ماں کے پیٹ سے ایک خواجہ سرا رُوح کی فریاد۔۔محمد وقاص رشید

اے میرے خدایا اے میرے کبریا
میرے خالق میرے ساتھ یہ کیا کِیا
دیکھ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں
کیوں اب تک یہ بھی مرا مقسوم نہیں
کہ تجھے میں نے تیرا بندہ بن کر مخاطب کرنا ہے یا بندی
کس حیثیت سے رکھنی ہے تیرے سامنے اپنی نیاز مندی
تو جنس کی قید سے آزاد ہے مگر تیری تذکیر ہے
پر تُو نے مجھے ایسا بنایا تو میری تذلیل ہے تحقیر ہے
اے عالم الغیب تو بہتر جانتا ہے کہ یہاں رائج کیا نظام ہے
یہاں تو عمومی معذروروں کا جینا دوبھر ہے حرام ہے
مگر انکی کم سے کم پیدا کرنے والی ماں تو ہوتی ہے
انکے لیے جہاں میں کوئی نہ کوئی اماں تو ہوتی ہے
مگر مجھ جیسوں سے تو تجھ سے صرف ستر گنا کم محبت کرنے والی ماں بھی منہ پھیر لیتی ہے۔۔
ذلتوں میں لتھڑی ہوئی ننگِ انسانیت زندگی کا سب سے پہلا پیغام تو پیدا کرنے والی ماں دیتی ہے۔۔
ماں جس کی مسکراہٹ تیری رحمتوں کا پہلا پیغام ہوتی ہے
ماں جو زمین پر جنسی پہچان لے کر پیدا ہونے والوں پر تیری جنت کا اہتمام ہوتی ہے
وہی ماں۔۔ہمارے ہی نام پر اُترنے والا دودھ ہمیں بھیک کی صورت بھی نہیں پلا سکتی
کیونکہ وہ ایک کمزور عورت ہمارے باپ کی نیک نامی کی بنیادوں کو نہیں ہلا سکتی
اندازہ لگا اے خدا۔۔ آج تک ہمیں یہ ہی نہیں سمجھ آ سکی کہ تجھ سے بڑا نام کس کا ہے۔۔ نیکی تیری نسبت کا نام ہے
تیرے جیسے یکتا شہنشاہ کے “کُن”پر اس حالت میں “فیکون ” ہونے والے ہم ، بد نامی کا سبب کیسے ہوئے۔۔
قطعی طور تیرے اذن و امر سے ہم سے مختلف اپنی پیدائشی پہچان رکھنےوالےمرد و زن ہمارےرب کیسے ہوئے
یا رب ذوالجلال۔۔ہم سے عام انسانوں کی طرح جینے کا حق چھن جاتا ہے
ہم سے تیرے لکھے ہوئے بخت کے زخم سینے کا حق چھن جاتا ہے
اسی ماں کی کوک اور اسی باپ کے صلب سے اسی خالق کے بس مختلف تخلیق کردہ ہمارے بہن بھائی ہی ہمارے نہیں ہوتے۔
ہماری زیست کی کہکشاں میں سمت نما ستارے نہیں ہوتے
خدا کے بنائے ہوئے اپنے ماں باپ ہم سے رشتہ توڑ دیتے ہیں
ہمارے اپنے ہی ہمیں اس اندھی کھائی میں چھوڑ دیتے ہیں
جہاں ہم سے پہلے اس معاشرتی ظلم کو اپنی تقدیر سمجھ کر اپنی کراہوں کو مصنوعی قہقہوں اور سسکیوں کو بکاؤ مسکراہٹوں میں بدلنے والے موجود ہوتے ہیں
نام نہاد نیک ناموں کی نیکی کو قلعی کرتی عشرتوں کے خراج پر پلنے والے موجود ہوتے ہیں
اے پروردگار۔۔وہاں پہلی گھٹی سے آخری نوالے تک ہر ذرہءِ رزق انسانیت کے گلے کا طوق ہے
جسکا گواہ یہاں ہر گلی ہر محلہ اور ہر چوک ہے
جہاں ہم اپنے جسموں کو “نیک ناموں” کے لیے اشتہار بنا کر انسانیت کی ہچکیوں کی تھاپ پر ناچتے ہیں
منافقت میں لپٹے ہوئے دوہرے معیاروں کے الاپ پر ناچتے ہیں
میلوں ،سرکسوں اور موت کے کنوؤں میں
حتی کہ یہاں بزرگانِ دین کے عرسوں میں
ہمیں اپنے جسموں سے تیری تخلیق کا تاوان بھرنا پڑتا ہے
مرنے کے لیے جینا پڑتا ہے جینے کے لئے روز مرنا پڑتا ہے
تیری جانب سے کوئی جنس نہ عطا کیے جانے کے امر سے شروع ہوتا سفر اس سماج نامی دشت میں ہمیں عمر بھر جنسیت کی غلاظتوں سے اٹا رہتا ہے
ہم پیدائشی بدنام لوگوں کا جیون نام نہاد نیک ناموں کی میلی نظروں ،گندے اشاروں اور حبس زدہ جنسی تمازتوں سے اٹا رہتا ہے
میں معاشرے کی زبردستی کی ذلت کی زندگی نہیں جینا چاہتا
عمر بھر مصنوعی مسکراہٹوں سے اپنے خون کے آنسو نہیں پینا چاہتا
یاالہی۔۔اس لیے تجھے تیری تخلیقی یکتائی کا واسطہ۔۔
تجھے تیری عظمت واحدانیت و کبریائی کا واسطہ۔۔
مجھے ماں کے پیٹ میں ہی موت کی امان دے دے
یا پھر مجھے میری کوئی پہچان دے دے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply