روداد سفر /ریکوڈک سے کوئٹہ تک۔۔قسط 39/شاکر ظہیر

اگلے دن ہماری کراچی سے د البندین کےلیے فلائٹ تھی ۔ یہ ایک چھوٹا فوکر پی آئی اے طیارہ تھا جس میں پچیس تیس مسافر تھے اور طیارے کی سیٹیں بہت آرام دہ اور شاہانہ ۔ راستے میں طیارے پنجگور کے ہوائی اڈے پر رکا اور مسافر اپنا سامان خود لے کر طیارے میں سوار بھی ہوئے اور کچھ اُترے بھی ۔ دالبندین پہنچ کر بھی بس ایک ویران سا ائیر پورٹ تھا ۔ طیارہ رکنے کے بعد ہم خود ہی اپنا سامان لے کر باہر نکلے ۔ باہر کیا نکلے رن وے سے ہٹ گئے تو ساتھ ہی کچھ دور پولیس اور ایف سی والوں کی گاڑیاں سردار صاحب کے بیٹے سعادت خان کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہی تھیں ۔ دالبندین ایف کا ہیڈ کواٹر ہے ۔ پولیس کی نیلے رنگ کی ڈاٹسن اور پولیس والے کلاشنکوف لیے ہوئے اور ایف سی کی سبز رنگ کی ڈاٹسن جس کے اوپر ایک مشین گن فٹ تھی ۔ ہمارا قافلہ ان سب کے ساتھ ریکوڈیک کی طرف چل پڑا ۔ ویران سا روڈ تھا جسے لندن روڈ کہا جاتا ہے ۔ راستے میں کچھ ایران کی طرف آنے جانے والے بڑے ٹرک تھے ۔ اور روڈ کے ساتھ ساتھ ریل کی پٹری ۔ علاقہ عجیب سا ویران اور بنجر ، بہت دور   کچھ مکانات کہیں نظر آ جائیں تو آ جائیں باقی ہر طرف کالی زمین اور سیاہ پتھر لیکن جہاں دو چار مکانات نظر آتے وہاں چھوٹی سی مٹی کی بنی مسجد ضرور ہوتی جس کا مینار بھی مٹی کا ہوتا کہ جس سے مسجد ہونے کی نشانی کا دور سے پتہ چلتا ۔ راستے میں ایک پیڑول پمپ نظر آیا وہ بھی بس ویران سا ۔ پیڑول پمپ پر رُکے تو ایک بڑی عمر کے بزرگ ایک سائیڈ پر بیٹھے تھے جن سے علیک سلیک ہوئی ،بڑی خوشی سے ملے حالانکہ نہ میری زبان سے واقف نہ میں ان کی زبان سے واقف ۔

یہ میرا بلوچستان سے پہلے تعارف تھا ۔ یہ علاقہ پاکستان کا وہ کونہ بنتا تھا جہاں ایک طرف ایران اور دوسری طرف افغانستان شروع ہو جاتا تھا ۔ اسے چاغی کا علاقہ کہا جاتا ہے ۔ جیسے جیسے آگے ایران کی طرف بڑھیں کچے راستے نکلتے نظر آتے جن پر گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات  تھے۔ ڈرائیور سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں سے ڈاٹسن ایرانی پیٹرول لے کر گزرتی ہیں ۔ کچھ دیر بعد دس بارہ ڈاٹسن کا قافلہ نظر آ گیا جن پر نیلے رنگ کے پلاسٹک کے کین لوڈ تھے ۔ زمین سخت تھی پتھریلی اس لیے ان کی سپیڈ بھی بہت تھی ۔ دو اڑھائی گھنٹے کے سفر میں کوئی درخت نظر نہیں آیا ۔ میں سوچتا رہا کہ یہاں کہیں پانی کی ضرورت پڑ جائے تو کہاں سے آئے گا ۔ آخر بالکل ایران بارڈر کے پاس ہی ایک بہت بڑا حجرہ آ  ہی گیا ،جو ہماری رہائش تھی ۔ حجرے پر پہنچ کر پتہ چلا کہ پولیس کی ڈاٹسن راستے ہی میں خراب ہو گئی اور پیچھے رہ گئی ہے اس لیے ہمیں حجرے میں اتار کر ایک گاڑی واپس بھیجی گئی تاکہ پولیس کی گاڑی کو باندھ کر لایا جا سکے ۔

موبائل سگنل کہیں بھی نہیں تھے صرف حجرے کے نزدیک ہی ایک   پی ٹی سی ایل کا ٹاور تھا ۔ یعنی باقی دنیا سے رابطے کےلیے یہی واحد ذریعہ تھا ۔ فرشی بستر لگے تھے جہاں ہم سب نے اپنی اپنی جگہیں سنبھال لیں ۔ ایف سی والوں نے اپنا الگ سے خیمہ لگایا ہوا تھا جو رہائش سے تھوڑا ہٹ کر تھا ۔ چار فوجی اور ایک صوبیدار ۔ اور یہ لوگ جنوبی پنجاب کے تھے ۔سب سے پہلا کام کھانا تھا ۔ ایک بڑا ڈرم پانی سے بھرا پڑا تھا جس میں مٹیالا سا پانی تھا ، ہم نے منہ ہاتھ دھویا اوروہاں  کھانے کے لیے دسترخوان لگا دیا گیا ۔ کھانے میں افغانی پلاؤ تھا اور ساتھ سالن مرغی شوربے والی تھی ۔

کھانے کے بعد ہم بیٹھ گئے اور گپ شپ شروع ہو گئی ۔ علاقے کے بارے میں مسٹر چھن سردار صاحب کے بیٹے سعادت خان سے پوچھتے اور میں ساتھ ساتھ ترجمہ کرتا جاتا ۔ چائنیز کے اس دورے کےلیے حکومت کی طرف سے لازم تھا کہ ایف سی کو ساتھ رکھا جائے اس کےلیے باقاعدہ انہیں پیسے دے جاتے تھے ۔ مجھے اس ایف سی کی سمجھ نہیں آئی، یہاں میلوں بندہ نہ بندے کی ذات پھر خطرہ کس سے تھا ۔ یہ سارا علاقہ پشتوں بیلٹ تھا جن کی  صدیوں سے رشتہ داریاں ایران اور افغانستان میں موجود بلوچستان کے ان پختونوں سے تھیں ۔ اور ان کی آمد و رفت بھی ہوتی رہتی تھی ۔ سردار سعادت خان صاحب نے بھی مائننگ کے علاقے کے وزٹ کےلیے مارکیٹ سے چار ڈاٹسن کرائے پر لی تھیں  ۔ چائنیز انویسٹر اپنے ساتھ سروے کرنے والے دو چائینز کو لے کر آئے تھے ۔ مسٹر وانگ ونزو ( wenzhou ) والے بھی ہمارے ساتھ ہی تھے جو ایک سال سے یہیں رہ رہے تھے ۔

کچھ دیر بعد سب اپنے اپنے بستروں پر آرام کےلیے چلے گئے اور میں باہر صحن میں جا کر اردگرد کا جائزہ لینے اور وہاں موجود لوگوں سے گفتگو کرنے  لگا ۔ یہ لوگ جو حجرے میں کام کرتے تھے سردار صاحب کے قبیلے محمد زئی سے تعلق رکھنے والے تھے ۔ بجلی ایران سے آتی تھی کیونکہ یہ بالکل ہی ساتھ بارڈر تھا اور ہمارے اپنے آباد علاقے بہت دور ۔ یہاں کچھ درخت نظر آئے اور پانی بھی ۔ سٹرک پر آجائیں تو ایران بارڈر گیٹ سامنے نظر آتا تھا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیوار اور خاردار باڑ ۔ ایک صاحب بازار جا رہے تھے میں نے سردار سعادت خان صاحب سے اجازت لی اور ان کے ساتھ ہی بازار چلا گیا ۔ یہ بہت چھوٹا سا بازار تھا اور ایرانی اشیاء کی فراوانی تھی ۔ سب سے اہم چیز پاکستانی باسمتی چاول تھے جو یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ خوراک تھی ۔ کہیں کسی نے مجھ سے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی نہ ہی کسی دوکاندار کے لہجے میں کوئی سختی تھی ، بہت مہمان نواز اور اچھے اخلاق کے لوگ تھے ۔ سارے پشتو بول رہے تھے اور میں اردو ۔ یہ دوسری زبان بولنے والوں سے بلوچستان میں نفرت ہے مجھے کہیں نظر نہیں آئی ۔ جس کے پاس بھی دوکان پر جاتے وہ قہوے  کا ضرور پوچھتا ۔ میرے ساتھ جانے والے نے کچھ چیزیں لیں اور میں نے کچھ ایرانی ٹافیاں اور واپس آگئے ۔

اگلے دن ہم تین ڈاٹسن میں بیٹھے ساتھ ایف سی کی ڈاٹسن اور قافلہ چل پڑا ۔ ہمارا پہلا پڑاؤ سردار صاحب کا چھوٹا سا گاؤں تھا جسے ریکوڈک کہا جاتا ہے ۔ یہاں پر ٹی سی سی کمپنی پہلے کام کر چکی تھی ۔ ایک چھوٹا سا ائیرپورٹ بھی انہوں نے بنایا تھا ۔ ایک ٹیوب ویل اور ایک سکول بھی انہی کا تعمیر کردہ تھا ۔ کچھ جگہوں پر انہوں نے ڈرلنگ بھی کی تھی ۔ اس ڈرلنگ سے نکلی مٹی میں سنہری ذرات تھے اس لیے چائینز نے وہ مٹی اٹھا کر پاس رکھ لی جو انویسٹرز کےلیے بطور ثبوت تھی کہ یہاں مائننگ کی جا سکتی ہے اس لیے پیسے لگائیں ۔ ڈرلنگ کرنا سروے وغیرہ سے بہت بعد کا اور بہت خرچے والا کام ہوتا ہے جو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ یہاں پیسہ لگایا جا سکتا ہے جس سے آمدن ہو گی ۔ یعنی اوپر  سے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا بنجر زمین ، ڈرلنگ تو بہت سا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد کی جاتی ہے ۔ اور ان آنے والے چائینز کو یہ ڈرلنگ رزلٹ مفت میں مل رہے تھے ۔ ابھی ہم وہاں کھڑے ہی تھے کہ گاؤں والے  آگئے کہ یہاں سے آپ ان کی کوئی چیز نہیں لے جا سکتے یہ سب کچھ ٹی سی سی کی ملکیت ہے ۔

ہمیں سردار صاحب اپنی لینز کے بلاک کی طرف لے گئے ۔ سارا علاقہ ویسے ہی بنجر اور ویران ۔ چائینز کے کہنے پر سردار سعادت خان صاحب نے بلوچستان منرل اینڈ مائننگ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر مظفر خان صاحب کو بھی ہائیر کیا تھا ۔ بہت پُرجوش اور شوق رکھنے والے جوان تھے ۔ ان کے ساتھ دو اور جوان بھی تھے ۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سفر کے دوران دور کہیں بڑا سا پتھر بھی نظر آ جاتا تو گاڑی رکوا کر اس کی طرف خود ہی بھاگتے جاتے اور خود ہی ہتھوڑی سے اسے توڑ کر دیکھتے ۔ ساتھ ساتھ چائینز کے سروے ٹیم اور باقیوں کو بتاتے جاتے کہ یہ کیا ہے ۔ میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ محنتی اور اپنے کام میں شوق رکھنے والا  نہیں دیکھا ،ایسے لگتا تھا انہیں اپنے شعبے اور کام سے عشق ہے ۔

دوپہر کو ہم سب نے وہیں تیمم کر کے باجماعت نماز ادا کی ۔ چائنیز حیرت سے ہمیں تیمم اور نماز پڑھتے دیکھ رہے تھے اور کہ یہ ہاتھ منہ پر مٹی مل رہے ہیں ۔ امام صاحب جو صوبیدار تھے وہ بھی اس کی وجہ بیان نہیں کر سکے کہ کیوں ۔ اصل بات یہ تھی کہ یہ صرف ایک علامت ہے کہ ہم رب کے حضور پاک ہو کر کھڑے  ہونا چاہتے ہیں، اب  پانی میسر نہیں اس لیے علامتی طور پر مٹی ہی سے پاکی حاصل کرنے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یہ رب کی عنایت تھی کہ اس نے اپنے بندوں کو یہ سہولت عطا کی ورنہ ہم وہاں پانی کہاں سے ڈھونڈتے ۔ وہیں ریتلی زمین پر بیٹھ کر نان اور اچار سے روٹی کھائی ۔ کچھ پتھروں کے سمپلز ساتھ لے کر ہم شام کو واپس حجرے میں پہنچ گئے ۔

اگلے دن سیندک پروجیکٹ دیکھنے گئے جہاں بہت عرصے سے کام جاری تھا ۔ کچھ دیر ہی وہاں گزار کر اپنی سائٹ کی طرف نکل گئے ۔ سائٹ سے واپسی پر سردار صاحب ہی کے قبیلے کے ایک حجرے میں چائے کےلیے رُکے ۔ حجرے  کی دیوار پر بلوچستان لبریشن فرنٹ کا جھنڈا لگا تھا اور ساتھ کسی بلوچ سردار کی تصویر اور اسی دیوار کے ساتھ ہم سارے اور ساتھ ایف سی والے بھی ۔

اگلے دن جمعہ تھا اور ہم سارے جمعہ پڑھنے اسی بازار کی بڑی مسجد میں گئے جس کے ملحق ہی مولانا فضل الرحمان صاحب کی جماعت کا مدرسہ تھا اور مسجد بھی انہی کے کنٹرول میں تھی ۔ علما  کےلیے لوگوں کے دلوں میں عقیدت موجود تھی ۔ مسجد بہت بڑی اور نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔ یہ دورہ مکمل کر کے ہم بذریعہ سٹرک ہی گاڑیوں پر کوئٹہ کی طرف نکل گئے ۔

علاقے کے لوگ محبت کرنے والے تھے ، کہیں کسی نے کسی قسم کی نفرت کا اظہار نہیں کیا ۔ لوگوں کی شکایات بھی تھیں کہ انہیں بنیادی انسانی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں، جن میں پینے کا پانی اور تعلیم سب سے بنیادی  مسئلہ تھا اور کچھ لوگ اس کی شکایات سامنے سامنے کرتے اور کہیں لہجے بھی سخت ہو جاتے تھے اور اس سب محرومیوں کا سبب وہ مرکزی حکومت اور فوج کو سمجھتے تھے ۔ شکایات اپنی جگہ درست تھیں لیکن ان کے ازالے کےلیے وسائل بھی چاہیے تھے ۔ ان علاقوں میں زراعت بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھی ۔ لوگوں کا روزگار سمگلنگ اور ایسی نوکریاں ہی تھیں ۔ بہت رات گئے ہم سفر کر کے کوئٹہ پہنچے اور میرٹ ہوٹل میں ٹھہرے ۔ سفر کی تھکاوٹ اتنی تھی کہ بس بستر پر پڑے اور صبح آنکھ کھلی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان دنوں کوئٹہ شہر کے حالات بظاہر سنگین تھے اس لیے ہمیں کہیں باہر جانے نہیں دیا گیا ۔ ایف سی کی گاڑی ہمیں کوئٹہ شہر ٹھکانہ پر چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔
اگلے دن شام کو کور کمانڈر صاحب سے ملاقات تھی اور انہوں نے ملاقات میں چائینز کو اپنے تعاون کا یقین دلایا اور ہم سارے یقین کر کے واپس ہوٹل آ کر اگلے دن کراچی جانے کی تیاری کرنے لگے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply