یہ مکان اپنے ہی مکینوں کا مزار بن گیا۔۔۔۔ملک احمد نادر

میری والدہ ماجدہ نہایت صفائی پسند خاتون ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی انہیں میرے کمرے کی زیارت کا موقع ملتا ہے تو شدید اضطراب کی حالت میں باہر کا  رخ کرتی ہیں، جس کے بعد میری”کلاس“ کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ آج سے دو روز قبل بھی جب ایسا ہی ہوا تو مجبوراًمجھے اپنے کمرے کو بالعموم اور الماری کو بالخصوص ترتیب دینا ہی پڑا۔ اسی سرگرمی کے دوران مجھے اپنی ایک پرانی “یو ایس بی” ملی، جو میں نے عرصے بعد دیکھی اور دیکھتے ہی مجھے خیال آیا کہ چیک کیا جائے کہ کہیں اس میں کوئی ضروری ڈیٹا نہ موجود ہو۔ جب  یو ایس بی کو لیپ ٹاپ کے ساتھ لگا کر دیکھا تو دوسرے کچھ ڈیٹا کے ساتھ میری ایک پرانی تقریر کی ویڈیو بھی موجود تھی، ویڈیو کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں اس دور کی منظرکشی اپنا جادو بکھیرنے لگی کہ جب میں کئی دن تقریر کا مواد سوچنے میں صرف کرتا اور پھر گھنٹوں لگا کر تقریر لکھتا اور یاد کرتا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی فنِ تقریر سے خصوصی  لگاؤ رہا ہے اور ہمیشہ تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے،یو ایس بی  میں موجود تقریر بھی اُسی دور کے ایک تقریری مقابلے   کی تھی جس کا موضوع تھا “یہ مکان اپنے ہی مکینوں کا مزار بن گیا”۔

آج اتنے سال بیت جانے کے بعد جب اس تقریر کو دوبارہ سنا تو اچانک میرے ذہن کے دریچوں میں کئی قسم کے خیالات بیک وقت امڈنے لگے اور کئی سوالات پیدا ہونے لگے جن میں سے کچھ کے جواب موجود پائے مگر بیشتر کے غائب۔ ان سوالات اور خیالات میں سے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اگر آج یہی تقریر مجھے دوبارہ لکھنی ہوتی تو میں کیا لکھتا؟ کیا میں اُنہی مسائل کو چھیڑتا جن کو اس زمانے میں چھیڑا یا کیا آج کے مسائل یکسر تبدیل ہو چکے ہیں؟ کیا میں اُنہی توجیحات کو استعمال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ یہ مکان، یعنی پاکستان، اپنے ہی مکینوں کا مزار بن چکا ہے؟ اور کیا میں آج زیادہ جذباتی اور پرُاثر تقریر کر سکتا کہ جب ہر شخص اس مزار کے اندھیرے کو بخوبی محسوس کر سکتا ہے؟۔

اگر آج میں اِس موضوع پر دوبارہ تقریر کرتا تو یقیناً اُس غریب کسان کے بچے کا ذکر کرتاجو آنکھوں میں اپنی تقدیر بدلنے کے خواب سجائے سخت محنت سے پڑھائی کرتا رہا کہ شاید کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے تو میں بھی ڈاکٹر یا انجینئربن جاؤں، مگر اِس خواب کو ابدی نیندسُلانے کے لیے حکومتِ وقت سرکاری یونیورسٹی کے فنڈز میں تاریخ کی سب سے بڑی کٹوتی کر کے چکنا چور کر چکا ہے۔ اس کٹوتی کا اثر یہ ہوا کہ  فیسوں میں ہوشربا اضافے نے ہزاروں طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا جبکہ امیر طبقے کے لیے سرکاری یونیورسٹیوں کے راستے بھی کھول دیے۔

اگر آج میں اس موضوع پر دوبارہ تقریر کرتاتو یقیناًاُس مفلس و لاچار مر یضہ کا ذکر کرتا جو کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کی غرض سے جاتی ہے تو دھکے کھانے کے بعد اُس کی اطلاع کے لیے عرض کیا جاتا ہے کہ ”یہ دوائی نہیں ہے باہر سے لے آئیں“ یا پھر ”ڈاکٹرز کی ہڑتال ہے کسی پرائیویٹ ہسپتال لے جائیں“ اور جب ڈاکٹر حضرات سے استفسار ہو تو پتہ چلتا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں ینگ ڈاکٹرز بلا معاوضہ کام کرنے پر مجبور کیے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہسپتال کے پاس فنڈز نہیں۔

اگر آج میں اس موضوع پر دوبارہ تقریر کرتاتو یقیناً اُس مزدور کا ذکر کرتا جو فیصل آباد کی ٹیکسٹائل مل میں کام کرتا کرتا اچانک بیروزگار ہوگیا اور آج یہ نوبت آپہنچی کہ گھر میں راشن کا بندوبست کرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور کردیا گیا۔ اگر میں آج اس موضوع پر دوبارہ تقریر کرتا تو بے شمار ایسے مسائل کا ذکر کرتا جن کی بناء پر آج واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکان اپنے ہی مکینوں کا مزار بن گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا یہ انصاف کا تقاضا  نہیں کہ حکومتِ وقت کی کارکردگی کو انہی کے دعوؤں اور وعدوں کی بنیاد پر پرکھا اور تولا جائے؟ کتنا آسان ہے کہ جب اپوزیشن میں ہوں تو سبز باغات کی ٹہنیاں توڑ توڑ کر اہل وطن کو سنگھائی جائیں اور جب برسرِاقتدار آئیں تو سادہ سا جواب تیار کرلیں کہ پچھلی حکومت نے خزانہ خالی کردیا۔ جناب! نہ تو عوام نے خزانے دیکھے اور ناپے ہیں اور نہ ہی عوام نے قرضے لینے کے لیے منظوری کے دستخط کیے تھے، آپ جیسے حکمرانوں کو اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کہ اس ملک اور اِس میں بسنے والوں کے مفاد کا تحفظ کریں! خدارا رحم کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply