عورت کی مظلومیت کا ذمہ دار؟۔۔۔محمد نذیر ناصر

یورپ نے کبھی بھی انسان کو احترام نہیں دیا جو بحیثیت انسان احترام کا حقدار ہے مغربی عورت کا بھی یہی حال رہا ہے ہمیشہ عورت کو متنازع بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔  ۔ 1958ءمیں انگریزی قانون نے مردوں کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ چاہیں تو اپنی بیویوں کو فروخت کر سکتے ہیں عورت کی قیمت بھی رائج سکے کے مطابق مقرر کردی تھی اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی مشہور ہے کہ ایک اٹالین مرد نے اپنی بیوی کو قسطوں کی مد میں فروخت کر دیا تھا جب خریدار قسط ادا نہیں کر سکا تو اس کو اٹالین نے قتل کردیا۔
مغربی مذاہب عورت کو معاصی کی جڑ اور انسانی مشکلات کا سب سے بڑا سبب قرار دیتے ہیں۔ عسائیوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ عورت چاہے جتنی بھی خوبصورت حسین اور جمیل ہو اس کے لیے شرم حیاءلازمی ہے  کیونکہ وہ گناہوں کا سب سے بڑا سببب ہے۔

روما اور یونان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کو معاشرے میں مرکزی حیثیت حاصل تھی حالانکہ یہ سب حقیقت کے بر عکس باتیں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں اصل حقیقت تو یہ ہے کہ نسوانیت کی منزلت وہ ہر گز نہیں تھی جس کو یونان اور روما نے متعارف کرایا تھا ۔ روما اور یونان میں تو مرکزی حیثیت کی حامل وہی خواتین تھیں جن کا تعلق بڑے گھرانوں سے ہوتا جواپنے اوصاف کی وجہ سے تقریبات کی روح رواں سمجھی جاتی تھی جس کی آؤبھگت صرف عیاش طبقہ کرتا تھا ان خواتین کی حیثیت بگڑے ہوئے طبقے کے لیے سامان تفریح کی سی بن کر رہ گئی تھی۔
جب ہم یورپ  کے مختلف ادوار کاجائزہ لیتے ہیں تو یورپ کے نعرہ حقو ق نسواں اور دعوؤں میں کھوکھلا پن  نظر آتا ہے کہ جو نعرہ یورپ کا آزادی نسواں کے نام کا یہ وہی نعرہ یورپ  کے ماحول اور معاشرے کے لیے ناسور ثابت ہورہا ہے ۔ جاگیرداری نظام اور عورت جس وقت انگریز نے جاگیردارانہ نظام متعارف کرایا تو اس دور میں عورت کی حیثیت ایک مشین سی قرار دی گئی جس کا کا م بچے پیدا کرنا اور دن رات جانوروں کی طرح کام کرناتھااور عورت کا وظیفہ حیات اسی کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ یور پ  کا مزاج کج روی اور سنگدلی سے مرکب ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر خلوص اور درد کا دور دور تک نام و  نشان نہیں ہوتا ۔ یورپ  اپنے فوائد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ پوری انسانیت کو مشکلات کی طرف دھکیلتا رہا ہے ۔
اگرآج بھی ہم یورپ کی طرف صرف نظر کریں تو ہمیں یہی نظر آئے گا کہ امریکہ ایشیاء میں مداخلت کرتا ہے تو یہ اس کی سرشت کا حصہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے پاکستان افغانستان عراق اور اب مصر اور لبنان وغیرہ مین بھی صرف اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہا ہے ۔

صنعتی انقلاب اور عورت!
یورپ میں جب صنعتی انقلاب آیا تو عورت اور بچے گھر کی دہلیز پار کرکے اس صنعتی  دوڑ میں شامل ہوگئے ،کارخانوں کا رخ کرلیا جہاں محنت مشقت کرنا پڑی ، پھر وہی مزدور طبقہ شہر کا رخ  کرنے لگا شہروں میں بھی اخلاقی اعتبار سے تنزلی اور بے اصولی کی فضاءنے جنم لیا ۔ صنعتی انارکی میں مرد عورت اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے جو موقع پاتے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس کی وجہ سے مردوں میں شادی کی خواہش   دم توڑنے لگی تھی،عورت کا احترام ختم ہوگیا عورت پہلے سے زیادہ مشقت اُٹھانے پر مجبور ہوگئی، مرد نے عورت کا سہارابننے سے انکار کردیا، خاندانی نا انصافیاں عام ہوگئیں ، عورت سے کام زیادہ اور معاوضہ کم دیا جانے لگا۔ صنعتی دور میں کارخانے والوں نے عورت کی مظلومیت سے ناجائز فائدہ اٹھا نا شروع کر دیا۔

صنعتی دور میں عورت کا احتجاج!!صنعتی دور میں عورتوں او ر بچوں پر جو مظالم بڑھائے گئے تھے بعض باضمیر افراد سے عورت اور بچوں کی یہ مظلومیت برداشت نہ ہوئی تواس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ، چنانچہ بچوں کے حقوق میں ان کو کامیابی تو ہوئی اور بچوں کی عمر ملازمت میں اضافہ کردیا گیا اور معاوضہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ۔ مگر عورت اسی طرح ظلم کا شکار بنی رہی کیونکہ ان کی کوئی فکر کرنے والا نہ تھا اور نہ ہی ان کے احتجاج کو کوئی سننے والا تھا ، ایسی فکر کے لیے تو ذہنی اور اخلاقی پاکیزگی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے یورپ خود محروم تھا عورت اپنے حقوق سے محروم ہی نہیں رہی بلکہ عورت کے مصائب و آلام میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور آج عور ت اس مقام پر آٹھہری ہے جہاں اس کی عزت اور ناموس کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ جنگ عظیم اور عورت : جب جنگ عظیم کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کثیر تعداد میں مرد قتل کر دئیے گئے یا گرفتار کئے گئے چنانچہ 24لاکھ فرانس کے اور 6لاکھ انگلینڈ کے اور 4لاکھ لوگ اس جھنگ کی نظر ہو گئے۔
جس سے مردوں اور خواتین میں اتنا خلا واقعہ ہوگیا کہ جس کو اتنی جلدی کنٹرول کرنا یورپ کے بس کی بات نہ تھی اور نہیں یورپی مذاہب میں تعدد ازواج جیسا اسلامی سنہرہ قانون تھا کہ کہ ہنگامی بنیادوں پراس خلاءکو پور کرکے معاشرے کو جنسی اور اخلاقی برائیوں سے نجات مل سکے یہ شان بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عطاءکی اور حکم دیا ۔
جنگ عظیم میں باقی ماندہ بوڑھے اور بچے عورتوں کے رحم و  کرم پر جینے لگے عورت کو اپنے متعلقین کی بھوک سے مر جانے کے ڈرنے عورت کو مزید کارخانوں کی طرف رخ کرنے پر مجبو ر کردیا عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگ گئی جس کی وجہ سے عورت اپنی نسوانیت اور حرمت دونوں سے محروم ہو گئی کارخانوں کے مالکان کو اب صرف کام کرنے والے ہاتھوں کی تلاش نہیں تھی بلکہ وہ عورت کی اس بے بسی کو دیکھ کر اپنی خواہشات نفسانی کی تسکین کے لیے سامان بھی تلاش کر نے لگے اور اسںے  سنہرہ موقع سمجھ کرفائدہ اُٹھانے لگے۔ اس طرح سے عورت کو دہرے ظلم کا شکار ہونا پڑا ایک طرف مزدوری کی مشقت صنف نازک پر آن پڑی تو دوسری طرف کارخان مالکان کا دل بہلاناذمہ داری بن گئی ۔
ایک دور آیا عورت یورپ میں اتنی بے بسی اور لاچارہوئی کہ عورت جذبات اور خواہشات کی نظر ہوگئی۔ عورت میں بناؤسنگھار  جیسی خواہشات بڑھنے لگیں ۔ مردوں کا دل بہلانااورجائز ناجائز سے طریقہ سے جنسی آسودگی حاصل کرنا عورت کا مقصد حیات بن گیا۔

مساوی حقوق کی جنگ اورعورت : اس صورتحال نے مجبور کردیا کہ اب عورت اپنے مساوی حقوق کی جنگ کےلئے میدان میں نکل آئے چنانچہ عورت نے اپنے مساوی حقوق کے حصول کے لیے میدان میں آئی اور محنت شروع کر دی لیکن یورپی مرد اتنی آسانی سے اپنی بالادستی سے دست بردار ہونے والے نہیں تھے کہ وہ صنف نازک کے مقابلے میں اپنی آنا کی شکست کو قبول کرتے۔عورت کا احتجاج شروع ہوگیا عورت کے اس احتجاج میں شدت آگئی اہل قلم نے بھی عورت کی اس جنگ میں بھر پورمدد کی تب جاکر عورت کو اپنے حقوق کی منزل مل گئی سب سے پہلے حق خواتین کا حق رائے دہی کا مطالبہ کیاگیا پھر رفتہ رفتہ عورت کی خواہشات کے قطروں نے سمندر کا رخ اختیار کیا پھر نعرہ لگا کہ عورت کو پارلمنٹ کا رکن ہوناچاہیے،اس نعرے کی وجہ یورپ  کا اپنا ترتیب دیا ہوا معاشرہ تھا جو ہر لحاظ سے مرد وزن کی برابری کادعویدار ہے لیکن یورپ  اس پر عمل کرنے سے قاصر تھا۔

برطانیہ اور حقوق نسواں :
یہ دور بھی عورت کے لیے سخت  ثابت  ہوا مگر جلد ہی عورت کے مساوی حقوق تسلیم کر لئے گئے لیکن ان مساوی حقوق کو یورپی معاشرہ برداشت نہ کر سکا اور یوں مردوں کے حقوق کی پامالی کا ایک نیا باب کھلا ایک وقت ایسا آیا کہ قیادت وسیادت میں عورتیں مردوں سے کوسوں دورنکل گئیں  اور مرد وں نے اپنی ناکامی کا رونا شروع کردیا۔ 1710ءمیں برطانیہ نے حجاب پر پابندی عائد کردی عورتوں کو زبردستی کم کپڑے پہننے پر مجبور کیا گیاعورت کو گھر کے ماحول سے نکال کر سڑکوں اور بازاروں کی زینت بنا دیا جس سے یورپ دنیاکی سب سے بڑی برائی کی آماجگاہ بن گیا ۔ 1995ءمیں بنجنگ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عورت کی مظلومیت اور مقہوریت پر بحث کی گئی اورایک بار پھر عورتوں کے حقوق میں مساوات کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ عالمی سطحی پر متعارف کرایا گیا۔

یورپی مساوات کی حقیقت :
یورپ نے اپنے بخل اور سنگدلی اور محسن کشی کی وجہ سے کبھی انسانیت کو احترام سے نہیں نوازا کبھی اپنے مفاد سے ہٹ کر انسانیت کی بھلائی کا کوئی بھی کام سر انجا م نہیں دیا ہمیشہ انسان کو نقصان پہچانا یورپ کا طرہ امتیاز رہاہے ۔ آج کئی ہزار سال گزر  چکے ہیں مگر یورپی مزاج میں  ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی اور نہ تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے ،الا ماشاءاللہ “ یورپ دور جدید میں بھی نام نہاد حقوق نسواں کا  نعرہ لگاتا ہے اور مساوات میں ہر لحاظ سے مرد اور عورت میں برابری کا اعلان کر تا ہے ،اوراسلام کو ان مساوات میں سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے جبکہ اسلام  یورپ کی طرح کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ عملی طور پر مساوات کا درس دیتا ہے مرد اور عورت کے وظیفہ حیات میں اسلام عوت کی جبلت اور نسوانیت کے اعتبار سے فرق کرتا ہے اور یورپ مقصد حیات میں بھی مساوات کا حامی ہے جس پر خود وہ عمل کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔
جب ہم یورپ میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں تو چند مسائل یورپ میں ایسے نظر آتے ہیں  جو  یورپی مساوات کی حقیقت  آشکارہ کرنے کےلئے کافی ہیں اگر یورپ اپنے نعروں میں سچاہے تو 2000سال سے ویٹی کن سٹی میں کسی عورت کو پوپ کے منصب پر فائز کیوں نہیں کرتا ؟؟ دنیا کے ہر چرچ میں مرد عورت ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں۔ مگر آج تک کسی عور ت کو دعا کی قیادت کیوں نہیں دی جاتی ۔ اسی طرح یورپ کا سب سے بڑا مداح بھارت جس میں ہندوں مرد عورت ایک ساتھ پوجا کرتے ہیں مگر اس میں آج تک کسی خاتون کو گروہ کے عہدے پر فائز نہیں کیاگیا ؟ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام  نے جو اعلان کیا ہے
۔”الرجال قوامون علی النساءبمافضل اللہ بعضہم علی بعض و بما انفقو من اموالھم “) آیت نمبر 34سورة نساءپارہ 5رکوع نمبر 1 )
ترجمہ ؛اللہ تعالیٰ نے فوقیت دی ہے مردوں کو عورتوں پر اس وجہ سے کہ یہ مرد ان پر خرچ کریں اپنے مالوں میں سے ،
یہ سنہرہ قانون اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دیا اورانسانیت کو بتلادیا کہ دیکھو مردوں کا کا م یہ ہے اور عورت کا کام یہ ہے مرد کاکام گھر میں کماکر لانا ہے اور عورت کا کا م بچوں کی پر ورش اور اپنی عزت کا خیال رکھنا ہے ،یورپ   اپنی پوری کوشش کے باوجود اس حقیت سے پہلوتہی نہیں کرسکا اور نہ ہی کر سکتا ہے،لیکن اسلام دشمنی اور اپنی سرشت سے مجبور ہو کر اس کا اعتراف نہیں کرتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یورپ میں حقوق نسواں کی پامالی!
یورپ میں امریکی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 60فیصد خواتین اپنے باس یا سینئر کے ہاتھوں جنسی بلیک میلنگ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ہرسال 10لاکھ  کمسن بچیاں ناجائز بچوں کی ماں بنتی ہیں اور اتنی ہی تعداد اسقاط حمل کرواتی ہیں۔15ہزار امریکی خواتین اپنے خاوند، بوائے فرینڈ کے ہاتھوں اپنی جان گنوا دیتی ہیں۔ 34فیصد خواتین ایسی ہیں جو اپنے شوہر کا ظلم سہتے سہتے قتل ہوجاتی  ہیں،30فیصد زخمی حالت میں ایسی آتی ہیں جن کو ان کے خاوند نے زخمی کیا ہوتا ہے۔ ہر 30سیکنڈ کی مقدار میں ایک عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،غیر سرکاری اداروں کے مطابق 3لاکھ 12ہزار سے زیادہ خواتین تشدد کا شکار بنتی ہیں جبکہ سرکاری اداروں میں 3لاکھ 10ہزار سے زیادہ اس کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ ۔ ایک سال میں دو لاکھ سے زائد بچے زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں جن میں سے 75فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ دن میں 100میں سے 35بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے والد کا پتہ نہیں ہوتا دنیا میں آنے کے بعد ان کے والد کی جگہ والدہ کا نام چلتا ہے۔ مگر یورپ میں عورت کے ساتھ اتنے برے سلوک کے باوجود اسلام کوہی ہمیشہ مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ رپورٹ سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یورپ حقوق نسواں کا نعرہ صرف لوگوں کو اسلام سے دور کرنے  کے لیے لگاتا ہے مگر یورپ  اس بات سے بے خبر ہے کہ جتنا بھی وہ اسلام کو سازشوں کے  ذریعے دبانے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی اسلام پھیلتا جاتا ہے ۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھ دی ہے ۔۔یہ اتنا ہی اُبھرے گا جتنا کہ دباو  گےاب کیسے ملحدین کہہ  سکتے ہیں کہ اسلام نے عورت پر ظلم کیے۔سچ یہ ہے کہ عورت پر ظلم کی ساری ذمہ داری یورپ،سیکولر اور لبرل طبقے پر عائد ہوتی ہے۔لیکن یہاں ملحدین اپنے والد یورپ کے ظلم پر آنکھیں بند کر لیں گے کیونکہ ان کا کام اسلام پر بھونکنا ہے۔

Facebook Comments

محمد نذیر ناصر
جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ میں پی آر او اور مقامی ایک روزنامہ میں بطور نیوز ایڈیٹر کام کررہاہوں، حقائق کی تلاش میں سرگرداں ایک مسافر جس کا مقصد انسانیت کی فلاح وبہبود کےلئے کام کرنا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply