• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جدید تعلیم کے خواہاں، نظر ثانی کی ضرورت/تحریر- قادر خان یوسف زئی

جدید تعلیم کے خواہاں، نظر ثانی کی ضرورت/تحریر- قادر خان یوسف زئی

قریباً30ہزار  سے زائدرجسٹرڈ مدارس میں 25لاکھ سے زیادہ طالب علموں کو مختلف فقہ کے مسالک کے تحت دینی تعلیم دی جا رہی ہے(جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زائد ہے)۔ ان میں سب سے اہم بات ان طلبا و طالبات کے تعلیمی اخراجات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 23کروڑ کی آباد ی میں لاکھوں طالب علموں کو حکومتی امداد کے بغیر دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ایک بڑا کام ہے۔ جب کہ ہزاروں مدارس میں لاکھوں طالب علموں کو بورڈنگ ہاؤس طرز پر رہائش و کھانے پینے کی خدمات بھی تقریباً مفت فراہم کی جاتی ہیں ۔

فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول چیف آف آرمی اسٹاف کا نظریہ ہے کہ ”اپنا فقہ نہ چھوڑواور کسی کا فقہ نہ چھیڑو“۔2019 میں مسلح افواج کے ترجمان نے بڑی صراحت کے ساتھ اس بات کو واضح کیا تھاکہ مدارس کے دینی نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی، بلکہ اس کے ساتھ عصری تعلیم کا نصاب مرج کیا جائے گا۔ ان مضامین کو پڑھانے کے لئے چار پانچ اساتذہ کی ضرورت ہوگی۔ بقول ترجمان علما   اکرام ان اصلاحات پر متفق ہیں۔ تاہم مدارس میں تبدیلی نصاب اور حکومتی کنٹرول میں لانے سے متعلق مدارس کے تحفظات تواتر کے ساتھ آرہے ہیں۔مدارس اصلاحات پر مکمل عمل درآمد سرخ فیتے کا شکار ہے۔

مدارس میں اضافے کا ایک اہم مرکزی سبب ایرانی خمینی انقلاب بھی بتایا گیا۔ جس کے ردعمل میں مدارس کی تعداد بڑھی۔ 40برس میں صرف66مدارس ماہانہ کے حساب سے ملک گیر سطح پر قائم ہوئے۔ اس حوالے سے اس میں اہم بات یہ بھی ہے کہ قائم ہونے والے مدارس  کا تعلق کسی ایک مکتبہ فکر سے نہیں بلکہ تمام مسالک نے مدارس قائم کئے۔ اس لئے مدارس کی تعداد کو کسی خصوصی مکتبہ فکر سے جوڑا بھی نہیں جاسکتا۔ مدارس اور انتہا پسندی کا لیبل امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد جارحیت کو روکنے والے اُن مدارس کے طالبان سے جڑا جو کہ غیر ملکی افواج کو اپنی سر زمین سے نکالنے کے لئے مدارس سے مسلح مزاحمت کی جانب گامزن ہوئے۔وگرنہ  اس سے قبل مدارس کے یہی طلبا امریکا اور نیٹو افواج کے تمام ممالک کے لئے غیور قوم اور مجاہد تھے جو کیمونزم کی یلغار روکنے کے لئے سرخ ریچھ کو روک کر دنیا کی عظیم خدمت سر انجام دے رہے تھے۔

سوویت یونین کے افغانستا ن سے انخلا کے بعد امریکا کے مقاصد پورے ہوگئے تاہم پاکستان کے پڑوسی ملک ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور خمینی انقلاب نے پورے اسلامی خطے کی صورتحال کو تبدیل کردیاتھا۔ جس وجہ سے مغرب میں خدشات ابھرے کہ اگر تمام اسلامی ممالک میں بھی مسلک یا فرقے کے نام پر اس قسم کے انقلاب برپا ہوئے تو ان کا اثرو رسوخ ختم ہوجائے گا۔ شاید ماضی کا خوف ان پر حاوی ہوگیا کہ خلافت راشدہ اور بعد میں مسلم مملکتوں نے ایران، افریقہ اور یورپ کا رخ کیا، صلیبی جنگیں ہوئیں۔یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے آخری فرماں  روا ں  تک ”جزیہ“ دیا گیا۔

قریب ترین قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ مغرب اس بات سے ہمیشہ خائف رہتاہے کہ جس دین میں انسان کے نزدیک اپنی جان کی کوئی اہمیت نہیں اور اسے، اس کے خاندان دوست احباب سمیت مسلم امہ کو ”شہادت“ کے نام پر خوشی ملتی ہے۔ ایسے انسانوں کو بزور طاقت زیر کرنا بڑا مشکل اور ناممکن کام ہے۔ یہ جذبہ و عقیدہ ’جہاد فی سبیل اللہ‘صرف اسلام میں ہے۔ جبکہ مسلمان کے علاوہ سب موت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

اس خوف کے تناظر میں اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کی گئی، مدارس کو دہشت گردی کی تربیت گاہ اور طالب علموں کو شدت پسند قرار دے دیا گیا۔ تخمینہ لگایا گیا کہ لاکھوں طالب علم فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مغرب کی دانست میں ان کی تعداد چند برسوں میں کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔

دوسری جانب مدارس نے طالب علموں کو دینی تعلیم سے آراستہ تو کیا لیکن مغرب کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ قدرت کے بیش بہا خزانوں و وسائل پر اسلام مخالف قوتیں غالب آجائیں۔ وگر نہ کون نہیں جانتا کہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔ مسلم علما کے علوم کے تراجم کرکے اصل مسودوں کو جلا دیا گیا یا دریا برد کردیا گیا۔ مسلم حکمرانوں نے انجنیئرنگ کے شعبے میں کمال مہارت حاصل تھی۔ ان کے بنائے گئے عالمی شاہکار آج بھی عجوبے سمجھے جاتے ہیں۔ فلکیات، صرف و نحو،اور معاشی علوم سمیت طب میں مسلمانوں کا سکہ جما ہوا تھا۔ جنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ آلات جنگ کی وجہ سے مسلم افواج کو شکست دینے کے بجائے مغرب ”جزیہ“ دینا پسند کرتے تھے۔ سائنس میں کائنات کا علم مسلمانوں کی اعلیٰ قابلیت و غورو فکر مثالی تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ایک وقت تک قائم رہا اور اجتہاد کا راستہ بند ہوکر جمود کا شکار ہوگیا۔ مغرب ایک جانب جاہلیت کا استعارہ تھا اور جادو ٹونے سمیت مختلف خرافات و توہمات میں مبتلا گناہوں کی معافی ریٹ مقرر کیا کرتاتھا اور مسلم علما ء آئے روز نئی ایجادات کررہے تھے۔ مسلمان ایک ترقی یافتہ، مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ باشعور با اخلاق قوم شمار ہوتی تھی۔

برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جدید عصری تعلیم کا راستہ مدارس میں آنے سے رُک گیا۔ بڑے بڑے مدارس سے جدید علوم غائب ہوگئے۔ مسلکی اختلافات کا فائدہ مغرب نے اٹھایا اور مسلمانوں کا علمی خزانہ چوری کرلیا۔ اب مسلمان طالب علم اپنے ہی علمی خزانوں کا ترجمہ کررہے ہیں تو بھاری فیسوں کے ساتھ مہنگے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، سب نمائشی بنا کہ فلاں نے فلاں مغربی سسٹم کے تحت اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی۔ لیکن موجودہ دور میں بھی ایسے مسلم سائنس دانوں نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ جہاں بیٹھنے کے لئے دری نہیں تو دھوپ سے بچنے کے لئے چھت بھی میسر نہیں ہوتی تھی۔ ایسے نابغہ روزگار طالب علموں کو مغربی ممالک نے اپنا شہری بنالیا اور ترقی پذیر ممالک اپنے ذہین طالب علموں سے محروم ہونے لگے۔ترقی پذیر اور خانہ جنگی کے شکار ممالک کے نزدیک جدید دنیا میں اپنا سکہ جمانے کے بجائے اپنوں کا خون بہانے کا سلسلہ طول پکڑتا چلا گیا اور اب امیر ترین مسلم ممالک بھی اپنے شہریوں کو فلکیات، سائنس، طب اور جدید ٹیکنالوجی کا علم دینے کے لئے مغرب کے محتاج ہیں اور اپنے مالی استعداد ی طاقت ہونے کے باوجود بیرون ملک ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح سرمایہ بھی ہاتھ سے نکلا جاتاہے اور ذہین طالب علم بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان مسلم ممالک و دنیا کا جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ بیرونی طاقتوں کے مفادات کے لئے ہماری بیشتر پالیسیاں مغرب و امریکا کے تابع رہی۔مملکت میں دوہرے نظام تعلیم نظام کا خاتمہ کیا جائے۔۔ قومی زبان کو ترجیح دیتے ہوئے دیگر غیر ملکی زبانوں کو صوابدید اختیار کے تحت کیا جائے۔ سرکاری زبان و تمام اداروں میں میرٹ پر قومی زبان اردو نافذ کی جائے۔ تمام ریاستی و حکومتی اقدامات قومی زبان میں سپریم کورٹ کی احکامات کے مطابق کی جائے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply