• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا اور اُسے سنبھالنے والے اناڑی۔ (دوسرا ،آخری حصہ) ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا اور اُسے سنبھالنے والے اناڑی۔ (دوسرا ،آخری حصہ) ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا اور اُسے سنبھالنے والے اناڑی (قسط1) ۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

مجھے یہ کہنے دیں کہ مولانا فضل الرحمٰن جس قدر تیاری، جوش اور ولولہ کے ساتھ اپنے اعلان کردہ 27 اکتوبر والے لانگ مارچ اور دھرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اُس کا اندازہ کرتے ہوئے یہ تجزیہ بڑا فطری لگتا ہے کہ یہ 2014ء کے شوقین مزاج نوجوانوں کا اکٹھ نہیں ہے بلکہ یہ 2019ء کے تربیت یافتہ جوانوں کا دھرنا ہے۔ اسے روایتی طریقوں سے نہیں بلکہ ایک ُدوراندیش راہنما کے ویژن کی طرح ہینڈل کیا جا سکے گا۔ایک دوراندیش راہنماء کون ہوتا ہے، وہ معاملات کو کیسے ہینڈل کرتا ہے۔ اس کا تعارف ممتاز کالم نگار نفیس صدیقی نے اپنے ایک کالم میں یوں کروایا تھا کہ سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لئے موت کی کال کوٹھڑی میں اخبارات اور ریڈیو کی سہولت ختم کر دی گئی تو وہ جیل کے عملے سے باہر کی دنیا کے بارے میں خبریں لیتے تھے۔ آخری دنوں میں جب جیل کا کوئی اہلکار علی الصبح ان کے پاس جاتا تھا تو وہ سب سے پہلے یہ سوال کرتے تھے کہ کیا سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہو چکی ہیں؟۔ یہ بات اعلیٰ حکام کو بتائی گئی کہ بھٹو صاحب روز یہ سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین (موجودہ روس) کی فوجیں داخل ہونے والی ہیں۔ امریکہ بھی میدان میں کودے گا اور افغانستان میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس لئے میری منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا اور ضیاء الحق کو اقتدار میں لاکر پاکستان کو اس جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ حکام بھٹو صاحب کی یہ بات سن کر ہنستے تھے اور کہتےتھے کہ موت کے خوف نے بھٹو صاحب کے ذہن پر برے  اثرات ڈالے ہیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ 25دسمبر 1979ء کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ اس کے بعد وہی ہوا، جس کی بھٹو صاحب نے پیش گوئی کی تھی۔

حکومتی کابینہ کی پچھلے ایک سال کی بدترین کارکردگی کی روشنی میں تو یہ بعید ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے بڑے احتجاجی پروگرام کو ہینڈل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ حکمت عملی بنائی جا سکے۔ غالب ترین امکانات یہی ہیں کہ حکومت روایتی طریقے اپناتے ہوئے کنٹینر لگا کر راستے بند کرنے، خندقیں کھودنے، اسلام آباد کے ٹینٹ سروس، کھانا پکانے والوں اور دوسروں کو مظاہرین اور جمعیت علمائے اسلام سے تعاون نہ کرنے، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گرفتاریوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوششیں کرے گی۔ ظاہر ہے کہ انتشار، افراتفری اور احتجاجی دھرنوں کو حکمت عملی سے ڈی ٖفیوز کرنے کی صلاحیت سے ہمارے حکمران محروم ہیں ورنہ اپوزیشن کے مطالبات پر گفت و شنید کا آغاز کر کے یہ مسائل حل کیے جا سکتے تھے۔ اس لانگ مارچ، احتجاجی پروگرام اور دھرنے کو روکنے کے لئے ایک ویژنری لیڈر اور اُس کے ماتحت وفادار ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ ریاست کے سارے ادارے دل و جان سے وفادار رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں۔

ویژنری لیڈر اُسے کہتے ہیں جو آنے والے زمانے کے تقاضوں، ضرورتوں اور سچائیوں کو سمجھتا ہو اور ان سب کے درمیان اپنی جگہ اور اہمیت کو بھی جانتا ہو۔ اگر کسی وقت کوئی مشکل معاملات درپیش آ بھی جائیں اور بظاہر اُسے دیگر قوتیں چاروں شانے چت بھی کر دیں تب بھی لیڈر کا کام یہ ہے کہ وقت گزارے اور اپنے ویژن کے مطابق انتظار کرے، جب حالات، ضرورتیں، تاریخی اور سیاسی سچائیاں ایک بار پھر سے اُسے واپس اُس مقام تک لے آئیں جہاں سے اُسے گھسیٹ  کے پیچھے کہیں پھینکا گیا تھا۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے پاس ماضی حال اور مستقبل کا وہ علم اُس درجے میں موجود ہو جو واقعات کی ہیئت اور رفتار کو بھی جانچنے اور ماپنے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہو۔ جو یہ دیکھ سکتا ہو کہ سیاسی حرکیات اور گہرائی میں موجود سماجی، تاریخی اور سیاسی سچائیاں کس طرح اور کیوں اُس کے لئے دوبارہ جگہ بنائیں گی۔ جمہوری رہنماؤں کے برعکس موجودہ حکومت کے اناڑی لڑکوں کے پاس تاریخ، سماج یا سیاسی حرکیات کا ویژن موجود نہیں ہوتا ،تاہم جو چیز ان کے پاس ان کی دسترس میں رہتی ہے وہ خالص اور ہر قسم کی ملاؤٹ سے پاک طاقت ہے۔ لیکن یہ طاقت گہرائی میں کارفرما تاریخی اور سیاسی حرکیات کو تاریخ کے عمل میں دیکھنے اور شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسی لئے اندھا دھند استعمال کی عادت کی وجہ سے یہ خالص ترین طاقت کسی بھی سیاسی انتظام کو ایک دم سے لپیٹ تو سکتی ہے مگر تاریخی عمل کو روک یا موڑ نہیں پاتی۔ لڑکوں کے پاس عہد در عہد سے جو ویژن منتقل ہوتاہے اس کا تعلق صرف ایک حقیقت سے ہوتا ہے کہ طاقت کس درجے میں ایکسرسائز کرنے کے قابل خزانوں میں بھری پڑی ہے جسے کسی بھی وقت، ڈر یا ردِعمل کے خوف کے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے مگر وقت اور دیگر حرکیات کے سامنے یہ خالص طاقت زیادہ نہیں ٹھہر پاتی۔ کیا کوئی ایسی صورت ممکن ہے کہ لڑکوں کو کچھ ایسی باتوں کے بارے بھی تربیت دی   جائے جو امورِ ریاست اور سیاست سے زیادہ تاریخ اور سیاسی عمل سے متعلق انکے تصورات میں وسعت پیدا کرے۔ شاید اس طرح وہ زیادہ وسیع تناظر میں اپنے اور سیاسی عمل کے کردار کو جج کر سکیں اور شاید بہتر کردار ادا کر سکیں۔

اس ضمن میں ہمارا مشورہ ہے کہ ارباب اختیاراس دھرنے سے نمٹنے کے لئے کسی بھی کام میں  جلدبازی یا لاپرواہی نہ برتیں بلکہ اس معاملے  کی جزئیات تک جاننے کی کوشش کریں۔جس طرح کسی مشین کی کارکردگی کا دارومدار اس کے پینچوں اور ڈھبریوں پر ہوا کرتا ہے، ٹھیک اُسی طرح یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کی ماتحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹیم کے ارکان جن چیزوں سے پریشانی محسوس کرتے ہیں یا جن مسئلوں میں دلچسپی نہیں لیتے، اُن کا حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کریں تاکہ انھیں اپنا بھرپور تعاون دینے کا حوصلہ ملے۔ انتہائی چھوٹی سے چھوٹی بات کو یاد رکھنا اور اس کے لئے مزیدرابطے کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لوگوں سے دوبدو ملاقاتیں گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں طے پانے والی حکمتِ عملی کی بنیاد پر فیصلہ ساز کاموں کی فہرست ترتیب دیں اور پھر ترجیحات کے مطابق انھیں انجام دیں۔ یاد رکھیں کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بسا اوقات کامیابی یا ناکامی کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔

احتجاجی مظاہرے ، لانگ مارچ اور دھرنا روکنے کے لئے اپنے دستیاب وسائل سے باخبر اور آشنا رہیں۔ آپ کی آواز پر عوام میں سے کتنے لوگ اپنا دستِ تعاون آپ کی جانب بڑھا دیں گے؟۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بجٹ کتنا درکار ہے؟ آپ کے پاس کس قدر کم وقت ہے؟ ۔ ان سب کو جان لینے کے بعد اپنی پالیسی اس طرح ترتیب دیں کہ دستیاب وسائل کے بہتر سے  بہتر استعمال کے لئے توقعات میں میانہ روی ہو۔ یہ وہ ہنر ہے جس سے ہر اچھا قائد باخبر ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان حدوں کو کس طرح مزید دھکیلا جاسکتا ہے، لیکن اسے ترجیحات کا بخوبی ادراک ہونا لازمی ہے۔

اس دھرنے کو روکنے کے لئے شدید محنت کرنے کی بجائے اسمارٹ اور ذہین فیصلے کریں۔ کڑی محنت کا درس ہم میں سے کم و بیش ہر ایک کو لاتعداد بار دیا جاتا رہا ہے۔ ایک ہی پالیسی پر دیر تک رکنا اور کوششیں کرتے رہنا ،سخت محنت کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اسمارٹ، محنتی اور ذہین منصوبہ بندی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسئلوں کو دیگر نقطۂ نگاہ سے اس طرح دیکھنا کہ تخلیقی اور تعمیری طرز فکر کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ یاد رہے کہ پاکستانی سٹائل کے دھرنوں سے نمٹنے کی ترکیبیں گوگل جیسی ایجادات پر بھی دستیاب نہیں ہیں۔ انہیں آپ نے خود ہی اپنے موجود وسائل اور حکمت عملی سے ہی ہینڈل کرنا ہے۔

اپنے ماتحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار آسان ہوتا ہے، لیکن اُن کی قابل ستائش کارکردگی پر داد دینا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ دھرنے جیسے بڑے مواقع پر اُن کی اچھی کارکردگی کے لئے اظہار ستائش، پیٹھ تھپتھپا دینا، عوام کے سامنے ’’شکریہ‘‘ کہنا، بذریعہ ای میل مبارکباد دینا، سوشل میڈیا پر ستائش کرنا بھی اُن کی کارکردگی میں اضافہ اور مستقبل میں اُن کے دل جیت لینے کا عمل ہوتا ہے۔ حکمرانوں کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مثبت تعریف و تحسین وہ خوبصورت عمل ہے جس سے لوگوں کے دلوں کو مسخّر کیا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رہے کہ اس دھرنے کو روکنے اور ڈی فیوز کرنے کی اصل ذمہ داری آپ کی ہے، اس لئے اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کیجیے۔ ماتحت اداروں کو ذمہ داری ضرور دیں مگر اختیار اپنے پاس ہی رکھیں۔ اس حقیقت کو کبھی نہ فراموش نہ کیجیے کہ ایک کامیاب پروجیکٹ کی تیاری، معیارات کے تعین، ماتحت عملے کے نظم اور پروگرامنگ سے متعلق ضروری فیصلوں کا اختیار آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ جب آپ انچارج ہوتے ہیں تو آپ یہ کہہ کر اپنی ذمّہ داریوں سے دامن نہیں چھڑا سکتے کہ یہ غلطی کسی اور کی ہے۔ آپ بھی اسی قدر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی طرح یہ کہنے سے آپ بری الذمہ نہیں ہو سکیں گے کہ مظاہرین سے نمٹنے میں جو گڑبڑ ہوئی وہ پولیس نے کی تھی۔ اپنی ذمہ داریوں اور اختیار کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ اس دھرنے سے اگر آپ بچ نکلے تو اپنی حکومت کے 5 سال پورے کر لینے کے مواقع بڑھتے جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply