چیزیں تباہی کے گڑھے میں گرتی جا رہی ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ آنچہ کہ عیان است چہ حاجت بہ بیان است!
آنکھوں سے دکھائی دینے والی حقیقت کو بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
حکومت کی دوسری قسم کےبارے میں ہماری وضاحت سے آپ جان چکے ہیں کہ یہ حکومت صرف نوع انسانی کے اجتماعی مسائل تک محدود ہوتی ہے۔ اور اس کی بنیاد پہلی قسم کے برعکس جن دو چیزوں پر قائم ہے، وہ یہ ہیں۔
1: آزادی یعنی ملت کے افراد سلطان کےغلام نہیں ہوتے۔ بلکہ آزاد انسان ہوتے ہیں۔
2: مساوات و مشارکت، یعنی افرادِ ملت سلطان/ حاکم کے ساتھ تمام ملکی معاملات، چاہے معاشی معاملات ہوں چاہے سیاسی و سماجی، میں برابر اور اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔
انہی دو اصولوں (آزادی و مساوات) کا نتیجہ ہے کہ ملت، حکومت پر نظارت کا حق رکھتی ہے۔ اور حکومتی عہدیداروں میں جوابدہی اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
صدرِ اسلام میں یہ دو اصول اس قدر پختہ تھے، اور احساس ذمہ داری اس قدر شدید تھا کہ خلیفہ وقت کی تمام تر طاقت و ہیبت کےباوجود لوگوں نے صرف ایک یمنی قیمتی پوشاک کے پہننے کی وجہ سے خلیفہ ثانی حضرت عمر پر اعتراض کردیا تھا۔ کیونکہ یہ پوشاک عام مسلمانوں کو ملنے والے حصے سے زیادہ تھی۔ چنانچہ جب وہ منبر پر تھے تو لوگوں نے ان سے پوچھ لیا کہ کیا آپ نے اپنے حصے سے زیادہ لیا ہے؟
اور جب خلیفہ نے بتایا کہ میں نے اپنےبیٹے عبداللہ سے اس کا حصہ لے کر یہ پوشاک بنوائی ہے، تب لوگوں نے ان کا پیچھا چھوڑا۔ (غالباً عبداللہ بن عمر بھی اس وقت محفل میں موجود تھے۔ جنہوں نے اٹھ کر گواہی دی کہ میں نے اپنا حصہ اپنے والد کو دے دیا تھا۔)
اور جب لوگوں کو جنگ پر جانے کا حکم دیا تو لوگوں نےجواب میں کہا ” لَاسَمْعًا وَ لَاطَاعَةً” یعنی ہم آپ کی بات ماننے کے پابند نہیں۔
اسی طرح جب ایک موقع پر خلیفہ دوم نے کہا کہ اگر میں قرآن و سنت کے خلاف جاوں تو کیا کرو گے؟
جواب میں لوگوں نے کہا کہ ہم آپکو اس تلوار سے ٹھیک کردیں گے!
اور خلیفہ نے اس بات پر خوشنودی کا اظہار کیا تھا۔ (1)
اور جب تک اسلامی حکومت میں ان دونوں اصولوں اور ان کی فروعات پر عمل کیا جاتا رہا، اور اسلامی حکومت دوسری قسم سے پہلی قسم میں تبدیل نہ ہوئی، تب تک اسلام نے محیر العقول قسم کی ترقی کی۔
لیکن جب امیر معاویہ اور بنو عاص نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور اسلامی حکومت کے اصول و فروع اپنی ضد میں تبدیل ہوگئے تو مسلمانوں کے حالات بھی بدل گئے۔ البتہ جب تک دنیا کی دوسری حکومتیں بھی اسی طرح رہیں، تب تک مسلم دنیا بھی ایک خاص حالت پر رکی رہی اور تنزلی کا سفر شروع نہ ہوا۔
لیکن جب دنیا نے حکومت کی فطری بنیادوں کو سمجھ کر اپنا انداز بدلا اور مذکورہ اصولوں کی پیروی شروع کی تو دنیا بھر کی حکومتوں نے تیز رفتاری سے ترقی کی۔ لیکن مسلمانوں پر طاغوتی بادشاہوں کی حکومت اور تسلط باقی رہنے کی وجہ سے مسلم دنیا قبل از اسلام کے دور جاہلیت کی طرف واپس ہوتی چلی گئی اور مقام انسانیت پہ فائز ہونے کے بعد حیوانیت بلکہ نباتیت (2) کی طرف گرتے چلے گئے۔ اور اس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
اِنَّ اللَّهَ لَایُغَیِّرُ مَابِقَومٍ حَتیَّ یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِہِم (3)
ترجمہ:
اور جب خدا کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھر نہیں سکتی۔ (ترجمہ از فتح محمد جالندھری)
(مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر اس آیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے:
“خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا”۔)
خلاصہ کلام یہ کہ ایک طرف وہ حکومت ہے جس میں ملت، سلطان کی دست بستہ غلام ہے۔ اور سلطان، شہریوں کو اپنا ذاتی غلام سمجھتا ہے۔ اور بزرگان ملت کو بھی سلطان کے ساتھ کسی قسم کی قانونی برابری حاصل نہیں۔
اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سلطان/حاکم کسی بات میں جوابدہ نہیں ہوتا۔
دوسری طرف وہ حکومت ہے جس کی بنیاد آزادی، شراکت اور مساوات پر ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام شہری، حاکم کے ساتھ قانون میں برابر ہوتے ہیں اور حاکم اپنے اعمال کا جوابدہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید، جو کہ کلام الہی ہے، اس میں اور آئمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین میں سلطان/حاکم وقت کی ایسی غیرمشروط اطاعت (جو حکومت کی قسم اول میں ہوتی ہے) کو عبودیت و بندگی قرار دیا گیا ہے جو حریت و آزادی کا متضاد ہے۔ اور دین اسلام کے ماننے والوں کو اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فراعنۂ مصر کی بنی اسرائیل پر حکومت کو بھی عبودیت کا نام دیا گیا ہے۔ حالانکہ بنی اسرائیل نے کبھی بھی قبطیوں (4) کی طرح فراعنہ کی پرستش و عبادت نہیں کی تھی، اسی وجہ سے فراعنۂ مصر بنی اسرائیل کو عذاب دیتے تھے۔ اور ان کو مصر سے ارض مقدس کی طرف جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔
اس کے باوجود سورہ شعراء میں حضرت موسی (ع) کی زبان سے یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ” تِلکَ نِعمَةٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَ بَنِی اِسْرَائِیلَ
ترجمہ (از فتح محمد جالندھری): اور کیا یہی احسان ہے جو آپ مجھ پر رکھتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟ (5)
اسی طرح دوسرے مقام پر قوم فرعون کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوتا ہے “وَ قَومُھُہَا لَنَا عَابِدُونَ”۔ (6)
ایک اور آیت میں قوم فرعون کی زبان سے یہ جملہ بھی ادا ہوتا ہے” وَاِنَّا فَوقَھُم قَاھِرُونَ”
ترجمہ:اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں۔(اعراف 127)
قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کی عبودیت سے مراد ان کی مقہوریت و غلامی ہے جس میں بنی اسرائیل گرفتار تھے۔
اور ہم ایک روایت میں جو پیغمبر اسلام (ص) سے تواتر کے ساتھ منقول ہوئی ہے اور شیعہ وسنی نے نقل کی ہے، جس میں نے آپ نے شجرہ ملعونہ کی نشاہدہی فرمائی کہ ” اِذَا بَلَغَ بَنُو العَاصِ ثَلثِینَ اتَّخَذُوْا دِینَ اللَّهِ دُوَلًا وَ عِبادَاللَّهِ خَوَلاً۔
جب بنو عاص کی تعداد تیس سے زیادہ ہوجائے گی تو دینِ خدا کو بازیچہ دست بنا لیں اور بندگان خدا کو اپنے غلام بنا لیں گے۔ (7)
اس حدیث میں ایک لفظ “خَوَلَا” استعمال ہوا ہے۔مجمع البحرین (8) میں اس کا ترجمہ غلام و عبد کیا گیا ہے۔ جبکہ قاموس (9) میں لکھا ہے کہ “مویشی یعنی پالتو جانور” بھی اس کے معنی میں شامل ہیں۔ قرآن مجید کی آیت میں بھی “خَوَل” کے معنی میں وسعت پائی جاتی ہے۔ “وَتَرَکْتُمْ مَاخَوَّلنَاکُمْ وَرَاءَ ظُہُورِکُمْ”(10)
اورجو(مال و متاع) ہم نے تمھیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس لفظ میں عمومیت پائی جاتی ہے۔
مذکورہ بالا حدیثِ نبوی، جو کہ ایک طرح سے غیبی خبر کا درجہ رکھتی ہے، کا مفہوم یہ ہے کہ شجرہ ملعونہ کی تعداد تیس ہوجائے تو دینِ خدا کو اپنی حکومت اور بندگان خدا کو اپنے غلام بلکہ اپنے پالتو مویشی بنا لیں گے۔ گویا کہ نبی مکرم (ص) نے اسلامی حکومت کے ولایت سے ملکیت میں تبدیل ہو جانے اور مسلمانوں کے ملوکیت کی زنجیروں میں جکڑے جانے کی خبر بہت پہلے ہی دے دی تھی۔ اور ہمیں بتادیا تھا کہ اس منحوس عدد کے مکمل ہونے کے بعد تم لوگ دینی حکومت کی بجائے ملوکیت میں زندگی گزارو گے۔ (مصنف نے کہا ہے کہ اس لحاظ سے یہ حدیث نبوت کی غیبی خبروں میں شمار ہوتی ہے)۔
جاری ہے

حواشی و حوالے

Advertisements
julia rana solicitors london

(1): یہ واقعات مشہور ہیں لیکن مجھے (مترجم کو) ابتدائی تاریخی کتب سے ان کا حوالہ نہیں مل سکا۔
(2): عرض مترجم: نباتیت یعنی گھاس پھونس کی طرح ہونا۔ چونکہ گھاس پھونس ہر انسان بلکہ جانوروں کے پاوں کے نیچے آکر کچلی جاتی ہے۔ اور مولف کے عہد تک (بلکہ اب بھی یہی حالت ہے) مسلمانوں کی حالت یہ ہوچکی تھی کہ دنیا کی ہر قوم انہیں کچلے جارہی تھی۔ اس لئے مولف نے یہ تعبیر استعمال کی ہے۔
(3): سورہ رعد، آیت 11۔
(4): یہاں “قبطی” مصر کے قدیم مقامی باشندوں کے لئےبولا گیا ہے۔ جو بنی اسرائیل کی مصر آمد سے پہلے وہاں آباد تھے۔ اور حضرت موسی پر ایمان نہیں لائے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ قبط بن حام بن نوح کی اولاد میں سے تھے اور عرب سے ہجرت کرکے مصر گئے تھے۔
موجودہ دور میں قبطی کلیسا کی ایک شاخ کےلئے بولا جاتا ہے۔ جو زیادہ تر آرتھوڈوکس مسیحی ہیں۔ اور مصر اور آذربائیجان میں آباد ہیں۔
(5): سورہ شعراء، آیت 22۔
یہ آیت حضرت موسی(ع) اور فرعون کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کا حصہ ہے جو مدائن سے مصر واپس آنے کے بعد حضرت موسی و فرعون کے درمیان ہوا۔ جب فرعون یہ طعنہ دیتا ہے کہ اے موسی! ہم نے تمھیں پالا پوسا اور جوان کیا۔ تو حضرت موسی جواب دیتے ہیں۔ یہ کیسا احسان ہے کہ تو نے میری قوم کو تو اپنا بندہ و غلام بنائے رکھا اور مجھے اپنے محل میں رکھے رہے۔
(6) سورہ مومنون، آیت 47۔
پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے: (ترجمہ از فتح محمد جالندھری)
کہنے لگے: کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں اور ان کی قوم کے لوگ ہمارے خدمتگار ہیں؟
(7): یہ روایت مختلف حدیثی کتب میں موجود ہے۔ البتہ اس کے الفاظ میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ “المستدرک علی الصحیحین” میں حضرت ابوذر غفاری سے جو حدیث مروی ہے اس میں بنو فلاں کی جگہ بنوامیہ کا لفظ ہے۔
پوری حدیث بمع سلسلہ سند کے یہاں پیش کردیتا ہوں۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عِيسَى، ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَعَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَالَا : ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِذَا بَلَغَتْ بَنُو أُمَيَّةَ أَرْبَعِينَ اتَّخَذُوا عِبَادَ اللَّهِ خَوَلًا، وَمَالَ اللَّهِ نِحَلًا، وَكِتَابَ اللَّهِ دَغَلًا*
المستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن و الملاحم، حدیث نمبر 8612۔
جبکہ اسی کتاب یعنی المستدرک کی حدیث 8615 میں بنو امیہ کی بجائے بنو العاص کا لفظ ہے اور مصنف نے بھی بنو العاص کا تذکرہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ بنو عاص بھی بنوامیہ کی ہی ایک شاخ تھی۔ جن کی حکمرانی مروان ابن حکم سے شروع ہوئی اور ان کےآخری حکمران مروان بن محمد تک باقی رہی۔
(8): مجمع البحرین کے نام سے کئی کتب موجود ہیں۔ جن میں بعض احادیث کی ہیں۔ اور بعض فقہ کی۔ لیکن یہاں جس مجمع البحرین کا ذکر ہے وہ فخرالدین طریحی (متوفی 1085ہجری) کی تالیف ہے اوراس میں قرآن و احادیث کے مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے۔
(9):قاموس سےمراد “قاموس المحیط” ہے۔ جوکہ عربی لغت کی کتابوں میں سے ایک اہم اور بنیادی کتاب ہے۔ جس کے مولف علامہ مجد الدین فیروز آبادی (متوفیٰ817 ہجری) ہیں۔
(10): سورہ انعام، آیت 94۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply