زیتون کا درخت اور سکیسر کی غاریں۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

سکیسر کوہِ نمک اور وادئ سون، دونوں کا سب سے بلند ترین مقام ہے۔ اس پہاڑ کی بلندی تقریباً 1522 میٹر ہے جس پر پاک فضائیہ کی ائیر بیس واقع ہے۔ ضلع خوشاب میں واقع یہ وسطی پنجاب کی وہ واحد جگہ ہے جہاں ہر دوسرے سال برف باری ہوتی ہے اور یہ جگہ برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہے۔

سکیسر کے بارے میں ہمیں پرانی کتابوں میں بھی تذکرہ ملتا ہے۔ ایک ایسی ہی کتاب کا ذکر میں نے اپنے سفرنامے ”وادئ زیتون کا سفر” کے شروع میں بھی کیا تھا۔ یہ تھی لیڈی ولیمز کی کتاب
“The Letters from India ”
جو 1889 میں سامنے آئی تھی۔ اس کتاب میں سکیسر میں رہنے والے ایک انگریز افسر کی بیوی ”لیڈی ولیمز ” کے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو لکھے وہ تمام خطوط شامل ہیں جس میں وہ ہندوستان کے مختلف مقامات کا ذکر کرتی ہیں۔ کلکتہ سے خیبر تک کے جن جن علاقوں میں وہ گئیں، وہاں کا احوال دوستوں کو لکھ بھیجا۔ یوں ہندوستان کی معاشرت، ثقافت، بودوباش اور جغرافیہ کی ایک دستاویز تیار ہو گئی۔
وہ اپنے شوہر کے ساتھ سکیسر میں بھی قیام پزیر رہ چکی تھیں سو اس جگہ کے بارے میں بھی انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر 46 پر وہ سکیسر کی خوبصورتی بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ :
”میں یہاں بہت خوش ہوں۔ پہاڑی کی چوٹی زیتون کے درختوں، جنگلی انجیر اور کیکر سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ایک تنگ سا راستہ اس کے گرد کھومتا ہے جہاں ہم شام کی سیر کرتے ہیں۔ پہاڑی کی شمالی سمت میں چار بنگلے ہیں، بنوں بنگلہ، ڈپٹی کمشنر کا بنگلہ، مشن بنگلہ اور آخری والا پولیس کا بنگلہ۔ یہاں ایک مندر بھی ہے جس کے سامنے ایک فقیر اپنی زندگی گزار رہا ہے اور قریب موجود تالاب کے کنارے مراقبہ کرتے پایا جاتا ہے۔“
سکیسر کا راستہ اوچھالی جھیل سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہاں پہنچنے کے لیئے آپ کو پاک فوج کی اجازت درکار ہے۔ اِسے دیکھنے سے پہلے میں صرف اس کی دفاعی اہمیت سے واقف تھا لیکن ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن پنجاب (TDCP) کا شکریہ کہ انہوں نے اس ائیر بیس کے اندر موجود تمام تاریخی و سیاحتی مقامات دکھائے اور ان کی تاریخ سے استفادہ کرنے کا موقع دیا۔ بے شک یہ جگہ لاجواب ہے۔
اس پہاڑ کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ سکیسر پہاڑ اپنے منفرد جغرافیئے، خوبصورت نظاروں اور ٹھنڈے موسم کی بدولت متحدہ ہندوستان کے تین اضلاع، سرگودھا، کیمبل پور (اٹک) اور میانوالی کے ڈپٹی کمشنروں کا گرمائی صدر مقام تھا۔ آج بھی پہاڑی پر جاتے ہوئے راستے میں ان کے ریسٹ ہاؤس دیکھنے کو ملتے ہیں جو اب حکومت کے زیرانتظام ہیں۔
اسکے شاندار محلِ وقوع کی بدولت، 1950 کی دہائی میں پاکستان ائیر فورس نے یہاں ائیر بیس بنانے کا منصوبہ بنایا جہاں مغربی پنجاب کی فضائی حدود پر نظر رکھنے کے لیئے ایک ریڈار نصب کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک بوسٹر بھی لگایا گیا ہے۔
یہ پنجاب کی وہ واحد جگہ ہے جہاں مجھے جانوروں کے آزاد گھومنے کے لیئے بہترین قدرتی جنگل دیکھنے کو ملے۔
پاکستان ائیر فورس بیس کے اندر کچھ دلچسپ مقامات ہیں جو میں چاہتا ہوں کہ آپ دیکھیں۔

٭جنگلی زیتون ؛
سب سے پہلے ایک انوکھی چیز جو یہاں کے لان میں موجود ہے وہ ہے
Wild Olive waiting to decay
یعنی گلنے کے عمل سے گزرنے والا جنگلی زیتون کا درخت۔ اسکا خوبصورت آدھا تنا آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ اس پر لگی تختی کے مطابق :
”This tree has tremendous environmental and economical value.
This particular tree, estimated to be arround 130 years old was discovered dead waiting to decay in years to be part of nitrogen cycle. An officer spotted thid tree and with tremendous efforts it was relocated at this spot to stand tall as relic of local heritage.”
جنگلی زیتون جسے مقامی زبان میں ”کہو” کہا جاتا ہے، 500 سے 2000 میٹر تک کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔ یہ درخت زبردست ماحولیاتی و معاشی افادیت کا حامل ہے۔ یہ درخت جو تقریباً 130 سال قدیم ہے چند سال تک گلنے کے عمل کے انتظار میں پایا گیا ہے۔ ایک آفیسر نے اسے دریافت کیا جس کے بعد اسے یہاں لا کر رکھا گیا تاکہ اس قدرتی ورثے کو محفوظ بنایا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سکیسر کی غار ؛
یہاں کا دوسرا عجوبہ ہے یہاں واقع وہ خوبصورت غاریں جو یہاں کے لینڈ اسکیپ سے بالکل مختلف ہیں، انہیں ہم (سکیسر کی غاریں) کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے اندر موجود یہ غار نما حصہ سکیسر بیس کی ایک سائیڈ پر واقع ہے۔ اس طرح کا لینڈ سکیپ پورے پاکستان میں میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ بلا شبہ اس کے حسن اور اس کی ساخت کو بیان کرنے سے میں اور میرا قلم دونوں قاصر ہیں۔
پرانا مندر ؛
پاک فضائیہ ائیر بیس کے اندر ایک اور تاریخی جگہ یہاں موجود پرانا مندر ہے جو سڑک کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ پرانے وقتوں میں یہاں ویساکھی کا تہوار زور و شور سے منایا جاتا تھا۔ جبکہ اس کے قریب بنے تالاب میں ہندو دھرم کے لوگ اپنے پاپ (گناہ) دھونے کی نیت سے اشنان (نہانا) کیا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں یہاں کافی ہندو آیا کرتے تھے لیکن اب یہ مندر ایک ویران اور اجاڑ تاریخی عمارت کا منظر پیش کرتا ہے۔
شاید یہ وہی مندر ہے جس کا ذکر لیڈی ولسن نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔
اس کے اندر جائیں تو اسکا خوبصورت فریسکو آرٹ ورک کسی بھی آرٹ کے دلدادہ شخص کا دل لُبھانے کو کافی ہے۔ کاش کہ اسے دوبارہ مرمت کر کے بچایا جا سکتا۔اس مندر کے اندر بنے بیل بوٹے اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
میوزیم ؛
پاک فضائیہ کی تاریخ میں سکیسر ائیر بیس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے یہاں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی قائم کیا گیا ہے۔ میوزیم کیا ہے معلومات کا ایک خزانہ جہاں سکیسر پہاڑ اور اس کے اردگر کی تعمیرات کا ایک ماڈل، 1965 کی جنگ میں استعمال ہونے والے ریڈار اور دیگر آلاتِ حرب، 1889 میں لیڈی کیمبل ولسن کی لکھئ گئی کتاب کا عکس، ایک قدیم اور خوبصورت پیانو، سکیسر کے ریڈار کی تاریخ و تعمیر اور پاک فضائیہ کے پرچم رکھے گئے ہیں۔
اس میوزیم سے ذرا نیچے کی طرف جائیں تو ”زپ لائن” اور تیر اندازی کے لیئے ایک جگہ مختص کی گئی ہے جس سے محظوظ ہونے کا شرف ہمیں بھی حاصل ہوا۔
باغِ زیتون؛
بیس کے اندر ہیلی پیڈ کے پاس ایک خوبصورت زیتون کا باغ واقع ہے جہاں قطار اندر قطار زیتون کے درخت ڈھلتے سورج کی روشنی میں شام کا ایک سحر انگیز نظارہ پیش کرتے ہیں۔
اس وادی کا حسن انہی زیتون کے درختوں کی بدولت ہے جنہیں دیکھ کر لیڈی کیمبل ولسن ان پر مر مٹی تھیں۔ اس باغ میں کوئٹہ اور مری سے لا کر چیری کے درخت بھی لگائے گئے ہیں۔
اوپر بیان کی گئی جگہوں کے علاوہ یہاں 1965 کی جنگ کی یادگارِ شہدا، ایک دستکاری کی خوبصورت دوکان اور ایک تالاب بھی موجود ہے۔
سکیسر ائیر بیس نے 1965 کی جنگ میں پاکستان کے فضائی دفاع میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بلاشبہ یہ جگہ اور یہاں کے لوگ، فضا میں لڑی جانے والی ایک اہم جنگ کے عینی شاہدین ہیں ۔ ایم ایم عالم اور ان کے جہاز کو بھی اسی بیس کے ریڈار سے کنٹرول کیا گیا تھا جب انہوں نے بیک وقت چھ طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ جگہ بیک وقت دفاعی، سیاحتی، تاریخی اور سٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply